”سیاسی میچ“ فیصلہ کن مرحلے میں داخل !

”تحریک عدم اعتماد “کا’ میچ‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکاہے، تمام ”فیلڈر ز“ نے اپنی اپنی پوزیشنز سنبھال لی ہے، ماہرین اسے ”ٹیسٹ میچ“ کہہ رہے ہیں، جس کا فیصلہ تین سے پانچ دن میں ہونے کی توقع کی جارہی ہے، آج کے میچ کا ”وینیو “قومی اسمبلی ہے جبکہ اسمبلی سے باہر بھی یہ سیاسی میچ کسی غیر متوقع صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت بھی پیش پیش نظر آرہی ہے اور اپوزیشن بھی گاہے بگاہے جلسے جلوس نکال رہی ہے ۔ جیسے تحریکِ انصاف کا پریڈ گراﺅنڈ میں حالیہ جلسہ بھی اسی کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ جلسہ یقینا ایک کامیاب جلسہ تھا، اور میرے خیال سے تاریخ کے چند بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔اس جلسے کی بدولت عمران خان اپنے اُن ناراض ورکرز کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اُن سے کسی نہ کسی وجہ سے نالاں تھے، اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن کی بھرپور مہم شروع کر چکے ہیں۔ اس میں وزیرا عظم عمران خان نے پونے دو گھنٹے خطاب کیااور عوام کے دل جیتنے اور” سرپرائز “ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اس پوری تقریر میں باقی باتیں تو پرانی تھیں مگر ان میں ایک چیز نئی تھی یعنی اُن کے ہاتھ میں لہرایا جانے والا خط ”نیا“ تھا، وہ اس مذکورہ خط کے بارے میں بار بار کہہ رہے تھے کہ ”بیرونی سازش کی تفصیلات وقت آنے پرقوم کو بتاﺅں گا،پیسہ باہر کا ہے اور لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں،ہمارے زیادہ تر لوگ انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں، کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف پیسہ استعمال کر رہے ہیں، آج ملک کو ایسے ہی حالات درپیش ہیں، باہر سے خارجہ پالیسی کو مروڑنے اور متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پچھلے مہینوں سے ہونے والی اس سازش کا ہمیں پتہ ہے، آج یہ جو قاتل اور مقتول اکٹھے ہو گئے ہیں، ان کو اکٹھا کرنے والوں کا بھی ہمیں پتہ ہے لیکن آج وہ ذوالفقار علی بھٹو والا وقت نہیں ہے۔اب دور بدل چکا ہے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی چیز چھپتی نہیں ہے۔ہم سب سے دوستی کریں گے لیکن غلامی نہیں کریں گے۔پاکستانی قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ باہر کے اربوں روپے لے کر حکومت کے خلاف سازش کرنے والے غلاموں کو کامیاب ہونے دیں گے؟(وزیراعظم نے اس موقع پر قوم کے سامنے خط لہراتے ہوئے کہا کہ) یہ خط میرے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہے، میں قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، الزامات نہیں لگا رہا، کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ میں اپنی قوم اور میڈیا سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کب تک ایسے رہنا چاہتے ہیں۔“ وغیرہ وغیرہ یعنی وزیراعظم اُسی بیرونی سازش کا ذکر کر رہے تھے جس کا راقم نے اپنے پچھلے کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ وزیرا عظم عمران خان کو امریکی لابی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ چاہتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اُن کے مطابق چلے ورنہ اُنہیں ”باغی“اتحادی قرار دیا جا سکتا۔ خیر وزیر اعظم کی پوری تقریر یقینا ایک پراعتماد وزیر اعظم کی تقریر تھی، اُنہیں منحرف اراکین کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ایک دفعہ دھچکا ضرور لگا تھا، وہ لڑکھڑا بھی گئے تھے مگر لگ رہا ہے کہ اب وہ پراعتماد نظر آرہے ہیں۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ایسا ہی ہو، کیوں کہ ملک مزید کسی بڑے دھچکے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور ویسے بھی وطن عزیز میں عام آدمی کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب جی چاہتا ہے کہ کوئی اچھے نظام والی مستقل حکومت آجائے جو دو تین دہائیاں حکومت کرے، پرسکون رہے اور عوامی مسائل حل کرے(خاکم بدہن میں ایسا بالکل نہیں سوچ رہا کہ مشرف یا ضیاءدور کی واپسی ہو، مگر یہ ضرور سوچ رہا ہوں کہ اب شاید انقلاب ہی آ جائے) کیوں کہ عدم اعتماد کی تحریک پر پچھلے چند ہفتوں میں اتنا کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔ واقعات اتنی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ عام آدمی تو کیا، صحافی تک شدید بیزار ہوچکے۔بقول شاعر سب سے بیزار ہو گیا ہوں میں ذہنی بیمار ہو گیا ہوں میں کوئی بھی اچھی خبر نہیں مجھ میں یعنی اخبار ہو گیا ہوں میں ان سب سے بڑھ کر خان صاحب کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے اراکین کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ اور مہنگے ترین الیکشن لڑ کر آنے والے قومی اسمبلی کے ممبران فوری طور پر بکنے کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں۔ خیر حالیہ قومی اسمبلی کے سیشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ کس ممبر نے جماعت سے انحراف کیا اور کون جماعت کے ساتھ رہا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ روایت 1985ءکے الیکشن کے بعد آج بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی کتاب اس حوالے سے گواہ ہے کہ ماضی میں کس طرح ہارس ٹریڈنگ کی جاتی رہی۔ چند ماہ قبل اُن کی کتاب فرزند پاکستان کا نیا ایڈیشن چھپا جس میں بہت سے اضافے کئے گئے اور کچھ حذف بھی ہوا۔ یہ کتاب اگست پچانوے میں شائع ہوئی تھی۔ محترمہ کے پہلے دور میں اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی، جو ناکام ہوگئی۔تب شیخ رشید احمد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے، انہوں نے کتاب کے صفحہ 137پر اس کی دلچسپ تفصیل بیان کی۔ شیخ رشیداحمد لکھتے ہیں:”ایم کیو ایم سرکاری بنچوں پر بیٹھی تھی، میں ان کے چہرے پڑھ چکا تھا۔ ایم کیو ایم بیٹھی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ سیٹی بجنے پر وہ پیپلز پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کر دیں گے۔میں نے ایک بیان دیا کہ ایم کیو ایم کا ممبر جدھر مرضی بیٹھے وہ ہمارا ووٹ ہے۔ میری چھٹی حس نے یہ محسوس کر لیا کہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے اور میں نے دبئی میں بیان بھی دے دیا کہ اگلا اجلاس عدمِ اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہو گا۔ حالات نے یہ سچ ثابت کر دکھایا۔ ووٹوں کی جوڑ توڑ جاری تھی اور ممبروں کو مری میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن میرے ضمیر نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پولیس کی نگرانی میں رہوں۔ جو کچھ میں نے ووٹوں کے جوڑ توڑ میں دیکھا، اس سے میرا دل چ±ور چ±ور ہو گیا۔ ” غلام احمد مانیکا ایم این اے میری نگرانی میں تھا اور رئیس شبیر شاہ ایم این اے کو اسلام آباد سے لانے کے لئے مری سے میرے ساتھ آیا۔ ایک کوٹھی میں شبیر احمد نے اس سے ملاقات کی۔ وہ دوسرے دروازے سے نکل کر بھاگنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے دبوچ لیا اور کہا کہ تمہیں زندہ یا مردہ نواز شریف تک پہنچاﺅں گا جس سے وہ گھبرا گیا۔ میں نے اسے گاڑی میں ڈالا اور مری کی پہاڑیوں میں اسے نواز شریف کے حوالے کیا اور بتایا کہ یہ بھاگ رہا تھا۔ پھر وہ نہ جانے کیسے نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔مجھے احساس ہوا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی منصوبہ بندی صحیح طریقے پر نہیں کی گئی۔ اگلے دن وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، لیکن پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کو بہت سارا نقصان پہنچا گئی۔ یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب تو نہ ہو ئی لیکن حکومت کے خاتمے کی اکثریتی منظوری بھی ہو چکی تھی۔“ الغرض ممبران قومی اسمبلی کی وفاداریاں بدلنے کی تاریخ نئی نہیں بلکہ 30، 35سال پرانی ہے، اور ایسے موقع پر تو ویسے بھی متحدہ قومی موومنٹ، باپ اور مسلم لیگ (ق)کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور ان کے ممبران قومی اسمبلی کے ریٹس آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو ا، اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی تناﺅ اور عدم استحکام رہے گا اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو ، وہ کمزور حکومت ہو گی۔اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو وہ عوام کو موجودہ اپوزیشن کی امکانی حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے اور اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو موجودہ اپوزیشن عوامی طاقت کے ذریعے حکومت پر دباﺅ بڑھائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اگربچ جاتی ہے تو اسے اپوزیشن کے سیاسی دباﺅ کے ساتھ ساتھ مزید اقتصادی بحران کا بھی سامنا ہوگا۔ اسی طرح موجودہ اپوزیشن اگر اپنی مخلوط حکومت بناتی ہے تو اسے بھی اسی طرح کے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ہر صورت کمزور حکومت طاقتور حلقوں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہو گی۔ بات اگر طاقتور حلقوں کی ہو رہی ہے تو اس بات کو ایسے سمجھ لیں کہ بچپن میں ریاضی میں ہم ”سیٹ“ پڑھا کرتے تھے، سیٹ سے مراد ایک کلاس میں اگر 40بچے ہیں تو وہ ایک کلاس کا ”سیٹ“ کہلائے گا۔ یہ تو ایک آسان سا سیٹ ہے، مگر آہستہ آہستہ یہ اتنے مشکل ہوتے جاتے ہیں کہ ہمارے دماغ کی دہی بن جاتی تھی۔ یہ ”سیٹ“ جارج کینٹر نے بنائے تھے جسے جارج کینٹر کی سیٹ تھیوری بھی کہا جا تا ہے جو صرف مابعد الطبیعاتی دنیا پر ہی منطبق نہیں ہوتی بلکہ اسے پاکستان پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہاں آپ طاقتور لوگوں کا ایک سیٹ بنا لیں،اُس سیٹ میں مزید طاقتور لوگوں کا”سب سیٹ“ بنا لیں اور پھر آگے سے مزیدایک سیٹ بنا لیں اور بناتے چلے جائیں تب بھی یہ تمام سیٹ اُس ”طاقتور سیٹ “سے زیادہ طاقتور نہیں ہوگا۔ لہٰذاسمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے ہر سیاسی جماعت کو قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے ۔ ہر اتحادی سب سے ذیادہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ وقتی فائدے کے بجائے ملک اور قوم اور خاص طور پر اپنے شہریوں کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرے تاکہ اُسے تاریخ میں اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے!”سیاسی میچ“ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ! ”تحریک عدم اعتماد “کا’ میچ‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکاہے، تمام ”فیلڈر ز“ نے اپنی اپنی پوزیشنز سنبھال لی ہے، ماہرین اسے ”ٹیسٹ میچ“ کہہ رہے ہیں، جس کا فیصلہ تین سے پانچ دن میں ہونے کی توقع کی جارہی ہے، آج کے میچ کا ”وینیو “قومی اسمبلی ہے جبکہ اسمبلی سے باہر بھی یہ سیاسی میچ کسی غیر متوقع صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت بھی پیش پیش نظر آرہی ہے اور اپوزیشن بھی گاہے بگاہے جلسے جلوس نکال رہی ہے ۔ جیسے تحریکِ انصاف کا پریڈ گراﺅنڈ میں حالیہ جلسہ بھی اسی کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ جلسہ یقینا ایک کامیاب جلسہ تھا، اور میرے خیال سے تاریخ کے چند بڑے جلسوں میں سے ایک تھا۔اس جلسے کی بدولت عمران خان اپنے اُن ناراض ورکرز کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اُن سے کسی نہ کسی وجہ سے نالاں تھے، اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن کی بھرپور مہم شروع کر چکے ہیں۔ اس میں وزیرا عظم عمران خان نے پونے دو گھنٹے خطاب کیااور عوام کے دل جیتنے اور” سرپرائز “ دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اس پوری تقریر میں باقی باتیں تو پرانی تھیں مگر ان میں ایک چیز نئی تھی یعنی اُن کے ہاتھ میں لہرایا جانے والا خط ”نیا“ تھا، وہ اس مذکورہ خط کے بارے میں بار بار کہہ رہے تھے کہ ”بیرونی سازش کی تفصیلات وقت آنے پرقوم کو بتاﺅں گا،پیسہ باہر کا ہے اور لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں،ہمارے زیادہ تر لوگ انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں، کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف پیسہ استعمال کر رہے ہیں، آج ملک کو ایسے ہی حالات درپیش ہیں، باہر سے خارجہ پالیسی کو مروڑنے اور متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پچھلے مہینوں سے ہونے والی اس سازش کا ہمیں پتہ ہے، آج یہ جو قاتل اور مقتول اکٹھے ہو گئے ہیں، ان کو اکٹھا کرنے والوں کا بھی ہمیں پتہ ہے لیکن آج وہ ذوالفقار علی بھٹو والا وقت نہیں ہے۔اب دور بدل چکا ہے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی چیز چھپتی نہیں ہے۔ہم سب سے دوستی کریں گے لیکن غلامی نہیں کریں گے۔پاکستانی قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ باہر کے اربوں روپے لے کر حکومت کے خلاف سازش کرنے والے غلاموں کو کامیاب ہونے دیں گے؟(وزیراعظم نے اس موقع پر قوم کے سامنے خط لہراتے ہوئے کہا کہ) یہ خط میرے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہے، میں قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، الزامات نہیں لگا رہا، کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ میں اپنی قوم اور میڈیا سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کب تک ایسے رہنا چاہتے ہیں۔“ وغیرہ وغیرہ یعنی وزیراعظم اُسی بیرونی سازش کا ذکر کر رہے تھے جس کا راقم نے اپنے پچھلے کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ وزیرا عظم عمران خان کو امریکی لابی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ چاہتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اُن کے مطابق چلے ورنہ اُنہیں ”باغی“اتحادی قرار دیا جا سکتا۔ خیر وزیر اعظم کی پوری تقریر یقینا ایک پراعتماد وزیر اعظم کی تقریر تھی، اُنہیں منحرف اراکین کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ایک دفعہ دھچکا ضرور لگا تھا، وہ لڑکھڑا بھی گئے تھے مگر لگ رہا ہے کہ اب وہ پراعتماد نظر آرہے ہیں۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ایسا ہی ہو، کیوں کہ ملک مزید کسی بڑے دھچکے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور ویسے بھی وطن عزیز میں عام آدمی کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب جی چاہتا ہے کہ کوئی اچھے نظام والی مستقل حکومت آجائے جو دو تین دہائیاں حکومت کرے، پرسکون رہے اور عوامی مسائل حل کرے(خاکم بدہن میں ایسا بالکل نہیں سوچ رہا کہ مشرف یا ضیاءدور کی واپسی ہو، مگر یہ ضرور سوچ رہا ہوں کہ اب شاید انقلاب ہی آ جائے) کیوں کہ عدم اعتماد کی تحریک پر پچھلے چند ہفتوں میں اتنا کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔ واقعات اتنی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ عام آدمی تو کیا، صحافی تک شدید بیزار ہوچکے۔بقول شاعر سب سے بیزار ہو گیا ہوں میں ذہنی بیمار ہو گیا ہوں میں کوئی بھی اچھی خبر نہیں مجھ میں یعنی اخبار ہو گیا ہوں میں ان سب سے بڑھ کر خان صاحب کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے اراکین کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ اور مہنگے ترین الیکشن لڑ کر آنے والے قومی اسمبلی کے ممبران فوری طور پر بکنے کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں۔ خیر حالیہ قومی اسمبلی کے سیشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ کس ممبر نے جماعت سے انحراف کیا اور کون جماعت کے ساتھ رہا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ روایت 1985ءکے الیکشن کے بعد آج بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی کتاب اس حوالے سے گواہ ہے کہ ماضی میں کس طرح ہارس ٹریڈنگ کی جاتی رہی۔ چند ماہ قبل اُن کی کتاب فرزند پاکستان کا نیا ایڈیشن چھپا جس میں بہت سے اضافے کئے گئے اور کچھ حذف بھی ہوا۔ یہ کتاب اگست پچانوے میں شائع ہوئی تھی۔ محترمہ کے پہلے دور میں اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی، جو ناکام ہوگئی۔تب شیخ رشید احمد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے، انہوں نے کتاب کے صفحہ 137پر اس کی دلچسپ تفصیل بیان کی۔ شیخ رشیداحمد لکھتے ہیں:”ایم کیو ایم سرکاری بنچوں پر بیٹھی تھی، میں ان کے چہرے پڑھ چکا تھا۔ ایم کیو ایم بیٹھی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ سیٹی بجنے پر وہ پیپلز پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کر دیں گے۔میں نے ایک بیان دیا کہ ایم کیو ایم کا ممبر جدھر مرضی بیٹھے وہ ہمارا ووٹ ہے۔ میری چھٹی حس نے یہ محسوس کر لیا کہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے اور میں نے دبئی میں بیان بھی دے دیا کہ اگلا اجلاس عدمِ اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہو گا۔ حالات نے یہ سچ ثابت کر دکھایا۔ ووٹوں کی جوڑ توڑ جاری تھی اور ممبروں کو مری میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن میرے ضمیر نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پولیس کی نگرانی میں رہوں۔ جو کچھ میں نے ووٹوں کے جوڑ توڑ میں دیکھا، اس سے میرا دل چ±ور چ±ور ہو گیا۔ ” غلام احمد مانیکا ایم این اے میری نگرانی میں تھا اور رئیس شبیر شاہ ایم این اے کو اسلام آباد سے لانے کے لئے مری سے میرے ساتھ آیا۔ ایک کوٹھی میں شبیر احمد نے اس سے ملاقات کی۔ وہ دوسرے دروازے سے نکل کر بھاگنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے دبوچ لیا اور کہا کہ تمہیں زندہ یا مردہ نواز شریف تک پہنچاﺅں گا جس سے وہ گھبرا گیا۔ میں نے اسے گاڑی میں ڈالا اور مری کی پہاڑیوں میں اسے نواز شریف کے حوالے کیا اور بتایا کہ یہ بھاگ رہا تھا۔ پھر وہ نہ جانے کیسے نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔مجھے احساس ہوا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی منصوبہ بندی صحیح طریقے پر نہیں کی گئی۔ اگلے دن وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، لیکن پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کو بہت سارا نقصان پہنچا گئی۔ یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب تو نہ ہو ئی لیکن حکومت کے خاتمے کی اکثریتی منظوری بھی ہو چکی تھی۔“ الغرض ممبران قومی اسمبلی کی وفاداریاں بدلنے کی تاریخ نئی نہیں بلکہ 30، 35سال پرانی ہے، اور ایسے موقع پر تو ویسے بھی متحدہ قومی موومنٹ، باپ اور مسلم لیگ (ق)کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور ان کے ممبران قومی اسمبلی کے ریٹس آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو ا، اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی تناﺅ اور عدم استحکام رہے گا اور حکومت چاہے کوئی بھی ہو ، وہ کمزور حکومت ہو گی۔اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو وہ عوام کو موجودہ اپوزیشن کی امکانی حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے اور اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو موجودہ اپوزیشن عوامی طاقت کے ذریعے حکومت پر دباﺅ بڑھائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اگربچ جاتی ہے تو اسے اپوزیشن کے سیاسی دباﺅ کے ساتھ ساتھ مزید اقتصادی بحران کا بھی سامنا ہوگا۔ اسی طرح موجودہ اپوزیشن اگر اپنی مخلوط حکومت بناتی ہے تو اسے بھی اسی طرح کے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ہر صورت کمزور حکومت طاقتور حلقوں کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہو گی۔ بات اگر طاقتور حلقوں کی ہو رہی ہے تو اس بات کو ایسے سمجھ لیں کہ بچپن میں ریاضی میں ہم ”سیٹ“ پڑھا کرتے تھے، سیٹ سے مراد ایک کلاس میں اگر 40بچے ہیں تو وہ ایک کلاس کا ”سیٹ“ کہلائے گا۔ یہ تو ایک آسان سا سیٹ ہے، مگر آہستہ آہستہ یہ اتنے مشکل ہوتے جاتے ہیں کہ ہمارے دماغ کی دہی بن جاتی تھی۔ یہ ”سیٹ“ جارج کینٹر نے بنائے تھے جسے جارج کینٹر کی سیٹ تھیوری بھی کہا جا تا ہے جو صرف مابعد الطبیعاتی دنیا پر ہی منطبق نہیں ہوتی بلکہ اسے پاکستان پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہاں آپ طاقتور لوگوں کا ایک سیٹ بنا لیں،اُس سیٹ میں مزید طاقتور لوگوں کا”سب سیٹ“ بنا لیں اور پھر آگے سے مزیدایک سیٹ بنا لیں اور بناتے چلے جائیں تب بھی یہ تمام سیٹ اُس ”طاقتور سیٹ “سے زیادہ طاقتور نہیں ہوگا۔ لہٰذاسمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے ہر سیاسی جماعت کو قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے ۔ ہر اتحادی سب سے ذیادہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ وقتی فائدے کے بجائے ملک اور قوم اور خاص طور پر اپنے شہریوں کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرے تاکہ اُسے تاریخ میں اچھے لفظوں سے یاد کیا جائے!