ڈرامہ ”صنف آہن “کا پیغام ہمارے نصاب کا حصہ کیوں نہیں؟

آج کل ٹی وی پر ایک ڈرامہ سیریل ”صنف آہن“ دکھایا جا رہا ہے،اس ڈرامہ کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری نے بھی بڑے اچھے ڈرامے بنانے شروع کر دیے ہیں۔ یہ ڈرامہ جسے آئی ایس پی آرکے اشتراک سے بنایاگیا ہے، اسے عمیرہ احمد نے لکھا اور ندیم بیگ نے اس کی ہدایت کاری کی ہے۔اس پروجیکٹ کے پروڈیوسر ہمایوں سعید ، ثمینہ ہمایوں سعید ، شہزاد نسیب اورثنا شاہنواز ہیں۔اس میگا پروجیکٹ کی مرکزی کاسٹ سجل علی ، یمنا زیدی، سائرہ یوسف ، کبری خان اور رمشا خان پر مشتمل ہے۔ویسے تو مجھے پاکستانی ڈراموں سے زیادہ لگاﺅ نہیں مگر چلتے چلتے یونہی اس ڈرامے پر نظر پڑی تو اسے دیکھنے کی ایسی لت پڑی کہ اب اس کی اگلی قسط کا انتظار رہتا ہے۔ اس ڈرامہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں حب الوطنی، یگانگت، یکسانیت اور وطنیت کا جو پیغام دیا گیا ہے وہ نہ تو نصاب سے ملتا ہے، نہ سکول سے، نہ کالج سے اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے۔ اس ڈرامے میں حب الوطنی کمال کی ہے مگر انتہا پسندی نظر نہیں آرہی، اس ڈرامے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی مذہب انتہا پسند نہیں ہوتا، بلکہ انتہا پسند تو لوگ ہوتے ہیں! یقینا یہ ایک اچھی کوشش ہے کیوں کہ ہمیں کسی نصاب میں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا ہے کہ ہم نہ تو سندھی ہیں، نہ بلوچی، نہ پنجابی ، نہ پختون بلکہ ہم صرف ”پاکستانی“ ہیں۔ اور یقینا یہی چیزیں ہمیں انتہا پسندی سے دور لے کر جا سکتی ہیں!جیسے اس ڈرامہ میں ایک کردار ”پری وش“ بھی ہے یہ وہ بلوچ لڑکی ہے جس کا باپ بڑی مشکل سے اپنی بچی کو فوج میں ٹریننگ کے لیے بھیجتا ہے اُس لڑکی کا ڈرامے میں اپنے والدین کو لکھاگیا خط ملاحظہ فرمائیں! پری وش لکھتی ہے کہ ”اسلام و علیکم پیارے ابو! مجھے اُمید ہے آپ ٹھیک ہوں گے، اور آپ سب مجھے یاد کر تے ہوں گے، بالکل ویسے ہی جیسے میں آپ کو یاد کرتی ہوں۔ ابو! فرسٹ ٹرم میں ہمیں گھر فون کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن ہم گھر والوں کو خط لکھ رہے ہیں، اس لیے میں آپ کو خط لکھ رہی ہوں، اور آپ کے خط کا انتظار بھی کروں گی۔ابو! میں جانتی ہوں کہ میرے یہاں آنے پر بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوگی جسے آپ نے جھیلا ہوگا ، اس لیے مجھے ڈر لگتا ہے کہ سردار نے آپ کو اور گھر والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی ہو۔ اگر کی بھی ہو گی تو میں جانتی ہوں کہ آپ سب کچھ مجھ سے چھپائیں گے، کیوں کہ آپ چاہیں گے کہ میری ٹریننگ متاثر نہ ہو اور میں پریشان ہو کر وہاں سے بھاگ نہ آﺅں۔ ابو! میں آپ کی دلیر بیٹی ہوں، اور آپ نے ہمیشہ مجھے دلیر بنانے کی کوشش بھی کی ہے، مگر آپ کی ”پری“ اتنی دلیر نہیں ہے، اور یہ بات مجھے یہاں آکر پتہ چلی ہے، لیکن میرا یونیفارم میرا ڈر ختم کرنے میں میری مدد کر رہا ہے۔ اور ابو! میں نے اپنی تنخواہ کے پیسے آپ کو بھیجنے شروع کر دیے ہیں، یہاں پی ایم اے میں بہت سی چیزیں میں استعمال نہیں کرتی، کیوں کہ مجھے بہت سے پیسے بچانے ہیں ۔ جب باقی لڑکیاں کیٹین سے چیزیں منگواتی ہیں تو میں نہیں منگواتی، میں کہتی ہوں کہ میں یہ نہیں کھاتی، وہ نہیں کھاتی، ایسا میں اس لیے بھی کرتی ہوں کہ تھوڑے پیسے بچا سکوں !کیوں کہ ابو میں نے وہ زمین کا ٹکرا واپس لینا ہے جو اتنے عرصے سے کسی کے پاس ہے، مجھے چپس، برگر، چاکلیٹ وغیرہ کھا کر کیا کرنا ہے، ہم کو بس سردار کا قرض چکا کر زمین واپس لینی ہے۔ اور ابو! آپ کی پری وش آپ کا یہ خواب ضرور پورا کرے گی۔ ابو! آپ ہمیشہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تم بلوچستان کی بیٹی ہو، سبی کی بیٹی ہو، مگسیوں کی بیٹی ہو! لیکن پتہ ہے ابو! کہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آکر میں تو پاکستان کی بیٹی نکلی! میری شناخت تو پاکستان کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں! جب میں یونیورسٹی ، کالج میں گولڈ میڈل جیتا کرتی تھی، تو مجھے ایک ہی فخر ہوتا تھا کہ میں اپنے قبیلے خاندان، شہر، علاقے اور صوبے کی شان بڑھا ﺅں ۔ لیکن پی ایم اے نے مجھے بتایا کہ ایک فرد کے طور پر کسی کی پہچان اُس کا ملک ہوتا ہے، قومیت نہیں ہوتی! صوبہ بھی نہیں قبیلہ بھی نہیں!جب ہمارے ٹرم کمانڈر نے ہمیں قومی ترانے کا مفہوم سمجھایا تو اُس پورے قومی ترانے میں صرف ایک چیز کی گونج تھی قوم ،ملک اور سلطنت ۔ پورے قومی ترانے میں کہیں بھی سندھ ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ ، گلگت بلتستان، کشمیر کہیں یہ الفاظ تھے ہی نہیں! تو مجھے خیال آیا کہ ہمارے ذہنوں میں قوم، مذہب، صوبہ، قبیلہ اور زبان کی تفریق کس نے ڈالی؟ ہم سب کے درمیان اتنی لکیریں کس نے کھینچ دیں؟ یہاں پی ایم اے میں بیٹھ کر بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں، بہت سے جواب بھی ملتے ہیں !لہٰذاابو! میں صرف بلوچستان کی بیٹی نہیں رہی! اور یہاں پی ایم اے سے نکلنے کے بعد پوری قوم کو صرف ایک جذبے سے دیکھوں گی اور وہ جذبہ ”پاکستانیت“ کا ہوگا۔ امی کو میرا سلام دینا، اور اُن کو بتادیں کہ میں یہاں بھی بندوق چلاتی ہوں، لیکن یہاں مجھے کوئی چپل نہیں مارتا! ”صنف آہن “میں کرسچن لڑکی ”آرزو“ کا کردار بھی بہت اہم ہے، یہ لڑکی یعنی اداکارہ سائرہ یوسف اس ڈرامے میں غریب گھرانے کی ایک مسیحی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے مالک مکان کے سرکاری ملازم بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہیں تاکہ نہ صرف ان کے بلکہ ان کے خاندان کے مالی حالات بھی بہتر ہو سکیں۔لیکن وہ پی ایم اے میں آگئی اور اُسے زندگی جینے کا ایک مقصد مل گیا۔ وہ اپنی والدہ کو خط لکھتے ہوئے کہتی ہے کہ پیاری امی! سلام! میں اُمید کرتی ہوں کہ گھر میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، مجھے پتہ ہے کہ میرا خط دیکھ کر آپ حیران رہ گئے ہوں گے لیکن یہاں پی ایم اے میں ہر ویک اینڈ پر گھر والوں کو خط لکھنا ہوتا ہے، اور میں بھی لکھ رہی ہوں! آپ کو اپنی سیلری بھی بھجوا دی ہے، بس تھوڑے سے پیسے اپنے لیے رکھے ہیں، لیکن پھر بھی آپ کو اتنی سیلری بھجوا دی ہے کہ ہر مہینے گھر کا کرایہ ادا ہو جائے گا،اور ہر مہینے مالک مکان کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔ نہ کوئی جھوٹ بولنا پڑے گا اور نہ کوئی بہانا بنانا پڑے گا، اور یہ فوج کا مجھ پر پہلا احسان ہے کہ اس نے مجھے چھت جیسی نعمت سے بے نیاز کردیا ہے۔ جب میں پاس آﺅٹ ہو جاﺅں گی تو مجھے ایک گھر مل جائے گا، اور پھر میں سب کو اپنے پاس رکھوں گی۔ امی! پی ایم اے آنے سے پہلے ہمارے دل میں بہت سے خدشات تھے، یہ وہی خدشات تھے جو یہاں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے ، مجھے لگتا تھا کہ یہاں بھی میرے ساتھ میرے مذہب کی وجہ سے مجھے نشانہ بنایا جائے گا، لیکن یہ دن ہی الگ ہی دن ہے، یہاں آکر میں نے پہلی مرتبہ Equality محسوس کی ہے، وہ Equalityجو پاکستان کے پرچم میں ہمیں دی جاتی ہے اور جس کا قائداعظم نے وعدہ بھی کیا تھا، وہ یہاں پہلی مرتبہ میں محسوس کر رہی ہوں۔ یہاں جو سزا مجھے ملتی ہے، وہی سزا میرے ساتھ دوسروں کو بھی دی جاتی ہے، یہاں جو سہولت مجھے حاصل ہے وہی دوسروں کوبھی حاصل ہے، یہاں جو سہولت دوسروں کو میسر نہیں وہ مجھے بھی میسر نہیں!مگر یہ سب کچھ بہت مختلف ہے، اور اب اگر میں ایسے ماحول میں رہ رہی ہوں تو یقین مانیں مجھے اس ملک کی قدر پہلے سے بھی زیادہ ہورہی ہے۔ اور میرا پیار بھی بڑھ رہا ہے! امی! سب کچھ برا اُس وقت تک ہوتا ہے، جب تک کسی Opportunity کو استعمال نہیں کیا جاتا۔مجھے ایک موقع ملا تو میں یہاں بیٹھی ہوں اور یہاں سے زندگی کسی اور انداز میں ہی نظر آرہی ہے۔ میں یہاں پہلی دفعہ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کر رہی ہوں ،بے بس نہیں! اس ڈرامہ سیریل میں چھپے پیغامات یقینا حب الوطنی کا درس دیتے نظر آتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ کیا ان چیزوں کو سیکھنے کے لیے ہماری نسل کو فوج میں بھرتی ہونا پڑے گا؟ اگر نہیں تو خدارا ہمیں اپنے نصاب کو بدلنا ہوگا، اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اور پھر یہ پیغام صرف اسی ڈرامہ میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر ڈیپارٹمنٹ ، ادارے میں ہوناچاہیے، ہر سکول، ہرکالج میں ایک پیریڈ اخلاقیات کا، ڈسپلن کا اور حب الوطنی کا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالات تو یہ ہیں کہ یہاں جب طالب علم 4سال کی گریجوایشن کر کے نکلتا ہے، تو اُسے جنرل نالج کا بالکل علم نہیں ہوتا۔ نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کون تھے،نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ خان لیاقت علی خان کون تھے، نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں اُسے کیسے حصہ ڈالنا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ نہ تو اُنہیں آغاز سے ہی اخلاقیات پڑھائی جاتی ہیں، نہ جنرل نالج پڑھایا جاتا ہے، نہ مقابلوں کے امتحانات کے لیے تیار کیا جاتا ہے، نہ ڈسپلن سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی اُنہیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھا شہری بن کر اس ملک و قوم کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں؟ یعنی ہمارے بچوں کے سکول بیگ بڑے بڑے ہیں، مگر سلیبس کے اندر کچھ نہیں!لہٰذااس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کریں، اور یہ کام ہمارے کرتا دھرتاﺅں کا ہے، اس کے لیے وہ ایسے ایسے طریقے اختیار کریں کہ طلبہ بھی اسے اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہو جیسے جب بھی کڑوی گولی بنائی جاتی ہے تو اُس کے اوپر میٹھے کا کوٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ آپ اُسے بآسانی نگل لیں اور افاقہ بھی ہو جائے! ورنہ کڑوی گولی جب بھی دیں گے تو مریض اُسے نگلنے کے بجائے باہر پھینک دے گا جس سے افاقہ ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان بھی ہو سکتا ہے! #sinf e ahan #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon