بیرون ملک پاکستانی روٹھ گئے!

جس ملک کے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہ ہو، اُس کے معاشی مسائل نہ ہوں ، ایسا ہو نہیں سکتا۔ اور جس ملک کے پاس خریدنے کےلئے کم آئیٹمز اور بیچنے کے لیے زیادہ آئیٹمز ہوں تواُس کی اکانومی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ آپ وطن عزیز ہی کو دیکھ لیں، یہاں ماسوائے بچی کھچی ٹیکسٹائل اور زرعی اجناس کے کوئی ایسی قابل ذکر چیز نہیں ہے ، جسے بیچ کر زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہم اپنی ضروریات زندگی کی چیزیں بیرون ملک سے خرید کر پاکستان لاتے ہیں اور ایک بڑا ریونیو ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کا امپورٹ بل 50ارب ڈالر کراس کر رہا ہے اور ایکسپورٹ بل 18ارب ڈالر سے بھی نیچے آگیا ہے۔ جبکہ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے درمیان فرق 32ارب ڈالر کاہے۔ اس 32ارب ڈالر کے فرق کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک پاکستانی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، جن سے گزشتہ کئی سالوں سے ہم 30ارب ڈالر کے لگ بھگ وصول کرتے اور معاشی پہیہ چلاتے ہیں۔ لیکن اب سیاسی کشیدگیوں کے باعث اور موجودہ حکومت سے نالاں اوورسیز پاکستانیوں نے اب پاکستان میں پیسے Saveرکھنا چھوڑ دیے ہیں۔ بلکہ وہ پاکستان محض ضرورت کے لیے صرف ڈالر وغیرہ بھجوا رہے ہیں، ورنہ انہوں نے غیر یقینی صورتحال کے باعث اضافی رقوم بھجوانا بند کر دی ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ اس پر آگے چل کر بحث کرتے ہیں مگر اُس سے پہلے مالی سال 2022-23کے بارے میں سٹیٹ بنک کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں کہ مالی سال 2022-23کے دوران وطن عزیز میں ترسیلات کا بہاﺅ تین سال کی کم ترین سطح پر 27 ارب دو کروڑ ڈالر رہا۔ اس سے گذشتہ مالی سال میں یہ حجم 31ارب 30 کروڑ ڈالر تھا اس طرح حکومت کو اس مد میں 13اعشاریہ 6 فیصد کمی کا سامنا رہا۔ رقوم بھیجنے والوں میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے دوران اس میں بھی 17 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی، متحدہ عرب امارات میں کمی کی شرح 19، برطانیہ 8 فیصد ، امریکہ سے اعشاریہ صفر 9 فیصد اضافہ، خلیجی ملکوں سے ساڑھے گیارہ فیصد کمی اور یورپی یونین سے یہ اعشاریہ 7 فیصد کم رہیں۔ بادی النظر میں اس کمی کی کئی ایک وجوہات ہیں ، پہلی یہ کہ سسٹم اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے اورڈالر کے اوپن مارکیٹ اور بینک ریٹ میں واضح فرق ہونے کی وجہ سے لوگ ہنڈی(غیر قانونی طریقے)سے پیسہ بھیج رہے ہیں، دوسری یہ کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی وجہ سے رقوم کم آرہی ہیں۔ جبکہ تیسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک زیادہ تر پاکستانیوں کی تعداد تحریک انصاف سے وابستگی رکھتی ہے، یعنی آپ یوں کہہ لیں کہ ایک سروے کے مطابق 85فیصد بیرون ملک پاکستانی یا تو تحریک انصاف کے سپورٹرز ہیں یا اس جماعت کے لیے وہ ہمدردی رکھتے ہیں،اور گزشتہ سال 10اپریل سے جب سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا گیا ہے تب سے آج تک تبھی 4ارب ڈالر کی رقوم شارٹ ہو گئی ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ شارٹیج آگے چل کر مزید زیادہ ہو گی۔ بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے آپ الیکشن کا التوا ءکرتے جائیں گے ، لوگ اس سسٹم سے ہی متنفر ہوتے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانی اپنے خاندانوں کو بھی بیرون ملک شفٹ کر لیں۔ اور پھر ماضی بھی ان اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے اچھا نہیں رہا، آپ ووٹ دینے کے حق کے حوالے سے بات کرلیں،ہم نے ووٹ کا حق دینے کے لیے وعدے وعید کیے ، مگر مجال ہے ایک بھی پورا کیا گیا ہو۔ اُنہیں ووٹ کا حق دینے کے حوالے ہم نے ہر بار اُن سے دھوکہ کیا۔ حالانکہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو کسی نہ کسی حوالے سے ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شرط رکھی ہے اور اگر کوئی اوورسیز شہری اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ پندرہ سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔ ماضی میں پندرہ سال کی شرط کو ہٹایا گیا تھا لیکن اورسیز الیکٹرز بل کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ شرط پھر نافذ ہو گئی اور ابھی تک اسی شکل میں ہے۔امریکہ میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوہری شہریت نہ ہو۔ انڈیا دوہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جن کی دوہری شہریت ہے انھیں ایک اورسیز سیٹیزن آف انڈیا کی پاسپورٹ نما دستاویز دی گئی ہے جس کی مدد سے وہ ملک میں ویزہ کے بغیر آ جا سکتے ہیں، پراپرٹی خرید سکتے ہیں، لیکن نہ تو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہو سکتے ہیں۔مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک شہریوں کے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔کینیڈا میں 2019 سے پہلے تک کچھ شرائط تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے بیرون ملک رہنے والے شہری اب انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح کا حال اٹلی کا بھی ہے، لیکن اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمائندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔ لیکن ان سب کے برعکس بیرون ملک پاکستانی جو حقیقی معنوں میں ہماری معیشت چلا رہے ہیں، اُنہیں ہم اچھوت سمجھے ہوئے ہیں، یقین مانیں اگر اُن کی یہ مجبوری نہ ہو کہ اُن کے عزیز اس ملک میں رہ رہے ہیں ، وہ کبھی پاکستان کا رخ نہ کریں اور نہ ہی یہاں رقوم بھیجیں ۔ کیوں کہ ہم نے گزشتہ چند سالوں میں جتنا اُنہیں تنگ کیا ہے، شاید ہی کسی کو کیا ہو۔ انہیں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں پروٹوکول جیسی خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سوئیپر سے لے کر افسران تک اُن سے ڈالر ملنے کی توقع کررہے ہوتے ہیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو اُن کے سامان کی ”بھرپور“ تلاشی لی جاتی ہے، اور اکا دکا چیزیں غیر قانونی کہہ کر سائیڈ لائن کر دی جاتی ہیں۔ امیگریشن حکام ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی، جو” سفارشی کلچر“ کی بدولت پروٹوکول لگوا لیتے ہیں، جو نہیں لگواسکتے اُن کے ساتھ بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اُن کی تذلیل کرتے ہیں، اُن سے بے شمار قسم کے فضول سوال کیے جاتے ہیں، بار بار اُن کا سامان چیک کیا جاتا ہے۔ زیادہ مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے جب ائیرپورٹ پر بیرون ملک سے اکیلی خاتون آرہی ہو، یا اکیلے بزرگ کو بھیجا گیاہو۔ اور پھر یہ مسائل اُس وقت مزید عیاں ہو جاتے ہیں جب اُنہیں بار بار روٹس تبدیل کروائے جاتے ہیں ۔ مثلاََ پہلے پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز کی بدولت ”نان سٹاپ“ روٹس کی وجہ سے پاکستانی نیویارک، لندن، پیرس، شکاگو، جاپان وغیرہ سے براہ راست پاکستان آجاتے تھے یا یہاں سے چلے جاتے تھے، مگر اب ہم دوسری غیر ملکی ائیرلائنز کی مرہون منت ہیں، جو منہ مانگے دام وصول کرنے کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ صحیح سلوک ہی نہیں کرتی ۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ اگر جہاز لیٹ ہوجائے تو بیرون ملک پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں پر دیگر ممالک کے مسافروں کو ترجیح دیکر ہوٹل دیا جاتا ہے، اور پاکستانی بسا اوقات وہیں بنچوں پر بیٹھ کر جہاز کے آنے کا انتظار کرتے ہیں ،حالانکہ پاکستانیوں نے بھی ٹکٹ کے اُتنے ہی پیسے خرچ کیے ہوتے ہیں ۔ جتنے دیگر ممالک کے مسافروں نے ادا کیے ہوتے ہیں! پھر اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان کی ایمبیسی سے بہت شکایات ہوتی ہیں، وہاں تک پہنچنا پاکستان کے خارجہ آفس میں پہنچنے سے زیادہ مشکل ہے، اوور سیز پاکستانیوں کا اپنے ایمبیسی آفس میں ملنا حد درجے مشکل ہو چکا ہے، حالانکہ اس حوالے سے سابقہ حکومت نے احکامات جاری کیے مگر مسائل جوں کے توں رہے۔ پھر یہاں اوورسیز پاکستانیوں کے پلاٹس پر قبضے کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جن کی طرف سابقہ حکومت نے ضرور توجہ کی مگر ابھی بھی ہزاروں درخواستیں التوا میں پڑی ہیں۔ قصہ مختصر کہ اُن سے ہونے والا یہ ناروا سلوک یقینا کسی بھی طرح Supportiveنہیں ہے۔ لہٰذاحکومت اور اداروں کو چاہیے کہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے، پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔( یہ وہ پاکستانی ہیں جو حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے ہیں۔ دیگر طریقوں سے باہر گئے افراد کا اس میں شمار نہیں کیا گیا۔)تو اُنہیں ووٹ کا حق دیا جائے،جلد ہی الیکشن کوا دیں، چلیں یہ بھی نہیں کرنا تو اُنہیں بس عزت دے دیں، وطن عزیز کی دنیا بھر میں بہتر پہچان کر وادیں، تاکہ یہ لوگ بھی عزت سے جی سکیں۔یقین مانیں یہ خود ڈالر بھی بھیجیں گے، اپنوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی بنکوں میں رکھوائیں گے اور سب سے بڑھ کر پاکستان سے بھاگنے کو بھی ترجیح نہیں دیں گے۔ اللہ ہم سب کے لیے آسانیاں فرمائے (آمین)