سیلاب: ڈوبا کوئی....فائدہ کوئی اور لے گیا!

تازہ ترین صورتحال کے مطابق اس وقت وزیر اعظم فلڈ ریلیف فنڈ، آرمی فلڈ ریلیف فنڈ اور چیف منسٹر فلڈ ریلیف فنڈ میں چند کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں، لوگ اپنے تئیں کوشش کر رہے ہیں کہ سرکاری اداروں کو امدادی سامان فراہم کرنے کے بجائے ذاتی طور پر متاثرین تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں۔اور اُس میں بھی وہ گرمجوشی دکھائی نہیں دے رہی جو پہلے اس قسم کے سانحات میں نظر آتی تھی۔ لہٰذاآپ فی الوقت یوں کہہ لیں کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے حوالے سے سرگرمیاں ماند پڑنے لگی ہیں، ہماری ذہنوں سے یہ سانحہ بھی آہستہ آہستہ کھسک رہا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح زلزلہ زدگان کو اور اس کے بعد آنے والے سیلاب زدگان کو ہم نے بھلا دیا تھا۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ جب تک کسی واقعہ کی بازگشت میڈیا پر رہتی ہے، سب کچھ ٹھیک چلتا ہے، جیسے ہی میڈیا کی توجہ کسی دوسرے سانحہ، واقعے یا کسی سرگرمی کی طرف مبذول ہوتی ہیں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس حالات بہت خراب ہیں، NDMAکی رپورٹ کے مطابق 25سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اور حکومت صرف 4سو ارب روپے اکٹھا کر سکی ہے، اس میں سے بھی ابھی تک وفاقی حکومت نے محض 70ارب روپے کے فنڈز ریلیز کیے ہیں۔ لیکن شاید حکومت کو نظر نہیں آرہا کہ ابھی بھی پاکستان کا کم و بیش ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں اللہ کو پیارے ہو چکے اور ان سے کئی گنا زخمی ہو گئے۔ لاکھوں گھر مسمار ہو چکے، سڑکیں تباہ ہو چکیں، رابطے ٹوٹ چکے، بحالی اور آباد کاری تو دور کی بات ہے ابھی تک ریلیف کا سامان بھی تمام متاثرین تک نہیں پہنچ سکا۔ اقوام متحدہ کے 70سالہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ہزاروں میل کا سفر طے کرکے بنفس نفیس پاکستان پہنچے، تو جو کچھ ان کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا اس پر بے ساختہ پکارے، گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے لیکن عالمی طاقتوں کے کیے کی سزا اسے مل رہی ہے۔ دنیا کو اس کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے، ان کے لہجے اور الفاظ نے اہلِ پاکستان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ ہر ہر پاکستانی اُن کا شکر گزار ہے۔ وہ پرتگالی سیاست دان ہیں، پیشے کے اعتبار سے انجینئر، پرتگال کے وزیراعظم کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، ان کی عمر نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کرتے اور محبت کا پیغام عام کرتے گزری ہے۔ اس پرتگیزی سیاستدان کا دل پاکستان کے بارش اور سیلاب زدگان کے درد سے بھر گیا، لیکن پاکستانی سیاستدانوں کو داد دیجیے کہ یہ بار بار اعلان کر رہے ہیں،کہ اُن کے سینے میں دل کی جگہ پتھر ہے۔یعنی اس وقت ان کی کارکردگی یہ ہے کہ ایسی آفات کے لیے مضبوط حکمت عملی یا کوئی ادارہ تو دور کی بات ، وقتی چیزوں کو Manageکرنے سے بھی قاصر نظر آرہے ہیں۔ نہیں یقین! تو آﺅ چلتے ہیں، ان علاقوں کا وزٹ کرتے ہیں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ حالات کیا ہیں؟ یقین مانیں ان علاقوں میں جہاں تک شاہراہیں جا رہی ہیں وہاں وہاں عارضی بستیاں قائم ہیں، امداد کے لیے کوئی بھی گاڑی یا ٹرک جاتا ہے ، یا تو اُسے راستے میں ہی لوٹ لیا جاتا ہے یا یہ غلط ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ ہم نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ امداد سے بھرے ایک ٹرک کے اوپر 20، 30افراد چڑھ گئے اور ڈرائیور ٹرک کو بھگا کر تھانے کے اندر لے گیا۔ اب یہاں تھانے والے بھی کیا کرتے۔ ٹرک لوٹنے کا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے رہے۔ پھر کئی جگہوں پر بستی کے قریب امداد ی ٹرک جیسے ہی پہنچا، دوسری جانب کھڑی ایک گاڑی میں سے چند افراد نکلے ٹرک کی طرف لپکے اور آدھے سے زیادہ سامان کو اپنی گاڑی میں بھرا اور رفو چکر ہوگئے۔ نہ کہیں کوئی انتظامیہ نظر آرہی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی سیاسی رہنما! حالات تو یہاں تک پہنچ رہے ہیں کہ سندھ کے ایم این ایز کے آپس میں جھگڑے شروع ہو چکے ہیں کہ فنڈز کی تقسیم کون کرے گا، کون اکٹھا کرے گا؟ یا فنڈز اُن کے علاقے میں آنے چاہیے وغیرہ۔ الغرض ان سیاستدانوں کی چاندی ہوچکی ہے، اُنہیں ڈوبے ہوئے افراد نہیں بلکہ گرانٹس نظر آرہی ہیں، اُنہیں اربوں روپے کے فنڈز نظر آرہے ہیں، جن کا ناتو کوئی آڈٹ ہوگا اور نہ ہی کوئی پوچھے گا کہ پیسہ کہاں لگایا گیا ہے، کہاں لگنا تھا اور باقی پیسہ کدھر گیا۔ یہاں پھر ہم یہ تو کہنے کے حق بجانب ہیں کہ” ڈوبا کوئی ہے اور فائدہ کسی اور کا ہو گیا ہے!“ قارئین! یہ وہی کچھ ہو رہا ہے جس کا بار بار خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اس کا ذکر میں بار بار اپنے کالموں میں بھی کر رہا تھا۔ امداد کا کہیں کوئی آڈٹ نہیں ہورہا، کہیں سے ہمیں صحیح اعداد وشمار نہیں مل رہے کہ کتنی امداد آچکی ہے اور کہاں خرچ کی جا چکی ہے۔اور پھر ابھی تو بیرون ملک سے آنے والی امداد کا بھی کچھ علم نہیں ہے کہ کتنی موصول ہوئی ہے،اس لیے یہاں نیب ابھی واچ ڈاگ کا کام کر رہا ہے، جب پانی سر سے گزر جائے گا، یہ ادارہ بھی فوراََ اس ”کارخیر“ میں کود پڑے گا۔ یعنی سیاستدان وہ تصویر ہی پیش نہیں کر پائے جو اُنہیں پاکستان کی کرنی چاہیے تھی۔ میرے خیال میں اگر اس سیلاب سے کسی وڈیرے کا محل ڈوبتا، کسی زمیندار کی حویلی ڈوبتی، کسی سیاستدان کا ڈیرہ ڈوبتا یا کسی جاگیر دار کی جاگیر ڈوبتی تو اور بات تھی مگر اس سیلاب سے محض غریب کے کچے گھر بہہ گئے، جانور بہہ گئے اور تو انسان بھی بہہ گئے۔ مگر مجال ہے حکومتوں کو کہ اس حوالے سے بحالی کا کوئی ٹھوس منصوبہ بنایا گیا ہو۔ کوئی سیاستدان ان کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہو، بلکہ ہمیں تو عمران خان سے بھی شکوہ ہے کہ وہ محض چند گھنٹے ہی سیلاب زدگان کو دے سکے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہمیں یاد ہے کہ آج سے 12 برس قبل بھی پاکستانیوں نے ایک سیلاب بھگتا تھا۔ تب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے عمران خان بھی متحرک تھے۔ وہ خود کئی کئی روز جاگ کر امدادی مہم کو مانیٹر کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ سیلاب زدگان کے لیے امریکا، لندن اور یورپ کے کئی ممالک میں گئے۔ انہی دنوں ناروے کے مرکز اوسلو میں موجود پاکستانی کمیونٹی 2010 کے سیلاب کے بعد اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن باقاعدہ مہم کوئی نہ تھی۔ ایسے میں اوسلو میں موجود چند نوجوانوں نے مل کر عمران خان کو اوسلو بلانے اور سیلاب زدگان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی ٹھانی۔بہت کوششوں کے بعد ناروے کی پاکستانی کمیونٹی کو 14ستمبر کی 12گھنٹے کی تاریخ مل گئی۔ اس 12گھنٹے میں انہوں نے تین سے چار مقامات پر فنڈز اکٹھا کرنا تھے۔ جیسے ہی پاکستانی کمیونٹی میں یہ بات پھیلی کہ عمران خان فنڈ ریزنگ کے لیے اوسلو آرہے ہیں ، لوگوں میں جوش و خروش بڑھنے لگا تھا، کچھ افراد نے چندے کی بھاری کی رقم صرف عمران خان کے ہاتھ میں دینے کی ضد کی، یہاں تک کہ بعض نے عمران خان کے ساتھ بلاواسطہ ملاقات کرانے کی شرط پر امداد دینے کی حامی بھری۔ اوسلو کے مرکزی کنسرٹ ہال سینٹرم سین میں فنڈ ریزنگ کا بڑا پروگرام کرنے کا طے ہوا۔ جب سینٹرم سین کی انتظامیہ کے سامنے عمران خان اور سیلاب زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ کا نام لیا گیا تو کنسرٹ ہال کی فیس معاف کردی گئی۔ ایسے ہی عمران خان کے ساتھ لنچ پروگرام کے لیے مشہور پاکستانی محفل ریستوران کے مالک نے بھی بلا معاوضہ ساتھ دیا۔ خیر جب نوجوانوں کی یہ ٹیم عمران خان کو اوسلو ایئرپورٹ لینے پہنچے تو وہ کوٹ پتلون میں ملبوس اور خالی ہاتھ تھے۔ وی آئی پی استقبالیہ دیکھ کر عمران خان کہنے لگے: ’ایسا پروٹوکول وزیراعظم کو ملتا ہے میں تو سادہ سا سیاستدان اور سوشل ایکٹوسٹ ہوں، جو پیسے میرے پروٹوکول پہ لگائے ہیں وہ سیلاب زدگان کو بھیجو میں تو اوسلو کی بس میں سفر کرلوں گا۔بہت کہا گیا کہ یہ گاڑیاں مفت میں ایک دوست نے فراہم کی ہیں لیکن عمران خان نہیں مانے اور تین میں سے دو گاڑیاں واپس بھیجنا پڑیں۔عمران خان اوسلو میں صرف 12 گھنٹے کے لیے آئے تھے، اس لیے زیادہ سے زیادہ چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دو پروگرام ترتیب دیئے گئے۔ایک ’لنچ ود عمران خان‘ کے عنوان سے دوپہر کا کھانا رکھا گیا جہاں شرکت کے لیے بھاری معاوضے پہ ٹکٹ بیچے گئے، اس پروگرام میں ڈپلومیٹس، کاروباری شخصیات، اور ناروے کی اہم سماجی شخصیات نے شرکت کی۔دوسرا پروگرام اوسلو کنسرٹ ہال سینٹرم سین میں ہوا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانیوں اور نارویجنز نے ٹکٹ خرید کر شرکت کی۔عمران خان کی اس فنڈ ریزنگ میں تقریباً 85لاکھ نارویجن کرون(30کروڑ روپے) جمع ہوئے تھے ،مطلب حالات یہ تھے کہ ایک معمولی سے لباس والا شخص کنسرٹ ہال کے سٹیج کے قریب آیا، عمران خان تب تک بیک سٹیج جا چکے تھے۔ وہ سٹیج کے ایک طرف کھڑا نارویجن کرنسی کرون کے نوٹ گن رہا تھا، پھر اسے نجانے کیا سوجھی کہ انتظامیہ کے پاس آیا اور نوٹوں کی پوری گڈی یہ کہہ کر تھما دی کہ پیسے عمران خان کو دے دینا، کہنا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی جمع پونجی ہے۔ یعنی اُس وقت بھی لوگ عمران خان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ کہنے اور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عمران خان اس دفعہ بھی سیلاب زدگان کی مدد کو نکلیں تو بیرون ملک مقیم پوری کمیونٹی لبیک کہے گی۔لہٰذاخدا کے لیے باقی تمام قومی رہنمابھی ان سیلاب زدگان کے معاملے میں سنجیدہ ہوں، آگے سردیاں آنے والی ہیں، بلکہ ستمبر کے مہینے میں رات میں خنکی بڑھ جاتی ہے، اس لیے اُن کے بارے میں ضرور سوچیں جو کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں، پھر اسی ماہ کے آخر تک ڈینگی بھی حملہ کرنے والا ہے۔ جس سے ہزاروں ہلاکتیں متوقع ہوتی ہیںمگر کوئی سدباب نہیں ہوتا۔ لہٰذاگزارش ہے کہ محض چند دن کے لیے کرپٹ مائنڈسیٹ کو ایک طرف رکھ کر ان کے لیے ریلیف کا کام کرلیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی!