بھٹو کا قتل : کاش جج اُس وقت بول پڑتے!

آج 4اپریل بھٹو کی برسی کا دن ہے، جنہیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا،،، تاریخ گواہ ہے کہ اگر اُس وقت ججز ”دباﺅ“ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تو عدلیہ کو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اُس وقت اسٹیبشمنٹ کا قصور ضرور تھا، مگر عدلیہ بھی برابر کی شریک تھی،،، کیوں کہ اگر اُس وقت بالکل ایسے ہی جیسے آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے آواز اُٹھائی،،، عین اُسی وقت انہوں نے آواز اُٹھائی ہوتی تو آج ملک کے حالات مختلف ہوتے۔ کیوں کہ عدلیہ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اپنے، وقت دونوں کو موقع دیتا ہے اپنے آپ کو درست کرنے کا.... ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وہ سیاسی کردار ہےں جس کے چاہنے والے بھی بہت ہیں اور ناپسند کرنے والے بھی۔ وہ غدار بھی ٹھہرا اور محبِ وطن بھی مگر جس چیز نے اسے امر کر دیا وہ اس کا تاریخی فیصلہ کہ تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کسی آمر کے ہاتھوں پھانسی چڑھ جانا۔یہ فیصلہ تو تھا ہی غلط مگر اس پر اب تو سپریم کورٹ کی جانب سے مہر بھی ثبت ہو چکی ہے،،، کہ یہ فیصلہ غلط تھا اور بھٹو کو فری ٹرائل کا موقع نہ ملا۔ یعنی گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چھ مارچ کو بھٹو کیس کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر اپنا فیصلہ سنایا ہے جس کے مطابق بینچ نے متفقہ رائے دی کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔تاہم عدالت نے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلہ کو کالعدم نہیں کیا کہ بینچ کے مطابق آئین وقانون میں ایسا کوئی مکینزم موجود نہیں۔مطلب! اُس وقت بھی جو غلطیاں عدالتوں سے ہوئیں،،، آج بھی وہی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں،،، فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت عدلیہ جنرل ضیا ءالحق اینڈ کمپنی کے زیر اعتاب تھیں اور آج بھی یہ ادارہ زیر اعتاب ہے لیکن لوگ مختلف ہیں.... نہیں یقین تو گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے 6ججز کے جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کو دیکھ لیں جس میں انہوں نے ایک ایک چیز کا کچہ چٹھہ کھول کر رکھ دیا ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں اگر اُس وقت عدلیہ سٹینڈ لے لیتی تو آج یہ لوگ نہ تو 144ویں نمبر پر ہوتے اور نہ ہی انہیں اپنے بچاﺅ کے لیے خطوط لکھنا پڑتے۔ خیر بات ہو رہی تھی ذوالفقار علی بھٹو کے ماورائے عدالت قتل کی۔ تو آج چونکہ اُن کی برسی ہے،،،، تو کوشش کریں گے کہ اُن کی زندگی کے مثبت پہلوﺅں پر ہی روشنی ڈالیں،،، تو بھٹو کو بچانے کے لیے ایک آخری کوشش سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے کی مگر جب بیگم بھٹو کے ذریعے بھٹو صاحب کو پتا چلا کہ کسی ”این آر او“ کی بات ہو رہی ہے تو انہوں نے پیغام دیا کہ تم لوگ کیوں چاہتے ہو کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مارا جاﺅں، میری پھانسی کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا، تم لوگ مجھے کمزور نہ کرو۔بھٹو پھانسی چڑھ گیا مگر اس کی مقبولیت کی گواہی بعد میں ان سے ملی جو اس کے سخت مخالف تھے۔ آج 4اپریل کو بھٹو کی برسی پر اُنہیں ہر سال اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے ، کہ وہ تاریخ میں امر رہے۔ آج بھی ہم اُنہیں اس لیے یا د کر رہے ہیں کہ وہ ایک مقبول رہنما تھے، وہ عوام دوست رہنما تھے۔ ہم نے اپنے مقبول سیاسی رہنما کا اپنا ہاتھوں سے قتل کیا۔ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں، ایک شخص جس کی مقبولیت کا گراف اس وقت 80فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے ہم اُس کی سیاست کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ہم اُس کا عدالتی قتل چاہتے ہیں، ہم اُسے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایک بار پھر ایسا ہوا تو تاریخ ہمیں ایک بار پھر معاف نہیں کرے گی۔ اگر بھٹو صاحب کی بات کریں تو آج 44سال گزر گئے مگر اُن کے ساتھ ہوئی ظلم و زیادتی آج بھی سب کو یاد ہے۔ اُن کے ساتھ زیادتی کی انتہاتو یہ تھی کہ اُن کے عدالتی قتل کے بعد راولپنڈی جیل میں ان کی لاش ایک فوٹو گرافر کے حوالے کر دی گئی اور یہ فوٹو گرافر لاش کا پاجامہ اتار کر بھٹو صاحب کے پوشیدہ اعضاءکی تصاویر بناتا رہا؟ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹوکے آخری 323دن “میں لکھا ہے کہ یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟ جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتا چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔ مطلب ہم نے تاریخ میں اس قدر گری ہوئی حرکات بھی کی ہیں۔ تبھی آج اس مملکت کا یہ حال ہے۔ لیکن مرے کو سو درے ہم پھر باز نہیں آرہے،،، اور یقین مانیں کہ وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ بھٹو صاحب کے بارے میںبھی کہا جاتا ہے کہ اُنہیں سلو پوائزننگ کے ذریعے جیل میں ہی بالکل اُسی طرح ہی مار دیا گیا تھا جس طرح آج بانی تحریک انصاف اور اُنکی بیگم کے الزامات ہیں کہ اُنہیں زہر دیا جا رہا ہے۔ نہیں یقین تو کرنل رفیع الدین کی کتاب پڑھ لیں جنہوں نے لکھا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال پر تھے ۔۔بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود احمد بھٹو اور بھٹو خاندان کے ایک ملازم عبدالقیوم تنولی سمیت ایسے کئی عینی شاہدوں کے بیانات شامل ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گردن سلامت تھی اور پھانسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ 1979ءمیں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے ایک نوجوان افسر کیپٹن صولت رضا کو ایک فلم ایڈیٹنگ کے لیے دی تھی جس میں بھٹو صاحب کا جسدِ خاکی نظر آ رہا تھا۔ صولت رضا بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک کالم میں لکھا کہ ”یہ غسلِ میت سے پہلے کا منظر تھا“۔ اسی کالم میں بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے لکھا کہ ”اللہ شاہد ہے کہ پھانسی کے شارٹس اس فلم میں نہیں تھے“۔ خیر یہ بات تو سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ بھٹو کی پھانسی ایک قتل تھا۔ ایک سیاسی قتل۔ لیکن اُس وقت حالات کچھ اور تھے، آج کچھ اور ہیں۔ اُس وقت میڈیا اتنا عام نہیں تھا جتنا آج ہے، اُس وقت عوام میں اتنا شعور نہیں تھا جتنا آج ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد اگر آج بھی حالات نہیں سنبھل سکے تو اُسکی یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی قیادتوں کا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹتے ہیں۔ وہ محسن پاکستان اس لیے بھی تھے کہ انہوں نے پاکستانی سیاست کارُخ بھی بدلا، معیشت کو بھی متاثر کیا، اور پاکستان کو بہت کچھ دے کر، اور اس سے بہت کچھ لے کر اِس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اُن کے بعد جنرل ضیاءالحق آئے اور انہوں نے سب سے پہلے نمایاں طور پر ”نظریہ ضرورت“ دریافت کیا جو آج بھی ہمارے ایوانوں، اداروں اور شخصیات میں موجود ہے۔ بقول شاعر تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا بہرکیف اُس وقت بھی ہمارے ادارے اسٹیبلشمنٹ کے تسلط میں تھے،،، اور آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، اور اگر بھٹو دور کی بات کی جائے تو آپ لاکھ اختلاف کریں مگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں خاصے اچھے کام بھی کیے جن کا ذکر نہ کیا جائے تو میرے خیال میں زیادتی ہوگی، ان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کا آئین بنایا گیا، جوہری پروگرام شروع ہوا، سٹیل ملز اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسی صنعتیں لگیں، مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون سازی سمیت متعدد ترقیاتی کام کیے گئے۔اُنہوں نے میٹرک تک سکول کی فیس معاف کی۔ طلباءکو انہوں نے سفری سہولیات کے ساتھ 10پیسے مہیا کیے ، انہوں نے مزدور کو تحفظ فراہم کیا، کرایہ دار کو مالک مالکان کے حوالے سے تحفظ دیا، بھٹہ ملازمین کو تحفظ دیا، پھر انہوں نے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا، اس بارے میں مختلف آراءموجودہیں، لیکن میری رائے میں یہ ایک اچھا فیصلہ تھا، جس سے عام آدمی کو خاصا فائدہ ہوا،الغرض بادی النظر میں جتنے کام انہوں نے پانچ برسوں میں کیے اِتنے کام ان کے بعد آنے والے فوجی یا سیاسی لیڈر کئی برسوں میں بھی نہیں کر پائے۔ لیکن اُن کے جانے کے بعد جیسے میں ذکر کر چکا ہوں کہ جنرل ضیاءالحق نے ملک کا چہرہ ہی بدل دیا۔ اُن کے 11سالہ اقتدار کا نچوڑ یہ تھا کہ انہوں نے امریکی ایما پر افغان روس جنگ کے لیے جہادی تیار کیے، جنہوں نے بعد میں پاکستان کی چولیں ہلاد یں، انہوں نے ملک کا چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی شدت پسند بنایا، کلاشنکوف کلچر کو عام کیا۔ اور سب سے بڑا بلنڈر اُنہوں نے1985ءمیں غیر جماعتی الیکشن کروا کر کیا۔ یعنی ملک کے تیسرے انتخابات 25 فروری 1985ءکو ہوئے ،صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن کا انعقاد 28 فروری کو ہوا۔ جس میںجنرل ضیاءالحق نے سیاسی پا رٹیوں پر انتخا بات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔سیاسی جماعتیں1973ءکے آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں۔انتخابات سے پہلے بہت سے قوانین اور قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں اور جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔عام انتخابات کے نتائج کے مطابق 207 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے،اور پھر سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جو نیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔اس الیکشن کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ غیرسیاسی افراد نے الیکشن میں شمولیت اختیار کی۔یعنی پہلی بار بزنس مین سیاست میں آئے اور اس مقدس پیشے کو سیاست کا رنگ دیا۔ الیکشن میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوگئی، جو آج تک نہ رک سکی۔ بڑے بڑے نامور سیاستدان پیچھے دھکیل دیے گئے۔ اُن کی جگہ کاروباری شخصیات نے لے لی۔ اور پھر ہر ایک سیٹ کروڑوں روپے میں بکنے اور منتخب ہونے لگی۔ پھر 90کی دہائی میں حکومتیں آئیں اور چلی گئیں،پاکستان غیر مستحکم ہوتا گیا، پھر مشرف آئے اُن کے دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر تھی، مگر انہوں نے بھی طالبان کو پاکستان لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور آج بھی ہم ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جبکہ اُن کے بعد آنے والی حکومتوں کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے کہ آج پاکستان پر 150ارب ڈالرسے زائد کا قرضہ چڑ ھ چکا ہے۔ جسے علم نہیں کیسے اُتارا جانا ہے۔کوئی بھی اس ملک کے لیے مخلص نہیں ہے، سب اپنی اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اور جو شخص نہیں بھر رہا اُس کے راستے میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ یقین کرنا چاہیے کہ خدارا اس ملک میں سیاسی اداروں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں ورنہ تاریخ ہمیں نہ تو کبھی معاف کرے گی اور نہ ہی ہم کبھی زندگی میں آگے بڑھ سکیں گے! اللہ اس ملک کے ساتھ مخلص قیادت کی حفاظت فرمائے (آمین)۔