سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے 7سال : لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر!

17جون ہر سال کی طرح اس سال بھی شہدا کی یادیں تازہ کر رہا ہے، جب لاہور کے دل ماڈل ٹاﺅن میں دن دیہاڑے شب خون مارا گیااور ریاست کی جانب سے نہتے شہریوں پر گولیاں برسائی گئیں جس سے 14افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ جب یہ سانحہ ہوا تو سمجھا جا رہا تھا کہ یقینا یہ ایک ٹیسٹ کیس ہوگا،جس کا انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ کیوں کہ اس کیس میں مدعی پارٹی پاکستان عوامی تحریک ، خصوصاََ سربراہ جماعت پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اس سانحہ کے بعد خاصے متحرک نظر آئے اور اس کیس کی پاداش میں ایک سے زائد دھرنے بھی دے ڈالے، ایسے لگ رہا تھا جیسے پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہوگا جب مظلوم کو انصاف ملے گا۔ پھر اسی کیس کی بنا پر سابقہ حکومت کا نہ صرف ووٹ بنک کم ہوا بلکہ اُنہیں کئی ایک مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن یہ کیا؟ سانحہ ماڈل ٹاﺅن موجودہ حکومت کے تین سال گزرنے کے بعد آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے، جہاں پہلے دن تھا اور کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ بلکہ بقول شخصے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے تمام ملزم پہلے سے بہتر عہدوں پر تعینات ہو گئے ہیں جیسے موجودہ دور حکومت میں ڈاکٹر توقیر شاہ سمیت سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے تمام ملزم اور چھوٹے بڑے کردار پہلے سے بہتر عہدوں پر تعینات ہو چکے ہیں، سابق دور حکومت میں سانحہ کے ملزم حکومت بدلنے پر اپنی گرفت ہونے کے خوف میں مبتلا تھے آج پرکشش تعیناتیاں ملنے پر وہ بے خوف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مظلوموں کو انصاف دینا تو دور کی بات سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے سو سے زائد کارکنوں کو انہی کے دور حکومت میں سزائیں سنائی گئیں۔ وہ پانچ اور سات سال کے لیے جیلوں میں بند اور ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہے ہیں۔جبکہ طاہر القادری صاحب سے بھی اس حوالے سے شکوہ بنتا ہے کہ وہ جس انداز میں ن لیگ کے دور حکومت میں احتجاج کرتے ہوئے عوامی رنگ میں رنگتے نظر آتے تھے، لیکن جب سے موجودہ حکومت آئی ہے، نہ تو کبھی وزیر اعظم عمران خان (جو حکومت ملنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے سیاسی کزن تھے ) نے کبھی اس کیس کا اظہار کیا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب کبھی زیادہ وقت کے لیے پاکستان آئے۔ یقین مانیں دکھ اس بات کا ہے کہ چلو جو شہید ہوگئے سوہوگئے اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے(آمین) لیکن جو احتجاج کرنے والے افراد ”غائب“ کر دیے گئے تھے ، اُن کے اہل خانہ بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے کرتے اور پیشیاں بھگت بھگت کر اُجڑ گئے ہیں۔ مطلب بقول سلیم کوثر تم نے سچ بولنے کی جرا¿ت کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی لیکن کیس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، اور لگ یہی رہا ہے کہ زندگی میں کبھی لواحقین کو انصاف مل سکے گا۔ کیوں کہ اگر اس کیس کی طوالت کے حوالے سے بات کریں تو فی الوقت اس کیس کے حوالے سے موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کیس کی غیر جانبدار تفتیش کے لئے نئی جے آئی ٹی بنانے پر آمادہ ہوئی۔ حکومت نے 3 جنوری 2019 ءکو نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اے ڈی خواجہ کوجے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سربراہ سے لے کر ممبران تک کا تقرر حکومت نے خود کیا۔ جنوری 2019 ءمیں نئی جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کیا اور پہلی بار سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق اہم شواہد، شہادتیں اور ثبوت ریکارڈ پر لائے گئے۔ ایسے دستاویزی شواہد منظر عام پر آئے کہ جن کی صداقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اے ڈی خواجہ کی قیادت میں نئی جے آئی ٹی نے دن رات کام کیا۔ نئی جے آئی ٹی نے شہدائے ماڈل ٹاﺅن کے چشم دید گواہان اورزخمیوں کے بیانات قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ ملزمان کے بیانات بھی قلمبند ہوئے اور اڑھائی ماہ میں اپنا کام مکمل کر لیا جب رپورٹ مرتب کرنے کا مرحلہ آیا تو سانحہ کے ایک ملزم پولیس اہلکار کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے 22 مارچ 2019 ءکو جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا حکم سناتے ہوئے سٹے آرڈر جاری کر دیاجو تاحال برقرار ہے۔کیس کے فیصلے کے لئے مسلسل قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے مگر کیس جوں کا توں ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ نے 13مارچ 2020 ءکو لاہور ہائیکورٹ کو کیس کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر کرنے کی ڈائریکشن دی مگر سپریم کورٹ کی اس ڈائریکشن کو بھی 1سال 4ماہ گزر چکے ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ قارئین! یہ ہے پاکستان!یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب ہمارے قائد ین نے دیکھا تھا۔ جہاں انصاف کا بول بالا ہونا تھا، جہاں غریب کو انصاف ملنا تھا اور طاقتور کو قانون کے دائرے میں لانا تھا، جہاں ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت قائم ہونا تھی اور جہاں پر مظلوم کی شنوائی ہونا تھی۔ لیکن ان سب کے برعکس جو بھی متعلقہ ارباب اختیار آتے رہے ، انہوں نے سات سالوں میں صرف وعدے وعید ہی کیے۔ جیسے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھری عدالت میں تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد کو کمٹمنٹ دی کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی ماں کا خواب پورا کرو انصاف آپ کو ہم دیں گے۔پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دھرنے کے موقع پر ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ساتھ انصاف کا یقین دلایا۔ پھر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک سے زائد بار وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر مظلوموں کو انصاف دلوائیں گے۔پاکستان کے ان طاقتور ترین شخصیات کی کمٹمنٹ کے باوجود انصاف ہونا دور کی بات انصاف کی طرف کوئی پیشرفت بھی نہیں ہوئی۔ بہرکیف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے انصاف کے حوالے سے ماضی اور حال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انصاف پہلے بھی ناممکن لگ رہا تھا، آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ لہٰذامسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے راو¿نڈز باقی ہیں اور آخری راو¿نڈ کب آئے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت نے 3سال بعد بھی اس سانحہ کے قصور واروں کو بے نقاب نہ کیا تو اس حکومت کو ناکام ہی کہا جائے گا۔ چلیں مان لیا کہ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کاانصاف کرنا اور غیرجانبدار تفتیش کرانا سابق حکمرانوں کی ذمے داری تھی کیونکہ الزام ان پر تھا، تو کیا اس کے بعد کچھ نہیں ہوناتھا؟ اور پھر کیا عام عوام سانحہ بلدیہ ٹاﺅن، سانحہ ماڈل ٹاﺅن، سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد، سانحہ ابرفین، سانحہ مچھ، سانحہ12مئی اور دیگر کئی سانحات کی طرح قربان ہوتے رہیں گے۔ اور سانحات پر نوحہ کناں رہیں گے۔ بقول شاعر سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے حبس جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے اب تو میرا دشمن بھی میری طرح روتا ہے کچھ گلے تو کم ہوں گے ساتھ ساتھ رونے سے لہٰذااس سے پہلے کہ عوامی عدالتیں لگیں ہمیں کم از کم ان سانحات کی انکوائریاں کر لینی چاہئیں ۔ ہمارا خیال تھا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اس کیس پر کوئی فرق پڑے گا مگر ہر طرف پراسرار خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ اور لگ یہی رہا ہے کہ اگلے 7سال بھی مقتولین کے ساتھ انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔اگر توقع ہوتی تو اب تک کچھ نہ کچھ ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذااس چیز سے ہٹ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ذمے دار کوئی بھی ہو، اسے قانون کے مطابق سزا ضرور ملنی چاہیے۔فی الوقت تو کوئی شخص بھی اس معاملے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔لہٰذااس وقت شہدائے ماڈل ٹاو¿ن کے ورثاءکا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کی از سر نو تفتیش کی جائے جو نہیں ہونے دی جا رہی، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب تک شریف برادران برسراقتدار تھے اس وقت تک غیر جانبدار جے آئی ٹی نہیں بننے دی گئی، اب انھیں اقتدار سے الگ ہوئے 3سال ہونے کو آئے ہیں اور تاحال تفتیش نہیں ہو سکی، آخر کیا وجہ ہے کہ انصاف کی طرف پیشرفت بھی نہیں ہو سکی؟ مجھے پاکستان عوامی تحریک سے کوئی غرض نہیں ، نہ میں اُن کا نمائندہ ہوں۔ مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ حکومت اُن 14پاکستانیوں کے بارے میں ضرور سوچے کہ وہ بھی پاکستان ہی کے شہری تھے۔ وہ بھی اسی جھنڈے تلے ایک تھے۔جنھیں ریاستی مشینری نے کچل دیالہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران خصوصاََ پنجاب حکومت اُن افراد کو کڑی سزا دے جو اس خونریزی کے ذمے دار تھے۔ کیوں کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلا جائے گا، اور حکومت پر خاموش ووٹ بنک کا اثر پڑے گا۔ جو خاموشی سے حکومت کے کردار کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وقت آنے پر صحیح فیصلہ کرتے ہیں! #Model Town tragedy #justice #Lahore #unarmed civilians were shot by the state #Dr. Tahir-ul-Qadri #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon