بے نظیر شہید آج کیا سوچتی ہوں گی!

دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہنے والی واحد خاتون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔کل اُن کی 16 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے چاہنے والے اور معتمدین آج بھی ان کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہیں ، کیوں کہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کا روشن چہرہ اور روشن مستقبل تھیں،انہیں عالمی سطح پر آئرن لیڈی، مشرق کی شہزادی، دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید وفاقِ پاکستان کی علامت اور عوام کی امنگوں کا مظہر بھی تھیں۔انہوں نے پاکستان کے طول وعرض میں سیاسی فراست، ذہانت اور سوجھ بوجھ کے انمٹ نقوش ثبت کیے اور وقت کے ساتھ ان کی عزت و تکریم میں بیش بہا اضافہ ہوتا چلا گیا۔وہ ایک ایسی قومی راہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر آگے چل سکتی تھیں۔ بی بی شہید عالمی سطح کی شخصیت تھیں اور پاکستان کی نمایاں آواز تھیں۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں (دوران مفاہمت اُن سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں، جن کا بعد میں ذکر کیا جائے گا)وہ لوگوں میں فاصلے کم کرنا اور انہیں قریب لانا جانتی تھیں۔ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ہر معاملے میں فاصلوں کو کم کرنا اور مثبت اندازِ فکر کو اپنانا ہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ ان کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ غربت و افلاس کا خاتمہ کرکے عالمِ اسلام کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اُنہیں اُس وقت کھو دیا جب وہ بہتری کی جانب گامزن تھیں، وہ اچھے برے حالات، اور اچھے برے لوگوں میں تمیز کرنے کے حوالے سے خاصی میچور ہو چکی تھیں۔ لیکن آج ناتو ہمیں اُن کے کھونے کا کوئی افسوس ہے اور نہ اُن کے قاتلوں کو ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے مگر یہاںمیں اُن احوال کا ذکر کروں گا کہ پاکستان کی مقبول ترین جماعت پیپلزپارٹی بے نظیر کی شہادت سے پہلے اور بعد میں بھی اتنا زیادہ عروج کیوں نہ پکڑ سکی۔ جو عروج اُنہیں بھٹو کے دور میں ملا تھا۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں مگر میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا ظلم کسی نے نہیں سہا جتنا ضیاءالحق کے دور میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے سہا ہے، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جتنا ظلم اس وقت تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ آج ہو رہا ہے، یہ بھی کم ہے۔ پھر چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی شہادت کے بعد نئی نئی پارٹی قیادت کو سنبھالا تھا اس لیے اُن سے بھی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں، جیسے انہوں نے سب سے پہلے 1979اور 1983ءکے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پھر 1985ءکے غیر جماعتی عام انتخابات کا بائیکاٹ کرکے سب سے بڑی سیاسی غلطی کی۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے لاہور میں کلین سویپ کیا تھا، لیکن جماعت کی سرپرستی نہ ہونے کے سبب تمام اُمیدوار تتر بتر ہو کر یا فروخت ہو کر حکومت کے ساتھ شامل ہوگئے۔ پھر 1983ءکے بلدیاتی الیکشن میں بے نظیر نے اعلان کیا کہ جو اُمیدوار الیکشن میں حصہ لے گا ہم اُسے پارٹی میں نہیں رہنے دیں گے،اس کے بعد پھر1985ءکے غیر جماعتی الیکشن میں بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو اُمیدوار ان الیکشن میں حصہ لے گا پیپلزپارٹی کبھی اُسے اپنی جماعت میں نہیں رہنے دے گی اور کبھی اُسے واپس بھی نہیں لے گی۔ پھر 1986ءمیں محترمہ پاکستان آئی اور لاہور میں ایسا فقید المثال استقبال ہوا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی، یہ استقبال اسی لیے تھا کہ محترمہ یعنی پیپلزپارٹی عوام کی اُمید تھی، لیکن 1988ءکا الیکشن جیسے ہی آیا محترمہ اپنے تمام تروعدے بھول گئیں، اور فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کی چالوں میں آگئیں، اُنہوں نے امیر، برادری والے اور مضبوط اُمیدوار تلاش کیے ،محترمہ نے اس دوران کسی کی پرواہ نہیں کہ کس کس نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں، کس کس نے کوڑے کھائے اور کون کون جیلیں کاٹتا رہا، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ 1988ءمیں پیپلزپارٹی کا ورکر پہلی مرتبہ Damage ہوا، تو اس میں کوئی دو آراءنہیںہیں۔پھر 90کی دہائی میں نواز شریف کی حکومت کے دوران اُن پر مقدمات بھی بنے لیکن وہ ثابت قدم رہیں۔ پھر مشرف حکومت کے دوران انہوں نے ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جس جرا¿ت مندی کا مظاہرہ کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن اُن سے یہاں ایک غلطی ضرور ہوئی کہ انہوں نے مشرف کو فورس کیا، عالمی طاقتوں کا ساتھ ملایا اور نواز شریف کو بھی ملک میں بلا لیا جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ پھر محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور 2008ءمیں پیپلزپارٹی کو حکومت مل گئی۔ جس کے بعد بظاہر تو یہی لگا کہ یہ وہ پیپلزپارٹی نہیں ہے جو محترم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تھی۔ خیر زرداری صاحب نے محترمہ کی شہادت کو کیش کروا کر حکومت تو لے لی مگر اُنہیں عوام کی اُمنگوں کے مطابق چلانا نہیں آیا۔ بلکہ انہوں نے حکومت کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ بی بی کے بعد پیپلزپارٹی کو جب جب عوام میں آنے کا موقع ملا، اُس نے اختیارات کے غلط استعمال کی دھجیاں اُڑائیں۔نہیں یقین تو حالیہ پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت کو دیکھ لیں۔ اپنے کیسز ختم کروانے کے لیے تمام اختیارات ن لیگ کے حوالے کر دیے۔ پھر یہی نہیں بلکہ جب 2008ءمیں زرداری صاحب کو حکومت ملی تو انہوں نے خود پنجاب کو ن لیگ کے حوالے کر دیا۔ حالانکہ یہ ق لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا سکتے تھے۔ لیکن یہ لوگ مل جل کر کھانے کے عادی ہوگئے۔ جس کا فائدہ تحریک انصاف نے اُٹھایا اور دونوں پارٹیوں کا چاروں صوبوں میں صفایا کر دیا۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ بی بی کے بعد پیپلزپارٹی دراصل ”مفاد پرست پارٹی“ بن کر رہ گئی۔ جو صرف اپنے چند فوائد حاصل کر کے ملک کو داﺅ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ بلکہ دوران حکومت اپنی تمام تر توانائیاں یا تو کمیشن وصول کرنے میں خرچ کر تی ہے یا اپنے کیسز ختم کروانے میں۔ آپ کو اس حوالے سے بھی یاد کروا دوں کہ پیپلزپارٹی کے 2008سے 2013ءکے دور میں پیپلزپارٹی نے اپنا ایک وزیر اعظم بھی اسی چکر میں گنوا دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سوئٹزر لینڈ کو خط نہیں لکھا ۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ وہی خط تھا جس کی تاریخ کے مطابق اُس وقت الزام تھا کہ آصف زرداری نے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں کروڑوں غیر قانونی ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ءکو انکے خلاف مقدمات کھولنے کا حکم دیا۔ طویل حکومتی ٹال مٹول کے بعد سپریم کورٹ کی منظوری سے وزارتِ قانون نے سوئس حکام کو ایک خط لکھا کہ سوئس مقدمات دوبارہ کھولے جائیں۔ اس خطیر رقم کی واپسی کیلئے احتساب بیورو اور سابق اٹارنی جنرل چودھری فاروق نے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسوں میں فریق بننے کیلئے بھی خط لکھ رکھا تھا۔ ایک طرف تو سپریم کورٹ کو مقدمات کھولنے والا خط لکھ کر مطمئن کر دیا گیا لیکن اس خط کے صرف سترہ دن بعد سرکاری کبوتروں نے چپکے سے ایک اور خفیہ خط سوئٹزر لینڈ میں ”بامِ یار“ پر جا گرایا۔ اِس خط میں لکھا تھا ”حکومت پاکستان مقدمات کو دوبارہ کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اس لئے مقدمات نہ کھولے جائیں کیونکہ صدرِ پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت مکمل تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہے۔ یعنی یہ لوگ اس ڈر سے کہ کہیں راز فاش نہ ہو جائے، اُس وقت کی سپریم کورٹ سے بھی ہاتھ کر گئے۔ خیر پیپلزپارٹی کی اب پوزیشن یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ بننے اور منتخب حکومت کو گھر بھیج کر اپنی پوزیشن کو پی پی نے خود ہی خراب کر لیا ہوا ہے۔ آج بلاول ہر جلسے میں ن لیگ کے خلاف چیخ چیخ کر حقائق بیان کرتا ہے مگر مجال ہے کہ اُن کے والد زرداری صاحب اس حوالے سے کوئی بات کر لیں،،، بلکہ وہ اُلٹا بلاول کے حوالے سے بیان دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ ابھی سیاسی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا۔ اس پر یقینا بے نظیر شہید سوچتی ہوں گی کہ وہ اقتدار کن لوگوں کے ہاتھ میں دے آئی ہیں۔ خیر قصہ مختصر کہ کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی دو طرح کی رہی ہے، جب پیپلزپارٹی اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جب یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مفاد پرست آجاتے ہیں، تبھی یہ پارٹی آج ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے، لہٰذااگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو یقینا وہ مزید پالش ہو چکی ہوتیں، اُن میں نکھار آچکا ہوتا، لیکن اب محترمہ نہیں ہیں تو پیپلزپارٹی کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور عوام کی اُمنگوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ ورنہ صوبہ سندھ بھی اُن کے ہاتھ سے جانے میں دیر نہیں لگے گی!