کیاواقعی الیکشن ہوں گے؟

اتوار کو ایک بار پھر الیکشن کمیشن سارا دن خبروں کی زد میں رہا۔ کیوں کہ چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے دباﺅ میں آکر استعفیٰ دیا ہے، مگر بعد ازاں خبریں آئیں کہ وہ بیمار ہیں، لیکن قیاس آرائیاں ابھی بھی جاری ہیں، کیوں کہ الیکشن کو صرف ایک ماہ رہ گیا ہے۔ اور پھر اس طرح کی خبر آنا واقعی تشویشاک ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کی دو سالہ مدت ِملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہوگئی تھی تاہم چیف الیکشن کمشنر نے ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔اطلاعات کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ان کی صحت انہیں مزید کام کی اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے البتہ یہ وضاحت کی ہے کہ ان کا استعفیٰ کسی دباﺅ کا نتیجہ نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ وہ کچھ دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہے اور اب گھر پر زیر علاج ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ جسے تادم تحریر چیف الیکشن کمشنر نے منظور نہیں کیا‘ کو ملک کے سیاسی اور انتخابی ماحول میں بم شیل کی طرح محسوس کیا گیا اور گزشتہ روز اس حوالے سے کئی طرح سے چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں کی گئیں،تاہم ترجمان الیکشن کمیشن کی بروقت وضاحت سے ان شبہات کا کسی حد تک ضرور تدارک ہو گیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمرحمید ایک ذہین اور محنتی افسر ہیں اور بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں تاہم ان کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور اس وقت میڈیکل ریسٹ پر ہیں،ان کی صحت نے اجازت دی تو وہ جلد اپنے فرائض انجام دیں گے۔الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفیٰ کے باوجود الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے، الیکشن کمیشن کے کسی کام میں رکاوٹ یا رخنہ نہیں ہے اورتعطیلات کے دنوں میں بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر کام کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ سیکرٹری کی غیر موجودگی میں دونوں سپیشل سیکرٹریز الیکشن کمیشن کاکام احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر اختیار کا منبع ہیں‘ اس لیے کسی کے آنے جانے سے الیکشن کمیشن کو بحیثیت ادارہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چیف الیکشن کمشنر اس سلسلے میں مکمل طور پر بااختیار ہیں کہ کسی دوسرے افسر کو سیکرٹری کے اختیارات سونپ دیں‘ لہٰذا اس سلسلے میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں۔ جہاں تک پانچ جنوری کو سینیٹ میں انتخابات التوا کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد کی بات ہے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ جس انداز میں پیش کی گئی تھی، اُس کی عالمی میڈیا میں بھی گونج سنائی دی ہے۔ یہ نیک شگون تو نہیں ہے مگر اللہ کرے ایسا کچھ نہ ہو جیسے شوشے چھوڑے جار ہے ہیں۔ اور پھر دباﺅ تو ویسے بھی الیکشن کمیشن پر اس وقت بہت زیادہ ہے کہ کسی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی ۔ کیوں کہ کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن پر خاصا دباﺅ ہے۔ کبھی ایک جماعت کے عہدیداران کو نکال باہر کیا جارہا ہے، تو کبھی اُسی جماعت کے اراکین کی پکڑ دھکڑ پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ،، اور تو اور کبھی اُس کے انٹرا الیکشن کو ہی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اُس سے انتخابی نشان ہی واپس لے لیا جاتا ہے۔ جسے بعد ازاں عدالت عالیہ کے حکم پر واپس کیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر بلے کا نشان واپس لے لیا جاتا ہے۔ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے الیکشن کمیشن دیکھے، جنہوں نے ڈکٹیٹر شپ کے دوران بھی الیکشن کروائے مگر جتنا متنازع موجودہ الیکشن کمیشن ہے، شاید ہی کوئی ہو۔ اور پھر جب ایسے حالات میں الیکشن ہوں تو کیا اگلے پانچ سال کیلئے بننے والا سسٹم چل سکتا ہے؟ کیا اس طرح ملک ترقی کر سکتا ہے؟ اور پھر کیا اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کوئی جماعت ختم ہوسکتی ہے؟ چلیں آپ پاکستان کی مثال نہ لیں۔ آپ اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔ جہاں 2009سے بنگلہ دیش عوامی لیگ (BAL) برسر اقتدار ہے، اور شیخ حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں۔ جبکہ وہاں کی مقبول جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپوزیشن میں ہے، اس جماعت کی چیئرپرسن خالدہ ضیا ہیں۔ یعنی اعدادو شمار کے مطابق بی این پی کی مقبولیت کا گراف42فیصد، جبکہ عوامی لیگ کا گراف 24فیصد ہے۔ عوامی لیگ نے ان 14سالوں میں ہر حربہ استعمال کیا کہ بی این پی کی مقبولیت کم ہو جائے مگر وہ ہر گزرتے دن بڑھتی گئی اور اب جبکہ آج ہی کی خبر ہے کہ حسینہ واجد الیکشن جیت چکی ہیں، ان کی جماعت نے ہر حربہ استعمال کیا ہے کہ بی این پی اقتدار سے باہر رہے۔۔ لیکن کب تک ایسا ہوگا؟ کیا کبھی انقلاب کو طاقت سے ختم کیا جا سکا ہے؟ یا کسی جماعت کو ڈرا کر دھمکاکر ختم کیا جا سکا ہے۔ جو یہ مخصوص جماعت ختم ہوگی۔ لہٰذاپاکستان میں بھی ایک ٹولہ جسے پاکستان پر زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے، چاہتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو جائے ، اس دوران اس جماعت کی قیادت پر سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے ہیں، مگر مقبولیت ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اور اب جبکہ ہر ٹوٹکا آزمایہ جا چکا ہے تو الیکشن کمیشن کے ذریعے اسے دبایا جا رہا ہے۔ کیا کسی کو 2013کے الیکشن یا د نہیں جب مذکورہ جماعت نے دھاندلی کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ مہم اگلے پانچ سال تک جاری رہی۔ کیا کسی کو علم ہے کہ اس دوران ملک نے کتنا Sufferکیا تھا؟ اگر نہیں معلوم تو میں بتاتا چلوں کہ ایک اندازے کے مطابق ملک کو 60ارب ڈالر کا نقصان اور کئی انویسٹرز نے ملک سے منہ موڑ لیا تھا؟ تو کیا الیکشن کمیشن اسی قسم کے انتخابات کروا کر اگلے پانچ سال اسی قسم کی پر تشدد سیاست چاہتا ہے؟میرے خیال میں اگر فیصلہ کرنے والوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اگر فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے جائیں تو ایک خاص جماعت آگے آسکتی ہے،،، یا دوسری طرف آپ یہ کہہ لیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یقین نہیں ہے کہ عوام انہیں ووٹ دیں گے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کروایا جائے تو کیا یہ کوئی اچھی اور جمہوری روایت ہے ؟ خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کی تو دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کا کام ہی اس پورے سسٹم پر نظر رکھناہوتا ہے، لیکن یہاں دباﺅ کام کرجاتا ہے، جیسے کئی رہنماﺅں کے معاملے نے کئی مشکوک راہیں کھول دی ہیں، کہ نااہل شخص بھی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب ابھی جن کے مقدمات کے فیصلے بھی نہیں ہوئے اُنہیں ڈسکوالیفائی کیا جار ہا ہے۔ میرے خیال میںاس سے بھی الیکشن کمیشن کی خاصی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ خیر یہ دباﺅ کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، کسی کو علم نہیں کہ الیکشن کمیشن کس کے دباﺅ میں ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں الیکشن کمیشن بارعب ہوتا ہے، اُس سے حکومت سمیت تمام ادارے خوف کھاتے ہیںکہ کہیں وہ اپنے اختیارات استعمال نہ کر لے لیکن یہاں الیکشن کمیشن حکومت اور طاقتور لوگوں سے ڈر جاتا ہے، اُن کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے۔ الغرض ہمارے ہاں الیکشن کمیشن تو اس قدر نومولود ہے کہ یہ نرسری کا طالب علم لگتا ہے، جسے والدین مکمل حقوق دینے سے ڈرتے ہیں۔ یقین مانیں یہ بھی الیکشن کمیشن ہی کی بدولت ہے کہ یہاں کوئی بھی وزیر مشیر الزام لگنے کی صورت میں کام کرتا رہتا ہے، ورنہ مہذب ملکوں میں تو کسی پر الزام لگ جائے تو وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہے، اور الزام کے ختم ہونے تک کوئی بھی پبلک عہدہ حاصل نہیں کرتا۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں جس پر سیکسوئل ہراسمنٹ کا کیس بھی چل رہا ہوتو ہم اُسے امبیسیڈر بنا دیتے ہیں، اُسے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایواڈ بھی دے دیتے ہیں اور من چاہے تو اُسے وزارت اور مشاورت جیسے عہدے بھی دیے جاتے ہیں، اور اگر ہم عوام اس پر شکوہ کریں تو ہم بہلا دیا جاتا ہے کہ آپ غلط ہیں بقول غلام ہمدانی دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر بہرکیف اگر الیکشن کمیشن مضبوط نہیں ہوگا تواگلے پانچ سال میں ملک غیر مستحکم ہوگا۔ ہر سیٹ پر 60، 65کروڑ روپے لگنا عام بات ہو جائے گی، اور منتخب ہونے والا رکن سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرے گا تب وہ منافع کمائے گا۔ لہٰذاقومی مفاد میں سب کو مل کر الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے،اور الیکشن کو یقینی بنانا ہوگا۔ کیوں کہ انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں اور جمہوریت ریاست کی بنیاد ہے۔جمہوریت کے چند سال ڈکٹیٹر شپ کے سو سال سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور رہی بات الیکشن کمیشن پر دباﺅ کی تو یہ ایک آئینی ادراہ ہے جس کے ذمے الیکشن کا انتظام ہے، اور کچھ نہ سہی پچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدہ عام الیکشن بھی ہورہے ہیں۔لہٰذاالیکشن کمیشن کو انقلابی تبدیلیوں کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے ، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو Violateکرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50سال پیچھے چلے جائیں گے!