نجکاری کے عمل میں شفافیت ضروری، ورنہ مزید دلدل تیار!

لیں جی! نگران حکومتیں اب نجکاری بھی کریں گی اور اس سلسلے میں نگران وزیر اعظم کی ہدایات بھی آچکی ہیں کہ خسارے میں چلنے والے اداروں خاص طور پر پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ سالانہ 500ارب روپے سے زائد ہڑپ کرنے والے اداروں کی نجکاری ہونی چاہیے، مگر اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟اس بارے میں ابہام پائے جاتے ہیں، بلکہ قانون یہ کہتا ہے کہ نگران حکومت اس قسم کا کوئی کام نہیں کر سکتی۔ لہٰذااسی پر ”پردہ“ ڈالنے کے لیے نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی فرماتے ہیں کہ ہم نجکاری کا عمل مکمل نہیں کر سکتے لیکن شروع کر کے جائیں گے، نجکاری کی لسٹ میں شامل اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔چلیں یہ بھی درست فیصلہ ہے، اور یقینا اس میں ”بڑوں“ کی مرضی بھی شامل ہوگی، اور ویسے بھی ہمارے ہاں بڑوں کی مرضی کے بغیر کیے گئے فیصلے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔ لیکن اس میں شفافیت ہوگی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ادارے کیوں تباہ ہوئے اور ہمارے سیاستدانوں کے اپنے کاروبار دن رات ترقی کیسے کر گئے؟ یہ بات تو میں بہت مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان سٹیل مل جیسے ادارے کیسے برباد ہوئے، مثلاََ سب سے بڑی وجہ تو ان اداروں میا سیاست سے متعلق ہے، کہ جو بھی آیا اُس نے کرپشن کرنے کے لیے اور اپنے بندے بھرتی کروانے کے لیے اداروں کے سربراہوں کو پروفیشنل انداز میں بھرتی کرنے کے بجائے من پسند افراد بھرتی کیے گئے۔ لیکن ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو وقت کے مطابق ڈھالتے نہیں ہیں، یعنی دنیا ترقی اسی لیے کرتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو جدید انداز میں ڈھالتی ہے، جبکہ ہمارے ادارے سیاست اور ایک دوسرے کو کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے چلیں ہم ”نوکیا“ سے شروع کرتے ہیں۔ 1965 میں فن لینڈ میں قائم ہونے والی اس عظیم الشان موبائل بنانے والی کمپنی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ایک عرصے تک بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صدی تک نوکیا اس دنیا پر حکمرانی کرنے والی شاید پہلی اور آخری کمپنی تھی تو غلط نہ ہوگا۔ 2003 سے لے کر 2005 تک پورے پاکستان کے 70 فیصد موبائل فونز نوکیا کے ہی بنے ہوئے تھے۔ صرف 2008 میں نوکیا کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ 4500 ملین موبائل سیٹس دنیا بھر میں بک گئے۔ 2008 میں ہی صرف امریکا میں 300 ملین نوکیا استعمال کرنے والے لوگ تھے جبکہ امریکا کی 60 فیصد موبائل مارکیٹ بھی نوکیا ہی کے قبضے میں تھی۔ 2009 اور 2010 ایپل ، گوگل اور اینڈرائڈ کا دور شروع ہوچکا تھا لیکن نوکیا ابھی تک اپنے ہارڈوئیر کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ دنیا ” اسمارٹ” ہوتی جارہی تھی۔ لوگ سافٹ وئیر اور پلےاسٹور کی دنیا میں آچکے تھے۔ ساری دنیا کے ڈیولپرز اور انجینئرز خود کو اینڈرائڈ پر لے آئے تھے لیکن نوکیا اپنی ” علیحدہ“ پہچان بنانے کے چکر میں اب اپنی پہچان کھونا شروع ہوچکا تھا۔ ہندوستان اور چین جیسے ممالک میں بھی اب ” ہر مال چائنا“ کی آوازیں لگ رہیں تھیں لیکن اوپر کرسیوں پر بیٹھے نوکیا کے ” دماغ ” خود کو عوام کی نظروں سے دیکھنے سے قاصر تھے۔ نوکیا نے تنگ آکر بالآخر ستمبر 2010 میں اپنے پرانے سی ای او اولی پیکا کو ہٹا کر اسٹیفن ایلوپ کو اپنا نیا سی ای او مقرر کردیا۔ ایلوپ نے بھی اپنی ” پہچان“ برقرار رکھنے کی فکر میں خود کو مزید ایک تجربے سے گزارا اور مائیکرو سوفٹ کے پاس چلے گئے۔ جو ونڈوز آج تک کی تاریخ میں کبھی ” موبائل فرینڈلی“ نہیں تھیں۔ اس کو اپنے ہینڈ سیٹس کی زینت بنا ڈالا اور اس طرح 1965 میں پوری آب و تاب سے طلوع ہونے والا نوکیا کا سورج 2010 میں غروب ہوگیا۔ اب آئیں ایلکواکمپنی کی طرف۔۔ایلکوا ایلومینیم بنانے والی اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی کمپنی ہے۔ 1987 میں کمپنی کی معاشی حالت بری طرح خراب ہونے لگی۔ جگہ جگہ پلانٹس بند ہونے لگے۔ عوام اور ملازمین کا اعتماد آہستہ آہستہ کمپنی پر سے ختم ہوتا جارہا تھا۔ کیونکہ ایلومینیم کا کام بے انتہا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے کسی نہ کسی پلانٹ پر کوئی نہ کوئی مزدور معذور ہوجاتا یا مر جاتا اور پھر زندگی بھر وہ یا اس کے ورثاءبے یار و مددگار پڑے رہتے۔ پال او نیل (کمپنی کے مالک) افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے آئے۔ کمپنی کی پالیسی ، مشن اسٹیٹمنٹ اور اپنے پچھلے کارنامے گنوانے کے بجائے انھوں نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ میرے تین مقاصد ہیں :پہلا یہ کہ میں اس بات کو یقینی بناو¿نگا کہ کمپنی میں ہر شخص کو ہر کسی سے عزت اور محبت ملے۔دوسرا یہ کہ میں ہمیشہ اپنے ملازمین کی حفاظت کو مقدم رکھونگا ، کسی بھی حالت میں کسی قسم کو کوئی سمجھوتا سیفٹی پر نہیں ہوگا۔اور تیسرا یہ کہ ہماری کمپنی میں موجود ہر ملازم کو لازماً یہ معلوم ہوگا کہ وہ یہاں ” کیوں ” یہ کام کر رہا ہے۔اور پھر پال او نیل کے یہ الفاظ عمل میں ڈھل گئے۔ کمپنی کے ہر ملازم کے پاس پال کا نمبر ہوتا تھا۔ کہیں کوئی چھوٹی سی بھی شکایت پال کو موصول ہوتی تو پلانٹ پہلے بند ہوتا اور تفتیش بعد میں شروع ہوتی۔ شروع کے چھ مہینے سخت اذیت میں گذرے لیکن پال نے طے کرلیا تھا کہ کمپنی میں حادثہ کوئی نہیں ہوگا اور کمپنی کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کرے گااور پھر صرف چھ مہینے بعد ایلکوا دنیا کی سب سے بڑی ایلومینیم کمپنی بن گئی۔ 2000 میں جب پال اونیل کمپنی سے رخصت ہوا تو اسکا شمار دنیا کے کامیاب ترین سی ای اوز میں ہوتا تھا اور آپ کمال ملاحظہ کریں وہ ادھر کمپنی سے فارغ ہوا اور ادھر جارج بش نے اس کو اپنا وزیر خزانہ بنا لیا۔ یہ دو کمپنیوں کے دو آدمیوں کی دو کہانیاں نہیں ہیں۔ بلکہ اداروں کو اوپر لے جانے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے ہم فی الوقت عاری نظر آتے ہیں۔ ہمارے عروج کے اداروں میں ایسے افراد کو بطور سربراہ تعینات کیا جاتا رہا جنہوں نے ملکی مفاد کی بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی مافیا کے اشاروں پر ایسی پالیسیاں متعارف کروائیں کہ قومی فخر کے یہ ادارے ملک کے لیے سفید ہاتھی بنتے گئے اور قومی دولت کا ایک بڑا حصہ ان اداروں کو زندہ رکھنے کے لیے خرچ کیا جاتا رہا۔ مافیا اور سیاستدانوں کی تجاویز کے مطابق ہر حکومت خواہ وہ سیاسی ہو یا آمرانہ، کی یہ کوشش رہی ہے کہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اس کے لیے مرحلہ وار تیاری کی گئی ، پہلے ڈاﺅن سائزنگ کے نام پر ملازمین کو برطرف کیا گیا اور جب اس سے بھی کام نہ چلا تو بچی کھچی کسر رائٹ سائزنگ کے ذریعے پوری کی گئی۔ لیکن معاملہ لٹکتا رہا، بلکہ کئی بار تو اربوں روپے ہم نے انہی چکروں میں ضائع کر دیے۔ اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افسران ریٹائرڈ ہونے کے بعد رشوت دے کر یا اقربا پروری کی بنیاد پر وہ پوسٹ حاصل کر لیتے ہیں جس کے وہ حقدار نہیں ہوتے۔ اور اس کار خیر میں بیوروکریٹ، جج، جرنیل سبھی شامل ہوتے ہیں۔ جنہیں متعلقہ ادارہ چلانے کا تجربہ تو نہیں ہوتا، مگر مال بنانے کا تجربہ ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذااگر اس حوالے سے پابندی لگا دی جائے تو یہ سب سے بہتر ہوگا کہ کوئی جج، جرنیل یا بیوروکریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ادارے کا سربراہ نہیں لگ سکتا۔ لہٰذاایسا کرنے سے پاکستان کا بہت زیادہ بھلا ہو سکتا ہے۔ بہرکیف قومی اداروں کو نفع بخش بنیادوں پر چلانے کی سب سے بڑی ذمہ داری ارباب اقتدار اور اختیار کی ہے۔ ماضی میں یہی ادارے ملک میں روزگار، ٹیکس اور قومی پیداوار میں اضافے کا اہم حصہ رہے ہیں۔لیکن ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریاستی انتظام میں چلنے والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کو جنوبی ایشیا میں بدترین قرار دیا گیا ہے جہاں مجموعی خسارہ اثاثوں کی مالیت سے بھی زیادہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی وسائل میں نقصان اور اداروں کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی بینک کے مطابق سالانہ بنیاد پر سرکاری کمپنیاں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے عوامی فنڈز سے مجموعی طور پر 458 ارب روپے سے زائد نگل لیتی ہیں اور مالی سال 2021 میں ضمانتیں جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصد تھیں جبکہ 2016 میں 3.1 فیصد تھیں۔ لہٰذاایسی صورتحال میں ان اداروں کی نجکاری بہترین عمل ہے لیکن اس میں شفافیت کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ وطن عزیز پہلے بھی اس قسم کے تجربات سے گزر چکا ہے، اور ہوتا یہ ہے کہ برسر اقتدار ٹولہ اپنے ہی لوگوں کو آگے لاتا ہے، اور اونے پونے ادارے فروخت کرتا ہے، اس کی بڑی مثال امریکا میں موجود روز ویلٹ ہوٹل ہے، جسے کئی مرتبہ اونے پونے فروخت کرنے کی کوشش کی گئی، پھر گزشتہ حکومت کے ایک وزیر نے یہ کہہ کر بات ٹال دی تھی کہ پاکستان سٹیل مل اگر کوئی ایک روپے میں لے کر اُس کو چلانا شروع کردے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ لہٰذااس قسم کی خرافات سے بچنے کے لیے ہمیں نجکاری کے عمل میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس وقت بھی اسلام آباد کے ایک بڑے گھر میں بڑی بڑی میٹنگز کی جارہی ہیں جس کا نتیجہ کچھ نکلے نہ نکلے مگر وہ اس بات پر اصرار ضرور کر رہے ہوں گے کہ ان اداروں کے ساتھ حکومت سے نقدی کتنی لینی ہے۔ یعنی یہ ادارے سرکاری بھی رہیں گے اور نجی بھی اور سرکار پھر بھی تنخواہوں اور پنشنوں کی مد میں بڑی بڑی رقوم ادا کرتی رہے گی۔۔۔ لو کر لو گل!