حکمرانو! ہمارے پاس بیچنے کیلئے رہ کیا گیا ہے؟

سابقہ حکومت میں محترم شہباز شریف کا ہر دوسرے دن بیان آتا تھا کہ ہمارا فلاں ملک کے ساتھ اتنے ارب ڈالر کا معاہدہ ہو گیا اور فلاں کے ساتھ سالانہ اتنے ارب ڈالر کی تجارت ہوا کرے گی۔ اور اب جب ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت یعنی نگران حکومت آچکی ہے تو وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا بیان بھی سن لیں کہ ہمیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ یہ سرمایہ کاری کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کی جائے گی اور یہ پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ پاکستان کے معدنی وسائل 60 کھرب ڈالر کی مالیت کے ہیں جبکہ ریکوڈک کے حوالے سے بیرک گولڈ کا خیال ہے کہ کاپر اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ہے جس کا حصہ 50 فیصد ہے ، باقی 50 فیصد وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا ہے۔ پھر آپ نگران وفاقی وزیر برائے تجارت، صنعت و پیداوار گوہر اعجازکی بھی سن لیں وہ کہتے ہیں کہ رواں سال کے اندر ازبکستان کے ساتھ 1 بلین ڈالر کی تجارت کے قابل ذکر حصول کا عہد ہے۔پھر ایک اور جگہ موصوف فرماتے ہیں کہ 80بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کا پلان دینا بہت بڑا چیلنج ہے جسے میں 90 دن میں پورا کروں گا۔ اس ہدف کو حاصل کیے بغیر ملک نہیں چل سکتا، 25 کروڑ کی آبادی میں 80 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ زیادہ نہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں روز صبح یہی سوچتا ہوں کہ 25 کروڑ کی آبادی ہے،ہماری ایکسپورٹ صرف 10 بلین ڈالر کی ہے جبکہ امپورٹ 55 بلین ڈالر ہے۔تمام لگژری اشیا بند کرنے کے باوجود بھی امپورٹ اس حد تک پہنچ چکی ہے۔ پھر ایک اور صاحب کا بیان آتا ہے کہ چین اور دیگر ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ تجارت برابری کی سطح پر ہوگی۔ عوام کے یہ سہانے خواب دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر یقینا کان پک گئے ہوں گے۔ مگر زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا یہ کسی کے علم میں ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا بھر میں کوئی بھی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی بنک گارنٹیاں مانگ رہا ہے۔ ہر کوئی ہمارا نظام انصاف دیکھ کر کنی کترا رہا ہے کہ کہیں اُس کا سرمایہ ڈوب نہ جائے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جن کمپنیوں نے یہاں سرمایہ کاری کر رکھی تھی وہ بھی یہاں سے سب کچھ اونے پونے بیچ کر بھاگ رہی ہیں۔ اور رہی بات چین، یو اے ای یا سعودی عرب کی تو یہ برادرممالک بھی اپنے اپنے مفادات کیلئے پاکستان سے جڑے ہیں۔ کسی کو تجارت کرنی ہے، کسی کو سکیورٹی چاہیے تو کسی کو یہاں پر ادارے گروی رکھنے ہیں۔ لہٰذاسیاسی استحکام کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ خیر اس پر تو بہت دفعہ بات کر چکا ہوں مگر ابھی معیشت اور تجارت پر بات کرتے ہیں ۔ لہٰذااب آجائیں ”برابری“ پر تو تجارت میں برابری سے مراد کسی بھی ملک سے اگر آپ ایک ارب ڈالر کی اشیاءخرید رہے ہیں تو اتنے ہی ڈالرز کی اشیاءدوسرا ملک خریدنے کا پابند بھی ہوگا۔ لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بیچنے کے لیے ہے کیا؟ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے کیا ہم گندم بیچیں گے؟ چینی بیچیں گے؟ یا کپاس بیچیں گے؟ یہ تینوں اشیاءہی پاکستان میں سرپلس نہیں ہیں تو کیسے ممکن ہے ہم ان سے ملک چلا سکتے ہیں۔ ہاں !چاول بیرون ملک فروخت کرکے 2ارب ڈالر تک وصول ہوتے ہیں اور کپاس ہر سال سیلاب کی نذر ہوجاتی ہے۔ اور رہی بات چینی کی تو اس میں مافیا اس قدر چھایا ہوا ہے کہ وہ ایک دفعہ چینی بیرون ملک بھیج کر منافع کماتے ہیں اور پھر چینی کی شارٹیج پیدا کرکے وہی چینی واپس منگواتے ہیں تو اُس میں حکومت سے سبسڈی بھی حاصل کرتے ہیں، تب بھی عوام کے لیے چینی ڈھائی سو روپے کلو بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ آپ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی گفتگو سن لیں وہ کہتے ہیں کہ ڈالر چاہیے تھے اس لیے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔میکنزم بنایا گیا جس کے تحت ایک ایک حصہ ایکسپورٹ کیا جانا تھا اس میکنزم میں یہ بھی تھا کہ پرائس پر نظر رکھی جائےگی۔مطلب! ہم وقتی فائدے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری گائے ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے! جبکہ دوسری جانب اس وقت پوری دنیا کے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے، ہم سے کٹ جانے والا بنگلہ دیش فیبرکس میں کتنا نام بنا چکا ہے، اس کا اندازہ دنیا کی بڑی بڑی مارکیٹوں میں ان کی پراڈکٹس دیکھ کر ہو سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ وجود میں آنے والے بھارت کے درجنوں برانڈز انٹرنیشنل لیول پہ مشہور ہیں۔ ٹاٹا موٹرز، جیگوار اور لینڈ روور کی مالک بن چکی ہے۔ رائل انفلیڈ عرف بلٹ موٹر بائیک دنیا بھر میں بھارت کی پہچان ہے۔کرنل باسمتی چاول پاکستانی چاول ہے لیکن دنیا بھر میں اسے انڈین چاول کے نام سے پہچانا جاتا ہے حتیٰ کہ بھارت نے عالمی عدالت میں کیس کر کے کرنل باسمتی کے حقوق پکے پکے حاصل کر لیے۔ پنک سالٹ گلابی نمک ہماری کھیوڑہ کی کان سے نکلتا ہے مگر بھارت اسے ہمالین سالٹ کے نام سے دنیا بھر میں مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کا اک خطاب سنا وہ کسانوں کو پروڈکٹ کی ویلیو ایڈنگ سمجھا رہا تھا کہ کچا آم بیچو گے تو صرف کچا آم رہے گا اسے کاٹ کر چاٹ مصالحہ ڈال کر بیچو گے تو زیادہ پیسے دے گا اگر ابال کر یا بھون کر شربت بنا کر بیچو گے تو مزید ویلیو بڑھ جائے گی اور اگر اس کا اچار بنا کر بیچو گے تو مزید مہنگا بکے گا۔ ادھر ہمارے ہاں سیزن کا ہر فروٹ ٹکے ٹوکری ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان آم، ٹماٹر ،خوبانی ،کینو ،تربوز بے بہا پیدا کرتا ہے پر افسوس میکنزم نہ ہونے کی بدولت بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔حالانکہ یہ کام یونیورسٹیوں کا ہے کہ اس پر تحقیق کی جائے مگر ہماری زرعی یونیورسٹیاںمعذرت کے ساتھ ہر روز ہمیں ایک نیا سکینڈل فراہم کر رہی ہیں۔ پھر آپ ہمسایہ ملک چین کو دیکھ لیں جو زرعی انقلاب لا چکا ہے ہائبرڈ قسم کے بیج اور پودوں نے روایتی زراعت کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک ایکڑ میں وہ ریکارڈ پیداوار اٹھاتے ہیں پھلوں کا حجم رنگ ذائقہ تک بدل دیا ہے۔ ہمارے ہاں اک مافیا ہے جو ایسے بیچ پودے پاکستان میں نہیں لانے دیتا کہ زرعی ادویات کی مارکیٹ کو تو چلانا ہے، امریکن سنڈی ،گلابی سنڈی کراٹے جوڈو مارشل آرٹس قسم کی زہر آلود فصلات کے گھن چکر سے نہیں نکلنے دینا اس ملک کو۔پھر روس میں اک پھولدار پودا اگتا ہے جس کے پھولوں اور پتوں سے خوش ذائقہ اور خوشبودار قہوہ بنتا ہے جو جسمانی صحت کے لیے بہت مفید ہے ہمارے اک دوست کے ذریعے اس کے بیج کے چند ساشے منگوائے۔ جب وصول کرنے گئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے ایٹم بم بنانے کا نسخہ منگوا لیا ہو۔ دس طرح کے این او سی اور محکمہ دفاع سے لے کر محکمہ داخلہ تک کے اجازت نامے درکار تھے۔ تنگ آ کر اُس نے ان بیجوں والے ساشوں پہ ہی فاتحہ پڑھ لی۔ پھر جس طرح نگران وزیر تجارت ہمیں بتارہے ہیں کہ پاکستان کے پاس 60کھرب ڈالر کی معدنیات ہے، تو اُس کی بھی سُن لیں کہ ریکوڈک (سونے کی کانیں) کے حوالے سے تو ہم اس وقت عالمی عدالت اور عالمی کمپنیوں میں پھنسے ہوئے ہیں، اور رہی بات پاکستانی کوئلے کی تو اس وقت کوئلہ ہماری اپنی ضروریات ہی پوری نہیں کر رہا ، تو ہم کیسے اسے دوسرے ممالک کو بیچ سکتے ہیں؟ بلکہ ہم تو خود افغانی کوئلے پر انحصار کیے بیٹھے ہیں، مثال کے طور پر افریقین اور انڈونیشن کوئلہ 35ہزار روپے فی ٹن ، مقامی کوئلہ37ہزار روپے فی ٹن جبکہ افغانی کوئلہ پاکستان کو 40ہزار روپے فی ٹن پڑتا ہے۔ با الفاظ دیگر کوئلے کی تجارت میں پاکستان کے مقابلے میں افغانستان جیت کی پوزیشن میں ہے۔ یعنی کہ پاکستان کو کوئلہ برآمد کرنے میں افغانستان بہت زیادہ فائدے میں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔مثال کے طور پر افغانی کوئلہ کم معیاری ہے۔ جس میں سلفر کی مقدار کم اور جوہائی گر اس کیلورفک ویلیو(GEV)پر مشتمل ہے۔ افغان حکومت کوئلہ نکالنے کے ٹھیکے صرف افغان تاجروں اور ٹھیکیداروں کو دے رہی ہےاور افغان تاجرکوئلہ نکالنے کے لئے افغان مزدوروں کی ہی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ جب کوئلہ نکالا جاتا ہے تو پھر وہ کوئلہ افغان ملکیت والے ٹرکوں کے ذریعے ہی منتقل کیاجاتا ہے۔ کوئلے سے لدے ٹرک جب پاکستان میں داخل ہونے کے لئے پاک افغان بارڈر پر پہنچتے ہیں تو وہ افغان حکومت کو ٹول ٹیکس اور ایکسپورٹ ڈیوٹی ادا کرتے ہیں اورآخرمیں پاکستان کا نجی شعبہ بھی افغانوں کو کوئلہ خریدنے کے لئے ادائیگی کرتا ہے۔ الغرض اگر افغانی اپنے ہاں سسٹم بنانے میں اور اپنے روپے کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو ہمیں کیا ہے؟ کیا فیصلہ کرنے والے ایسا سسٹم نہیں بنا سکتے کہ عام عوام کو فائدہ ہو۔ دنیا ہر گزرتے دن ترقی کر رہی ہے اور ہم پولیس گردی کے ذریعے مخالفین کو دبوچنے میں اپنی توانائیاں اور پیسے صرف کر رہے ہیں۔ لہٰذاخدارا اگر ملک کو بچانا ہے تو سمال انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ پاکستان کے پاس لے دے کر کرکٹ بیٹ اور فٹ بال نامی صنعت ہے جو میڈ ان پاکستان نہیں بلکہ پروڈکٹ بائی ایڈی ڈاس کے نام سے دنیا میں فروخت ہوتی ہے۔ ٹیکسٹائیل کی صنعت آلات جراحی کی صنعت کو ہم نے مہنگے بجلی کے بلوں اور را میٹیریل امپورٹ پابندیوں کی نذر کر دیا ہے۔ان تمام چیزوں پر نظر رکھ کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ورنہ ہم عوام پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاتے رہیں گے اور مقتدرہ والے چھ ستمبر کے نئے گیت ریلیز کرتے رہیںگے!