پی ایس ایل 9: ویلڈن ! عماد وسیم ،،، مگر !

پی ایس ایل 9ڈرامائی انداز میں ختم ہوگیا، اسلام آباد یونائیٹڈ نے غیر متوقع طور پر مخالفین کو چاروں شانے چت کر کے ٹرافی جیتی۔ غیر متوقع جیت اس لیے کہ نہ کوئی چاہتا تھا کہ اسلام آباد جیتے اور نہ ہی ایسا کہیں کوئی منصوبہ ترتیب دیاگیا تھا! جی ہاں! میںکرکٹ کا مبصر تونہیں ہوں مگر ایک عام شائق کے طور پر کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ لہٰذااس پورے ٹورنامنٹ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے کرکٹ کا یہ میگا ایونٹ کرکٹ کے فروغ کیلئے یا عوام کے لیے نہیں بلکہ یہ جواریوں اور ٹیم مینجمنٹ کے لیے تھا۔بلکہ بادی النظر میں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایونٹ بالکل آئی پی ایل کی طرز پر بنتا جا رہا ہے، جہاں ہر سال ہزاروں ارب روپے کا جوا عالمی اور مقامی سطح پر کھیلا جاتا ہے۔ اور سنا ہے، ان ایونٹس میں آئی سی سی بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ لیکن رقوم کی ریل پیل کی وجہ سے وہ بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ خیر بات ہو رہی تھے اپنے پی ایس ایل کی تو جناب! ایک تو پوری قوم پی ایس ایل سے تنگ ہے کہ جس شہر میں میچ ہوتا ہے، وہ قلعہ بن کر رہ جاتا ہے،،، آپ آسانی سے اُس سائیڈ پر Moveنہیں کر سکتے! دوسرا یہ انٹرٹینمنٹ نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے،،، کچھ اور سے مراد یہ کہ آپ اسے اشرافیہ کی گیم کہہ لیں، یا جوا کہہ لیں یا اعلیٰ سطحی فکسنگ کہہ لیں۔ جس میں ٹیم مالکان سے لے کر کھلاڑی تک سبھی مبینہ طور بکے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں یہ الزام نہیں لگا رہا ،،، بلکہ اپنے تئیں تحقیق کے بعد ایسی بات کہہ رہا ہوں،،، نہیں یقین تو آپ پورے ٹورنامنٹ کا بغور جائزہ لیں۔ سب کو علم ہوگیا تھا، کہ بابر اعظم کی ٹیم پشاور زلمی کو جتوایا جارہاہے۔تاکہ موصوف دوبارہ پاکستان کرکٹ کے تمام فارمیٹ کے کپتان بن سکیں۔ یعنی تمام حالات اُس کے مطابق سیٹ کیے گئے۔شاہین شاہ آفریدی کی ٹیم لاہور قلندرز توپہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی، دوسری ٹیم ناتجربہ کار کپتان شان مسعود کی ناقص کپتانی کی وجہ سے باہر ہوگئی۔ جبکہ چار ٹیموں ملتان سلطان، پشاور زلمی، کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور اسلام آباد یونائیٹڈ نے فائنل مرحلے میں جگہ بنائی۔ سب سے پہلے کوالیفائر میچ میں ملتان سلطان نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، لیکن پھر سب نے دیکھا کہ پہلے Eliminator1میں اسلام آباد نے کوئٹہ گلیڈی ایٹر سے میچ جیتا، اُس میچ میں عماد وسیم مین آف دی میچ رہے۔ پھر دوسرا Eliminatorمیچ پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان کھیلا گیا، اس میچ میں بھی عماد وسیم نے اچھی باری کھیلی،،، اور پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے ریکارڈ 59سکور کیے۔ اور میچ بھی جیتا اور مین آف دی میچ بھی رہے۔ اس طرح اسلام آباد فائنل میں پہنچ گیا، جہاں اُس کا مقابلہ ملتان سلطان کے ساتھ ہونا تھا، لیکن Eliminator2میں فتح کے بعد مینجمنٹ سمیت کپتان شاداب کا چہرہ بھی سب نے اُتراہوا دیکھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سب کچھ منصوبہ بندی کے خلاف ہوگیا۔ اور بابر اعظم کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکی تھی۔ پھر آئیے فائنل کی جانب تو کہ مینجمنٹ ملتان سلطان کو جتوانا چاہ رہی تھی، جس طرح ملتان سلطان کے ٹیل اینڈر ز نے آخری دو اوورز میں 27رنز بنائے، وہ سب نے دیکھے،،، جس طرح نسیم شاہ کے آخری اوور میں نوبال نہیں تھا ، مگر دے دیا گیا، لیکن جب اسلام آباد یونائیٹڈ کو جیت کے لیے ایک رنز درکار تھا، تو ملتان سلطان کے باﺅلر نے جو نوبال کی ،،، وہ نہیں دی گئی۔ اور تینوں نو بال ایک جیسی ہیں۔ اور پھر ہو ایہ کہ جس طرح 8فروری کو ہوا ،،، یعنی قدرت نے فیصلہ کرنے والوں کے برخلاف نتائج دیے ۔ اسی طرح اسلام آباد یونائیٹڈ کو بھی ”قدرت“ نے عماد وسیم کی بدولت جتوا بھی دیا۔ انہوں نے میچ میں میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں اور 19وننگ رنز بھی بٹورے۔ خیر مین ایشو کی طرف آئیں تو یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ عماد وسیم وہ پلیئر ہے جس کو بابر اعظم کے دور میں پاکستان کی ٹیم میں آنے نہیں دیا جاتا تھا۔ اس ایونٹ نے عماد وسیم کے کیریئر میں نئی روح پھونک دی ہے۔ 2023 کے دوران انھوں نے تمام فارمیٹس سے ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہی ریٹائر ہونے کا صحیح موقع ہے۔‘مگر اب وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ اندرونی حلقوں کے مطابق اس وقت عماد وسیم کے لیے ضروری تھا، کہ وہ اپنی پرفارمنس دکھا کر آگے جاتا،،، کیوں کہ ویسے تو اُسے ٹیم میں شامل نہیں کیا جا رہا تھا، لہٰذاپشاور زلمی کو جتوا کر دوبارہ کپتانی بابر اعظم کے ہاتھوں میں ہی جانا تھی، اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد بھی کپتان شاداب خان اورمینجمنٹ کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں تھی۔ سب کے عزائم ، سب کے خواب ٹوٹ گئے،،، اور جواری ڈوب گئے۔ لہٰذاعماد وسیم نے بہتر پرفارم کر کے سب کچھ بدل دیا۔ جس کے بعد اب ہو گا یہ کہ عوامی اور میڈیا کے دباﺅ کے بعد عماد وسیم کو اگلے ٹورنامنٹ میں شامل کیا جائے گا، مگر اُس کے فوری بعد اسے ٹیم سے نکال دیا جائے گا۔ قصہ مختصر کہ یہ سب کچھ جواریوں کی عیاشی کے لیے کیا جاتا ہے، نہ اس سے کرکٹ کا کوئی لینا دینا ہے، نہ عوام کا کوئی لینا دینا ہے، اور نہ ہی کسی اور محب وطن سے لینا دینا ہے، کیا نیب کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا؟ کیا انہیں صرف سیاستدان ہی نظر آتے ہیں،،، وہ بھی سلیکٹڈ قسم کے۔ کیا آئی سی سی کو یہ سب نظر نہیں آرہا؟ کیا حکومتی ادارے بالکل اسی طرح اس کو نہیں روک سکتے ، جس طرح انہوں نے گزشتہ پی ایس ایل میں میڈیا اور عوام کے دباﺅ کے بعد متعدد جوئے، سٹے بازی اور کسینو کمپنیوں کے اشتہارات پر پابندی لگائی تھی۔ قومی چینلز پر ان اشتہارات کے چلنے کے بعد وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک بیان جاری کیا تھاجس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے گریز کریں اور ایسی ”سروگیٹ کمپنیوں“ کے ساتھ اپنے موجودہ معاہدوں کو فوری طور پر ختم کریں، (اس طرح کے رجحان کو سروگیسی کا لیبل لگایا جاتا ہے اور ایسی فرموں کو مادر انٹرپرائزز کے سروگیٹس کہا جاتا ہے)۔پی سی بی، پیمرا، پی ٹی وی، پی بی سی، پی ٹی اے اور ایس ای سی پی کے اعلیٰ افسران کو لکھے گئے خط کے ذریعے وزارت اطلاعات نے کہا تھا کہ یہ وزارت کے علم میں آیا ہے کہ کچھ سٹہ باز تنظیمیں پاکستانی مارکیٹ میں قدرے ترمیم شدہ عنوانات کیساتھ داخل ہوئی ہیں۔ بہرکیف اگر ان اداروں نے ایک بار پھر آنکھیں موند لی ہیں اوروہ بھی ان کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ 9سال ہوچکے ہیں پی ایس ایل کو شروع ہوئے،،، لیکن مجال ہے عوام کی خواری ختم ہو جائے،،، تین تین چار چار سڑکیں بند کرکے ان جواریوں کو ہم وی وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہیں۔ کہ دنیا میں ہمارا نام بلند ہوگا،،، لیکن کیا دنیا والوں کو نظر نہیں آرہا؟ کہ یہ سب کچھ جوا ہو رہا ہے؟ اور ہم نے واحد کھیل کرکٹ کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پی ایس ایل سے عوام کو کیا ملا ہے؟جس نے ٹکٹ بھی لی ہے، وہ بھی اسٹیڈیم میں جا کر خوار ہو رہا ہے۔ کہیں کسی نے کوئی ڈسپلن نہیں دیکھا،،، تین چار گھنٹے پہلے ہی شائقین کو جانوروں کی طرح ٹھونس دیا گیا،۔ کہیں کوئی انتظام نہیں تھا، کہیں کوئی چائے وغیرہ یا انٹرٹینمٹ کا انتظام نہیں تھا،،، لیکن ہمارے کیمرہ مین مخصوص سیٹوں پر ہی بار بار نظریں دوڑا رہے تھے۔ بار بار اُسی پر کیمرہ فوکس کیا جارہا تھا،،، لیکن جہاں عوام بری طرح پرسان حال تھے، حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے، اور بچے رو رہے تھے،،، اُن سٹینڈز پر انہوں نے مناسب ہی نہیں سمجھا کہ کیمرے کو سیٹ کیا جائے۔ قصہ مختصر کہ انکوائری یہ کروائی جائے یا ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے جو اُن کرکٹرز سے انکوائری کرے جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں،،، آپ محمد عامر کا انٹرویو کریں،،، اُس سے پوچھیں کہ اُس کا منیجمنٹ اور خاص طور پر بابر اعظم سے کیا جھگڑا رہا۔ آپ شعیب ملک، محمد عباس، محمد حفیظ، یونس خان، مصباح الحق ، سرفراز وغیرہ سے پوچھیں کہ اُنہیں کس لابی نے کتنا نقصان پہنچایا۔ پھر یہی نہیں بلکہ آپ یہ بھی انکوائری کریں کہ وہ کرکٹرز جن کے میدان میں اُترنے پر ”پرچی پرچی“ کے نعرے لگتے ہیں، اُنہیں کس کے کہنے پر ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے۔ وہ پرفارمنس نہ بھی دیں تو اُنہیں ٹیم کا ضروری حصہ کیوں کر بنایا جاتا ہے؟ آپ یہ بھی پوچھ لیں کہ خوشدل شاہ، حیدر علی، محمد آصف وغیرہ کی جگہ کس طرح ٹیم میںبنتی ہے؟ اور وہ مسلسل خراب کارکردگی کے باعث پھر بھی ٹیم کا حصہ کیوں ہیں؟ آپ کو سب کچھ علم ہو جائے گا۔ آپ یہ سب کچھ بھی چھوڑیں آپ اعظم خان کی پرفارمنس کو دیکھ لیں، اور یہ دیکھیں کہ کیسے اُسے بہترین کیپر قرار دے دیا گیا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد رضوان و دیگرکے ہوتے ہوئے وہ بہترین کیپر قرار دیے جائیں۔ بلکہ آپ یہ دیکھ لیں کہ انٹرنیشنل ٹورز پر اُس کی پرفارمنس کیا تھی؟ خیر صرف اتنی سی التجا ہے کہ کھیل کو کھیل رہنے دیں اور اُسے سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ایک صرف کرکٹ ہی رہ گئی ہے جس میں عوام کی دلچسپی برقرار ہے،، لیکن اگر آئندہ پی ایس ایل بھی اسی قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ ہونے ہیں تو پھر شائقین ایسی کرکٹ سے دور ہی اچھے!