ضمنی الیکشن : ووٹر کا الیکشن سے اعتبار ختم ہوگیا؟

لیں جی! 8فروری کے عام انتخابات کے بعد 21اپریل کوضمنی الیکشن کی رسم بھی ختم ہوگئی، اس الیکشن میں قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔ جس میں حکمران جماعت (مسلم لیگ ن )نے میدان مار لیا،یعنی 11نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف) کو 2،پیپلز پارٹی 2،ق لیگ ،استحکام پاکستان پارٹی اور بی این پی کو ایک ایک سیٹ ملی۔الیکشن کیا تھے، بلکہ یوں کہیں کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے 8فروری کے الیکشن کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان ضمنی الیکشن میں فرق یہ تھا کہ عوامی جوش و خروش نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی بڑی وجہ بادی النظر میں یہ تھی کہ جو جھرلو 8فروری کے الیکشن میں پھیرا گیا، اُسکے بعد انتخابات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ آپ لاہور ہی کو دیکھ لیں، جسے سیاست کا گڑھ سمجھا جاتا ہے،،، یہاں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی 4 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔ لیکن پولنگ سٹیشنز پر ٹرن آو¿ٹ انتہائی کم رہا۔چھٹی کے باوجود عام شہریوں نے پولنگ سٹیشن جا کر ووٹ کاسٹ کرنے میں کم دلچسپی لی تاہم سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے کارکنو ںاور سرگرم حامی اپنے اہل خانہ اور جاننے والوں کے ووٹ کاسٹ کروانے کے لئے دن بھر مصروف رہے۔بلکہ بعض پولنگ سٹیشن تو ویران نظر آئے۔ میری دوست احباب سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا کیا فائدہ ہے؟ جب سب کچھ Decidedہے تو پھر الیکشن کے یہ چونچلے کیوں ہیں؟ کھڈیاں خاص جو میرا آبائی علاقہ ہے،،، وہاں بھی ووٹنگ ٹرن آﺅٹ نہ ہونے کے برابر رہا ہے،،، میں نے جس سے بھی پوچھا کہ ووٹ ڈالنے کیوں نہیں گئے،،، تو یہی جواب ملا کہ جب ووٹ ڈالنے کا فائدہ ہی کچھ نہیں تو پھر وقت ضائع کیوں کیا جائے؟ حالانکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں الیکشن کے دنوں میں میلہ لگا کرتا تھا۔ ویسے تو ابھی تک ہمارے الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹنگ ٹرن آﺅٹ کا اعلان نہیں کیا گیا مگر آزادانہ ذرائع کے مطابق اوسطاََ ٹرن آﺅٹ 20فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، مگر اس میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا ووٹر باہر نہیں نکلا، شاید وہ حالیہ Developmentسے سخت مایوس ہو چکا ہے۔ شاید وہ اس لیے مایوس ہو چکا ہے،،، کہ تمام فیصلے ہو چکے ہوتے ہیں، کہ کسے اقتدار دینا ہے اور کسے نہیں،،، جس کے بعد الیکشن محض ڈھونگ رچانے کے لیے کروائے جاتے ہیں،،، یا وہ شاید اس لیے مایوس ہو چکے ہیں کہ مقتدرہ جس پر جب چاہے مقدمات بنا سکتی ہے،،، اور جس پر جب چاہے ختم کر سکتی ہے۔ یا وہ شاید اس لیے بھی مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ جان چکے ہیں کہ آپ جتنی چاہیں ماریں کھالیں، ہونا وہی کچھ ہے جس کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ تبھی عوام ان الیکشن میں دلچسپی دکھانے سے گریزاں ہے،،، اور میرے خیال میں فیصلہ کرنے والی طاقتوں کے لیے یہ ایک سخت پیغام ہے۔ ورنہ ماضی میں اتنی بری حالت کبھی نہیں رہی۔ اور یہ جو الیکشن کمیشن ہے اسے بھی اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے ، یہ حکومت سے فنڈز اسی لیے لیتی ہے تاکہ ووٹر کو سہولت کاری دی جائے،،، لیکن یہ تمام فنڈز صرف اور صرف فیصلہ کرنے والی قوتوں کے حق میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اور میں یہاں آپ کو بتاتا چلوں الیکشن کمیشن فی ووٹر حکومتی خزانے سے کتنے پیسے بٹور رہی ہے اور بدلے میں عوام کو کیا دے رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ 2008ءکے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو 1.8ارب روپے فراہم کئے گئے تھے تاکہ 81ملین ووٹر حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے نمائندے منتخب کرسکیں۔ یعنی فی ووٹر 22روپے خرچ ہوئے۔ مگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے علاوہ امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے جو اخراجات کئے اگر انہیں شمار کیا جائے تو مجموعی طور پریہ الیکشن 200ارب روپے میں پڑا۔ 2013ءمیں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 86ملین ہوگئی۔ افراط زر میں بھی اضافہ ہوچکا تھا چنانچہ الیکشن کمیشن کیلئے4.6ارب روپے مختص کئے گئے یعنی فی ووٹر 58 روپے۔ لیکن مجموعی طور پر ان انتخابات میں اخراجات کا تخمینہ 400ارب روپے رہا۔ 2018ءکے عام انتخابات میں 106ملین ووٹرز کواپنا حق انتخاب استعمال کرنا تھا تو بجٹ میں الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے فراہم کئے گئے یعنی فی ووٹر 198روپے۔ البتہ صوبائی و قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے انتخابی مہم پر ا±ٹھنے والے اخراجات سمیت مجموعی طورپر تخمینہ لگایا جائے تو اس جمہوری عمل پر440ارب روپے خرچ ہوئے جس طرح گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر کہا گیا تھا کہ یہ ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہیں اسی طرح حالیہ الیکشن (فروری 2024)نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔128ملین ووٹرز سے رجوع کرنے کیلئے الیکشن کمیشن نے 47ارب روپے مانگے تھے لیکن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو کی جانے والی ادائیگیوں کے بعد یہ بجٹ 49ارب روپے سے تجاوز کرگیالیکن فی الحال 49ارب روپے ہی شمارکئے جائیں تو فی ووٹر 382روپے خرچ ہوئے۔یہ الیکشن کمیشن کے اخراجات کا تناسب ہے اگر امیدواروں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقوم اور دیگر تمام اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو 8فروری 2024ءکو ہونیوالے انتخابات کم ازکم 600ارب روپے میں پڑے۔ جو فی کس ووٹر پانچ ہزار روپے بنتا ہے،،، لہٰذاجب تمام فیصلے ایک روانی اور تواتر کے ساتھ بند کمروں میں ہونے ہیں تو کیوں نہ یہ ڈرامہ بند کیا جانا چاہیے،،، بلکہ فیصلے کرنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ فلاں شخص یا پارٹی اقتدار کے لیے موزوں ہے اس لیے اُسے موقع دیا جانا چاہیے،،، کیوں کہ انٹرنیٹ بند کرنے، موبائل سروس بندکرنے یا مختلف سوشل ایپس پر پابندی لگانے سے فضول میں بدنامی ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ 2013ءکے الیکشن میں 35پنکچرز کے بیانیے کی وجہ سے بدنامی ہوئی،،، جس میں الزام لگایا گیا کہ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ریٹرنگ آفیسرز نے دھاندلی کرکے مسلم لیگ (ن)کو کامیابی دلوائی، پھر2018ءکے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے یہ موقف اختیار کیا کہ نتائج کا اعلان کرنے کیلئے بنائے گئے سوفٹ ویئر RTSکو بٹھا کر نتائج تبدیل کئے گئے اور تحریک انصاف کو کامیابی دلوائی گئی۔ اس بار دھاندلی کے بیانئے پر ایک بار پھر تحریک انصاف کی اجارہ داری ہے اور کہا جارہا ہے کہ نتائج روک کر جیتے ہوئے امیدواروں کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کردیا گیا۔سوال یہ ہے کہ مہنگے ترین انتخابات کے بعد بھی اگر انتخابی عمل کی ساکھ پر سوالات اُٹھتے رہیں ،سیاسی عدم استحکام ختم نہ ہو تو پھر اس لاحاصل مشق کا کیا فائدہ ؟ریاست اور سیاست کے علم برداروں کو اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ الیکشن کروانے کے بجائے پانچ سوقبل مسیح کی ”ٹیکنالوجی“ ”آسٹرے سیزم“ کو استعمال کر لیا جائے جس کے مطابق شہر والے اپنے رہنما یا اہم فرد کی کسی عہدے پر مسلسل موجودگی سے تنگ آجاتے تو آسٹرے سیزم کے ذریعے اُسے دس برس کے لیے جلاوطن کردیتے۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ سال کے دسویں مہینے کے چھٹے دن آسٹرے سیزم کرنے کا اعلان کیا جاتا۔ تمام شہری ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑوں کو ووٹ کی پرچی کے طور پر استعمال کرتے اور ا±ن پر اپنے ناپسندیدہ فرد کا نام کندہ کرتے۔ جب تمام شہری یہ کرلیتے تو شہر کا پریزائڈنگ آفیسر ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑوں کو دیکھ دیکھ کر مختلف ناموں کی ڈھیریاں لگاتا۔ جس نام کی ڈھیری سب سے بڑی ہوتی اُس کے ٹکڑوں کو بطور ووٹ گنا جاتا۔ آسٹرے سیزم کے لیے اُس فرد کے خلاف کم از کم 6 ہزار ووٹ پڑنا ضروری تھے۔ جس پر بھی آسٹرے سیزم ثابت ہو جاتا اُسے اگلے دس روز میں شہر کو چھوڑ دینا لازم ہوتا۔ اگر وہ دس برسوں سے پہلے خود واپس شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اُس کی سزا موت قرار پاتی۔ البتہ ایتھنز کی اسمبلی یا جیوری ضرورت پڑنے پر آسٹرے سیزم کے تحت جلاوطن فرد کو معافی دے کر واپس بلا سکتی تھی۔قدیم یونان پر تحقیق کرنے والے برطانیہ کے مشہور سکالر ”پی جے روڈز“ نے آسٹرے سیزم کو ”باوقار جلاوطنی“ لکھا ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں یہ طریقہ کار درست ہے،،، اس میں کسی قسم کے اخراجات نہیں آئیں گے،،، اور ہماری ان کرپٹ اور بکاﺅسیاستدانوں سے جان بھی چھوٹ جائے گی ورنہ جب الیکشن میں دھاندلی ہی بنیاد ہوگی تو اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اگر ایسا بھی نہیں کرنا تو خدارا ! ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ خود ہی فیصلے کر لیا کریں،،، فضول کا اربوں روپے کا بجٹ جھونکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ حالات یہی رہے تو لوگ الیکشن کے دن گھروں میں رہ کر احتجاج ریکارڈ کروائیں گے اور پھر ٹرن آﺅٹ 10فیصد سے بھی کم ہو جائے گا!