قاسم علی شاہ سے ایک ملاقات !

یہ بات 1910 کی ہے۔ نیو یارک سٹی کی ایک کالج کے بورڈنگ ہاﺅس میں دو نوجوان اکٹھے رہتے تھے۔ اِن میں سے ایک کا نام جیسن(Jason ) تھا اور دوسرے کا ڈیوڈ، ڈیوڈایک تصوری نوجوان تھا۔ وہ ہر وقت ہوائی قلعے بناتا رہتا تھا۔ وہ ایک زرخیز علاقے کے ایک خوشحال خاندان سے تھا۔ اور اکیڈمک فنون میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔ دوسرا نوجوان جیسن ایک کسان کا بیٹا تھا۔ وہ کچھ کرکے دکھانے کی دھن میں تھا۔ ایک دن اِن دونوں میں اِس موضوع پر باتیں ہورہی تھیں کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کیا کریں گے۔ کسان کے بیٹے نے سینہ تان کر کہا۔ میں کسی عظیم ادارے کا سربراہ بنوں گا۔ ڈیوڈ اِس کی یہ بات سن کر بے اختیار ہنس دیا۔ مگر دہقان کا بیٹا امیرزادے کے تمسخر سے ذرا بھی بددِل نہیں ہوا۔ جیسن ایک گاﺅں میں پیدا ہوا تھا جس کے ارد گرد جنگل ہی جنگل اور کھیت ہی کھیت تھے مگر اس کے دل میں قدرت نے ولولہ ترقی کی چنگاری رکھ دی تھی۔ اُسے سب سے پہلی جو ملازمت مِلی وہ ایک گودام کی کلرکی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو وہ افسردہ اورملول رہنے لگتا مگر جیسن نے اِس کام کو انتہائی قابلیت سے انجام دیا۔ ڈیوٹی کے بعد جتنا وقت بچتا اِس میں ہول سیل ڈیپارٹمنٹ میں رضاکارانہ کام کرتا۔ اُسے کئی بارمایوسیوں اور نامرادیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر ہمت کے راستے کا یہ ثابت قدم حوصلے کے قدموں سے چلتا ہی رہا۔ چند دن بعد اِس نے ایک اور ادارے میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہاں راستہ بند تھا۔ پھر ایک اور ادارے میں گیا۔ وہاں ترقی کے تمام مواقع صرف ان کے لیے تھے جو پرانے ملازم تھے ایک تیسرے ادارے میں ٹولہ بازی تھی۔ ایک چوتھے ادارے میں خوشامدیوں کے وارے نیارے ہورہے تھے۔ مگر جیسن نے اپنی منزل نظروں سے اوجھل نہ ہونے دی اور آخر اس پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ اِس نے ”بیج نٹ پیکنگ کارپوریشن“ کا صدر بن کر دکھادیا۔ اور اِس کے بعد اِس ادارے کی بنیاد رکھی جو بلومون چیز کمپنی کے نام سے ملک بھر میں معروف ہے۔ یہ کمپنی آج بھی اُس کا خاندان چلا رہا ہے، اور جیسن کا پورا نام جیسن وھٹنے ہے جو ایک لمبے عرصے تک امریکا کی کاروباری شخصیات میں جانے پہنچانے جاتے رہے۔ اور ان کا شمار آج بھی امریکا کے کامیاب ترین افراد میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی فکر اور جستجو کے ذریعے بہت جلد ترقی کی۔ جیسن کی ترقی کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر قاسم علی شاہ یاد آجاتے تھے، کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان نے جدید دور کی حساسیت کو سمجھا ، اپنے آپ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا، اور بغیر کسی مخالف کی پرواہ کیے ترقی کرتا چلا گیا۔ گزشتہ دنوں میری اُن سے تفصیلی ملاقات ہوئی، ملاقات کیا تھی، ایک بے ضرر سی نشست تھی۔ ویسے تو میںکسی بھی”ملاقات“ کے حوالے سے کالم لکھنے کے حق میں نہیں رہتا لیکن جس ملاقات میں کا احوال بیان کرتے ہوئے دوسروں کو فائدہ پہنچے تو اُسے ضرور قلمبند کر دینا چاہیے، ورنہ ”سنیاسی“ کی طرح اپنے تجربات قبر میں لے جانے کا کیا فائدہ؟ خیر ملاقات قاسم علی شاہ فاﺅنڈیشن میں ہوئی جو انہوں نے 2017ءمیں قائم کیا تھا۔ اس ملاقات کا مختصر احوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا جس میں کچھ سیکھنے کو نہ ملے عاجزی اور انکساری ان کے چہرے سے نور بن کے چھلکتی ہے۔آپ اُن سے لاکھ اختلاف کر لیں مگر ملاقات کے بعد یقینا آپ کا اُن کے بارے میں تاثر مثبت ہو جائے گا۔ کیوں کہ وہ ایک تو مثبت انسان ہیں، جن سے منفیت کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی، اور دوسرا وہ ”تربیت“ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، اور جو شخص ”تربیت“ سے جڑ جاتا ہے وہ میرے نزدیک کامیاب انسان ہے، اور قوم کو صحیح راستہ دکھانے والا ہی درحقیقت معاشرے کا صحیح معنوں میں ہیرو ٹھہرتا ہے، کیوں کہ میرے نزدیک کامیاب انسان وہ ہے جودوسروں کوکامیاب بنانے کیلئے انہیں تعلیم وتربیت دے۔شاہ صاحب کا زیادہ تروقت تعلیم و تربیت دینے والوں کی ”تربیت“کرنے میں گزرتا ہے، اسی لیے شاہ صاحب نے ہزاروں ہم وطنوں کی کایا پلٹ دی ہے۔ ملاقات میں میں نے پوچھا، شاہ صاحب ، کتنی نامناسب بات ہے کہ لوگ آپ جیسے قوم کے خیرخواہوں کی غلطیاں بھی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ، اور وقت آنے پر وہ اپنا حسد اور بغض بھی نکال لیتے ہیں، حالانکہ آپ Positivityکا پرچار کرتے ہیں تب بھی موقع ملنے پر لوگ آپ سے نفرت کا اظہار بھی کر جاتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ جب انسان نے آگے بڑھنا ہوتو پھر راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ خود درست سمت میں ہوں،یا کم از کم خود کلیئر ہوں، کیوں کہ اگر آپ خود کسی بات پر کلیئر نہیں ہوں گے تو لوگ آپ سے دور ہوتے جائیں گے، جیسا کہ ”اچھی بیوی“ بننے کے حوالے سے میرا ایک ویڈیو کلپ بہت زیادہ وائرل ہوگیا، جس پر قومی و بین الاقوامی میڈیا پر خوب لے دے ہوئی۔ لیکن میں نے اسے بھی پازیٹو لیا اور تنقید کرنے والوں کو ، جن میں برطانوی میڈیا بھی شامل تھا کو خصوصی طور پر ”شکریہ“ کے خطوط لکھے۔ اس کے بعد میرے لئے ضروری تھا کہ اس حوالے سے سوچنا بھی منقطع کر دوں کہ کسی شخص کی ترقی کے پیچھے کیا راز ہو سکتا ہے، یعنی آپ ہمیشہ ”مثبت“ رہیں۔ مثبت سوچیں، آپ کی زندگی خود بخود صحیح راستے پر چل پڑے گی۔ پھر راستے سے نہ بھٹکنے کے لیے ضرور ی ہے کہ آپ کو کسی آئیڈیل شخصیت یا جس سے آپ متاثر ہیں اُس کا ساتھ رہنا چاہیے ورنہ لوگ منزل پر پہنچ کر بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے 1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ ان تمام تر خوشیوں اور شادمانیوں کے باوجود ان کے من میں ایک کمی تھی۔دل میں ایک خلش تھی۔ذہن میں ایک کسک تھی۔ وہ کسی ایسی شخصیت سے ملنا چاہتے تھے جو ان کی ذات کے نہاں خانوں میں دبی عشق کی چنگاری کو بس ایک نگاہ سے شعلہ بنا دے۔ بقول اقبال خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں اور پھر ان کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی جس کا نام شمس تبریز تھا۔ اس درویش نے رومی کی پرسکون زندگی میں ایک ہلچل‘ ایک اضطراب اور ایک طوفان برپا کر دیا۔ رومی کی زندگی کے پرسکون تالاب میں شمس نے ایک ایسا کنکر پھینکا جس کی لہریں وقت کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیل گئیں۔ رومی اس درویش سے اتنا متاثر ہوئے کہ وہ اسے اپنے گھر لے آئے اور شب و روز اس کی قربت اور صحبت میں گزارنے لگے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ علمی و روحانی مکالمے میں اتنے محو رہتے کہ انہیں نہ کھانے کی فکر ہوتی نہ سونے کی۔ رومی نے جب اپنے خاندان اور اپنے شاگردوں کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو وہ شمس سے پہلے رشک پھر حسد کرنے لگے۔شمس کو جب اس حسد کا اندازہ ہوا تو وہ ایک دن پراسرار طریقے سے غائب ہو گئے۔ پہلے تو رومی کی بیوی بچے اور شاگرد بہت خوش ہوئے کہ ان کا رقیب چلا گیا ہے لیکن جب انہوں نے رومی کو داغ مفارقت کی وجہ سے بہت دکھی دیکھا تو انہیں شدت سے احسا س ہوا کہ اُن کی زندگی منزل پر پہنچ کر بھی ڈگمگا رہی ہے۔ لہٰذاآپ کی زندگی میں بھی ایک شخصیت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو زندگی میں آپ کو صحیح اور درست سمت دکھائے ، یہ شاہ صاحب کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے یا کسی اور شخصیت کی صورت میں بھی ورنہ آپ بے منزل کے مسافر بن کر رہ جاتے ہیں، آپ جیسن وھٹنے کو ہی دیکھ لیں کہ اُسے اتنی شاندار کامیابی کیوں حاصل ہوئی ؟ اس کے ساتھ کے ہزاروں نوجوان ایسی کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکےِ اِن سوالات کے جوابات میں کہا جاسکتا ہے کہ اس نے محنت کی۔ چلئے مان لیا کہ اس نے محنت کی جان توڑ محنت کی۔ مگر محنت کون نہیں کرتا۔؟ ہر شخص محنت مشقت اور جدوجہد کرتا ہے۔ شاید یہ کہا جائے کہ اس نے جس کام میں ہاتھ ڈالا اس کی ماہیت کو پوری توجہ سے ذہن نشین کیا۔ ہمیں یہ دلیل تسلیم ہے مگر یہ بھی کوئی مسکت دلیل نہیں۔ ہزاروں انسان ایسا ہی کرتے ہیں پھر بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ صحیح ترین جواب یہ ہے کہ وھٹنے نے اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کرلیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اس کی منزل کہاں ہے وہ لوگ جو مقصد کی روشنی میں کام کرتے ہیں ترقی کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب وھٹنے اوورٹائم کام کررہا تھا۔ جب وہ ایک جگہ سے ترقی کرکے دوسری جگہ پہنچ رہاتھا۔ جب وہ کاروبار کے گ±ر جاننے کے لیے اپنے دماغ پر زور ڈالتا تھا۔ اس دوران میں وہ تمام وقت اپنی منزل کی سیدھ باندھ کر دوڑ ، دوڑ رہا تھا۔کسی انسان کے لیے زندگی کا مقصد نہ ہونا۔ ناکامی اور نامرادی کے گڑھے میں گِرنا ہے۔ اِس کی زندگی کا کوئی محورنہیں ہوتا۔ اِس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں کچھ کرنے یا کچھ بن کر دکھانے کی تڑپ بھی نہیں ہوتی۔ وہ انسان جو بیکاری کے بھنور میں پڑے ہوئے ہاتھ پاﺅں ماررہے ہیں۔ یا جو اپنے موجودہ حالات سے نالاں ہیں مقصد نہ ہونے کی بیماری کے شکار ہیں کیوں کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، میرامشورہ ہے کہ وہ شاہ صاحب کی تصانیف اور اُن کے لیکچر سے ضرور استفادہ کر یں!