عائشہ اکرم کیس: کہیں تو ہم بھی غلط ہیں!

2 اگست کو دو سے ڈھائی سال کی محنت کے بعد ”سنگل نیشنل کریکولم“ کا صوبہ پنجاب سے آغاز کیا گیا، یہ خبر سُن کر عام قاری اور تحریک انصاف کا ہر کارکن متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، لیکن ہمارے ہاں سنجیدہ طبقہ اس سوچ میں گُم ہوگیا کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے! خیر یہ الگ بحث ہے لیکن جس منصوبے کو حکومت نے شروع کیا اگر اُس حوالے سے بات کی جائے تو یہ ابتدائی طور پر پہلی سے پانچویں کلاس کے لیے ہوگااور اس کا آغاز صوبہ پنجاب سے ہوا ہے بعد میں بتدریج ساری کلاسز اور اس کا دائرہ کار پورے ملک میں بڑھایا جائے گا۔ یعنی اب پورے ملک میں ایک ہی یکساں نصاب پڑھایا جائے گا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس میں بھی اسی نصاب کو پڑھایا جائے گا۔ اب سرکاری، پرائیویٹ اور مدارس کا فرق ختم ہو جائے گا۔سرکار کے بقول پہلے سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کو کمزور اور پرائیویٹ اداروں کے نصاب کو معیاری سمجھا جاتا تھا، اب جب سب اداروں میں ایک ہی نصاب ہو گا تو یہ فرق ختم ہو جائے گا اور یکسانیت پیدا ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر تو یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد اگلے چند سالوں میں بھی ہو جائے تو یہ ایک عجوبہ ہوگا۔ کیوں کہ جس نصاب کو سرکاری سکولوں میں پڑھانے کی بات ہو رہی ہے، وہاں کے اساتذہ کی تربیت اُن سے ابھی تک کوسوں دور ہے۔ اور جس ”ہلکے“ نصاب کو انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھانے کے بات کی جارہی ہے وہاں کے بچے دو دو تین تین کلاسیں پہلے ہی وہ نصاب پڑھ کر آچکے ہیںاس لیے اُن کا کیا قصور؟اور پھر کیا حکومت اس بار ے میں توجہ دے رہی ہے کہ اس وقت وطن عزیز کے ڈھائی کروڑ بچے جو سکول جانے سے قاصر ہیںیا کیا کبھی اس طرف دھیان گیا کہ جو سرکاری سکول موجود ہیں اُن میں بنیادی سہولتیں موجود ہیں؟ یعنی ٹوائلٹ تک کی سہولت تومیسر نہیں، پھر یکساں نصاب تعلیم کہاں سے آگیا؟ اور رہی یکساں تعلیمی نصاب کی بات توفی الوقت ہمیں یہ ہی معلوم نہیں کہ ہم پڑھا کیا رہے ہیں، یا جو پڑھایا جا رہا ہے اُس سے ایک اچھی قوم تشکیل دی جا رہی ہے یا نہیں؟ یعنی نصاب تو ایک بنا لیا، مگر نصاب کیا ہونا چاہیے یہ کسی کو علم نہیں ہے، کبھی کسی نے چیک نہیں کیا کہ ہمارے اور تہذیب یافتہ قوموں کے نصاب میں کیافرق ہے؟ کیا ہم ایسا نصاب تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں جو معاشرے کو اخلاقیات کے پہلو بھی سمجھا یا سکھا سکے۔ مثلاََ یوم آزادی 14 اگست کو مینارِ پاکستان پر ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ جو شرمناک واقعہ پیش آیا تھا اس پر طرح طرح کی رنگ برنگی بحثیں جاری ہیں۔ کوئی اس واقعے کی آڑ میں اپنی اقدار کو کوس رہا ہے، کوئی بقراط خواتین کے گھروں تک مقید ہونے کو اس کا سبب بتا رہا ہے، کوئی ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل ”دیوارِ چین“ کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے اور کوئی جنسی بھوک میں اس ہولناک جرم کے نفسیاتی عوارض کا تجزیہ کر رہا ہے۔ یقینا حادثہ یا سانحہ دفعتاً نہیں ہوتا۔تاہم یوم آزادی کو جو کچھ ہوا، وہ انتہائی شرمناک، افسوسناک اور ناقابل یقین ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔مظلوم عائشہ اکرم نے اس سانحہ کے بارے میں وڈیو پر جو کچھ کہا اسے سننے کا یارا تھا اور نہ اسے دہرانے کا حوصلہ۔ ذرا سوچئے کہ یہ واقعہ کسی گاﺅں یا قصبے کے کسی سنسان گلی کوچے میں نہیں، زندہ دلانِ لاہور کے شہر میں واقع مینارِ پاکستان پر دن کے پانچ بجے یوم آزادی کے روز ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں پیش آیا۔ پھر اسی روز موٹر سائیکل رکشے میں خاتون سے کھلے عام دست درازی کی ویڈیو نے دیکھنے والوں کو رُلا دیا۔ اس ویڈیو کے مطابق لاہور کے رش والے علاقے میں رکشے میں موجود دو خواتین اور ایک بچی پر پہلے موٹر سائیکل سوار اوباش نوجوان آوازےں کستے رہے اور پھر ایک بے حیا دوڑ کر رکشے کی پچھلی سیٹ کے پائیدان پر چڑھ گیا اور اس نے دست درازی کی کوشش کی۔ اس پر دونوں خواتین نے جوتے اتار لیے۔ اور پھر یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہو جاتے ہیں یا جن کا میڈیا پر واویلا مچ جاتا ہے، اور پھر جن واقعات کا شور نہیں مچتا، یا جن واقعات کے بارے میں سوشل میڈیا سرگرم نہیں ہوتا اُن کا کیا؟ کیا ہمارے کرتا دھرتاﺅں نے غور کیا کہ ہم بے حسی کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟ ہمارا نصاب ہمیں اچھی پراڈکٹ بنا کر نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں تو المیہ ہے کہ موٹروے پر خاتون کا اُس کے بچوں کے سامنے ریپ ہو جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس سوچ سے ہی نہیں نکلتا کہ مذکورہ خاتون کیسی تھی؟ پیاری تھی یا بس ٹھیک تھی! خدا کا خوف طاری ہو ہم سب پر ، اور ایسی باتیں کرنے والوں پر۔ اگر آپ کے اندر ذرا سی بھی انسانیت ہے یا مینارِ پاکستان کی حرمت کا خیال ہے تو آپ کا دل چیخیں مار مار کر رونے کو جی چاہے گا اوراُس سے بھی زیادہ جہلا کی ایک بڑی تعداد جس طرح اس مظلوم خاتون کو اس ساری بےہودگی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے، وہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ خودبھی ذہنی طور پر کرپٹ ہیں۔ اُن کی سوچ کے مطابق تو بقول شخصے بہت سے مقامات عورتوں کے لئے غیرمحفوظ ہیں، مثلاً مینارِ پاکستان، موٹر وے، سیاسی جلسے، دفتر، مرد رشتہ دار یا دوست، مدرسہ، اسکول، کالج، سبزی منڈی اور مارکیٹ، بس، قبر، گھر۔ پاکستانی عورتوں کو اِن مقامات پر جانے سے گریز کرنا چاہئے خصوصاً مرنے کے بعد بھی ان کی قبر کو تالا لگانا ضروری ہے، قبر سے عورتوں کی میت نکال کر بھی ان کی بےحرمتی کے واقعات موجود ہیں!الغرض ہم تو مردوں کا گوشت کھانے اور مردہ لاش کے ساتھ زیادتی کرنے سے بھی نہیں گھبراتے ۔ کیوں کہ ہمارے اندرحیوانیت کا عنصر آچکا ہے! یہ ہمارے نصاب کے ذریعے آیا یا سیاستدانوں کی ملی بھگت سے آیا جنہوں نے یہاں تعلیم کو عام نہیں ہونے دیا۔ جنہوں نے تعلیم جیسے شعبے میں بھی ”ملاوٹ“ ڈال دی اور ایسے ایسے لوگوں کو تعلیم کی سربراہی عطا کی کہ جن کا اپنا تعلیم سے دور دور کا تعلق نہیں! بقول شاعر اڑالی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری بہرکیف افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا 70فیصد طبقہ کہہ رہا ہے، کہ لڑکی غلط ہے، یا لڑکی وہاں گئی ہی کیوں؟ کیوں کہ ہمارا معاشرہ تو چاہتا ہے کہ عورت گھر سے نکلے ہی نا! جن ملکوں کو آپ کہتے ہیں کہ وہ بے حیا ملک ہیں، لیکن معذرت کے ساتھ وہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا، وہاں کسی کی جرا¿ت نہیں ہے کہ کوئی کسی لڑکی کو چھیڑ کر دکھائے، یا ان ممالک میں قانون بولتا ہے، اگر آپ نے وہاں کسی لڑکی کو ہراس کیا تو پھر آپ قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتے ۔میں اس وقت امریکا میں موجود ہوں، یہاں بھی اس واقعہ کو لے کر خاصی بحث ہو رہی ہے، یہاں تو ریپ یا بچوں کے ساتھ بدفعلی کے فعل کو اس قدر ناپسند کیا جانے لگا ہے کہ جو شخص اس جرم میں جیل میں جاتا ہے وہ شاید ہی کبھی زندہ بچ کر واپس آیا ہوں، کیوں کہ وہاں جیل میں سب سے پہلے قیدی اُس پر تھوک پھینک کر اُس استقبال کرتے اور بعد میں اُس قیدی کو بھی اسی عمل سے گزارا جاتا ہے جس جرم میں وہ جیل میں آتا ہے، جس میں اُس کا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ خیر افسوس تو یہ ہے کہ 60پرامن شہروں کی فہرست میں کہیں آپ کو پہلے 20شہروں میں کوئی اسلامی شہر نہیں ملے گا۔چلیں یہ بات مان لی جائے کہ کہ اُس لڑکی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، اُس لڑکی کو دعوت نہیں دینی چاہیے تھی، اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کن کے درمیان میں جا رہی ہے، اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے، اُسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کن علاقوں میں پھر رہی ہے، یا اُسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے ”بھائی“ اُس کے لیے کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کہیں تو ہم بھی غلط ہیں! کیاہماری تہذیب کسی کو یوں حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتی ہے؟ تہذیب یافتہ ملکوں میں تو لڑکی نیم برہنہ حالت میں پھر رہی ہو تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ حالانکہ پوری دنیا میں ایسے ہوتا ہے کہ ٹک ٹاکر جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے چاہنے والوں کو وہاں مدعو کرتے ہیں، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی کی عزت ہی تار تار کر دی جائے۔ اور جو پاکستان میں کنسرٹ ہوتے ہیں، کیا آپ وہاں ٹکٹیں دے کر لوگوں کو نہیں بلاتے؟ وہاں بھی تو لڑکیوں نے عجیب و غریب لباس نہیں پہن رکھے ہوتے؟ وہاں پر تو ایسا کچھ نہیں ہوتا؟ یعنی اس کا مطلب ہے، کہ جس نے اچھا لباس نہیں پہنا اُس پر حملہ کر دیا جائے؟ الغرض ہماری معصوم قوم یہ جانتی ہی نہیں کہ فرسٹریٹڈ نوجوان اور زائد العمر جوانوں کو تربیت کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب اُن کی تربیت کی جانی تھی وہ اُس وقت یا تو ورکشاپوں میں کام کر رہے تھے یا کسی گلی محلے میں پھر رہے تھے اور وقت ضائع کر رہے تھے۔ تبھی تو آپ عورتوں کو چھوڑیں ہمارے ہاں جانوروں کی ”عفت“ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اِن بھوکے بھیڑیوں کے ہاتھوں بےچاری پاگل عورتیں بھی محفوظ نہیں ہیں، چنانچہ کھلے گندے بالوں اور میلے کچیلے ادھورے کپڑوں میں ملبوس اُن بے زبانوں پر مجرمانہ حملے کرنے والے بھی موجود ہیں، میں نے ابھی گزشتہ روز ایک پاگل عورت کو پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھے دیکھا جو حاملہ ہو چکی تھی! یہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ ا±س کی کئی وجوہ ہیں، ایک تو یہ کہ ہم بچپن میں ”تعلیم و تربیت“ کے الفاظ سنا کرتے تھے اور یہ کہ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی ڈیوٹی ہے مگر اب صرف تعلیم پر زور دیا جاتا ہے، تربیت کی کوئی بات ہی نہیں کرتا،اس لیے یکساں نصاب تعلیم پر زور دینے والے یہ ضرور بتا دیں کہ نصاب ہے کہاں اور نصاب کے بنانے والے یہ بتا دیں کہ تربیت ہے کہاں؟ اگر یہ سب کچھ کوئی نہیں بتا سکتا تو خدارا تعلیم کو سیاست کی نذر نہ کریں ورنہ خاکم بدہن اس سے بھی بدتر حالات ہو سکتے ہیں! #Minar e Pakistan #ayesha akram #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan