اعظم نذیر تارڑ : اُس کی سزا ملی جو جرم نہیں کیا!

عاصمہ جہانگیر جیسی باہمت، نڈر اور بے باک خاتون سے کون واقف نہیں، انہوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا، اس کے لیے وہ ادارے سے ہمہ وقت ٹکرانے کے لیے بھی تیار رہتی تھیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ اُن کا ”مقصد زندگی“ ان کی موت کے بعد ”عاصمہ جہانگیر کانفرنس“ کی شکل میں اور بھی زیادہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوں گی۔ یہ کانفرنس ہر سال اُن کے ساتھیوں، بچوں اور دوستوں کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے، اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں انسانی حقوق کے عملدار” آواز حق“ کو بلند کرنے کے لئے اس ساز گار ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلا خوف خوب دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ایسی ایسی آوازوں کو موقعہ ملتا ہے جن کا بوجھ عام حالات میں میڈیا تو کیا سوشل میڈیا بھی اٹھانے سے گھبراتا ہے۔ اور یہ ٹھیک بھی ہے، کیوں کہ کسی ریاست میں کوئی تو ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ان خوفوں، نفرت کے لاوو¿ں، شہریوں کے تحفظات، اپنوں کے شکوو¿ں اور ڈر کے خوف سے چھپے اور دبے ہوئے خیالات کو باہر آنے کا موقعہ ملے وگرنہ یہ بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ حد سے زیادہ خوف کا ماحول بھی ریاست کی کمزوری ہوتی ہے جو کبھی بھی دشمن کے ہاتھ لگ سکتی ہے۔ خیر حالیہ کانفرنس میں بھی شکائتوں اور شکوو¿ں میں تیزی نظر آئی، اس کانفرنس میں جن شخصیات نے خصوصی طور پر شرکت کی اُن میں سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان، خاص طور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو ، صدر سپریم کورٹ بار محمد احسن بھون، منظورپشتین اور دیگر درجنوں قابل ذکر شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ رہی کہ کانفرنس کے بعد تین بڑے واقعات ہوئے پہلا یہ کہ منظور پشتین سمیت 20افراد پر اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی وجہ سے دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا، دوسرا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا اور تیسرا بلاول بھٹو نے کانفرنس میں شرکت اور اُن کی موجودگی میں اداروں کے خلاف ہلڑ بازی کی وجہ سے معافی مانگنا پڑی، حالانکہ اُن پر بھی استعفیٰ دینے کا دباﺅ تھا، لیکن میرے خیال میں ”پہلی“ غلطی کی وجہ سے معافی تلافی پر گزارہ ہو گیا ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پر جب دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ اس حوالے سے Publicalyیا ٹی وی پر آکر معافی مانگیں اور کہیں کہ اُن کا عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے کوئی تعلق نہیں یا مذکورہ گروپ سے بھی کوئی تعلق نہیں تو اُنہوں نے علی الاعلان وزارت کو ٹھکرا نا ہی مناسب سمجھا۔ کیوں کہ اُنہوں نے سمجھا کہ وہ تو وکیل ہیں، اور انہی لوگوں میں واپس جانا ہے تو اس لیے وکلاءکے مفادات کے خلاف نہیں جا سکتے اس کے لیے اُنہوں نے وزارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ شروع ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہم جس بات کا بار بار ذکر کرتے آئے ہیں کہ یہاںمغربی ممالک کی طرح استعفوں کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے انگلینڈ میں ایک ڈیڑھ ماہ میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، سبھی حلقوں نے اس روایت کو مناسب سمجھا کہ بجائے اس چیز کے کہ آپ اقتدار سے چمٹے رہیں اور صفائیاں پیش کرتے رہیں، ایک ادارہ آپ کے مطابق نہیں ہے تو آپ کو فوری طور پر اس سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ لہٰذاتارڑ صاحب نے بھی ایسا ہی کیا مگر مجال ہے کہ پارٹی کے اندر سے یا اپوزیشن کی طرف سے یا میڈیا نے اُن کے اس اقدام کو سراہا ہو۔ بلکہ اس پر پراسرار خاموشی اختیار کر لی۔ اور عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے ”سپیکرز“ جنہوں نے اداروں کے خلاف سٹیج کے پرخچے اُڑا دیے تھے وہ بھی منظر عام سے ایسے غائب ہوئے جیسے کانفرنس کبھی ہوئی ہی نہ تھی۔ اور پھر رہی بات کانفرنس میں نعرے لگنے کی تو نعرے لگنے کے لیے ہی ہوتے ہیں، اور ایسے ہجوم میں نعرے لگنا کون سا غیر معمولی بات ہے جہاں ایک خاص طبقہ موجود ہو۔ آپ بھٹو کی مثال لے لیں، اُن کے جلسے میں اُن کو جوتے دکھا دیے تھے، ہوا کچھ یوں تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بار ناصر باغ لاہور جلسے میں ٹرک پر سوار ہو کر آئے۔ قومی اتحاد کے لوگ ان کے سخت خلاف تھے، کسی نے ان کے قریب جا کر دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جوتے دکھائے، تو مشتعل ہونے کے بجائے بھٹو نے ازراہ مزاح یہ کہا کہ مجھے معلوم ہے جوتے بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ دوسری بار حکومت ملی تو سب سے پہلے جوتے سستے کروں گا۔ یہ ہوتی ہے حاضر دماغی اور تدبر۔پھر بے نظیر کے جلسوں میں بے نظیر کے خلاف نعرے لگتے رہے ہیں، نواز شریف کے جلسوں میں کیا کیا نہیں ہوا؟ کون کون سے نعرے نہیں لگے، بلکہ نوازشریف کی ”ووٹ کو عزت دو“ مہم میں اُن کے اپنے خلاف ہی اس قدر نعرے لگے کہ دنیا حیران رہ گئے۔ یعنی یہ چیزیں تو سیاست کا حصہ ہیں۔ اور ویسے بھی اعظم نذیر تارڑ اتنے بڑے ہجوم کے نعروں کو کیسے روک سکتے ہیں؟اور وہ بھی وکیلوں کے ہجوم کو جس نے 2019ءمیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آگ لگا دی تھی، اور آج تک اُنہیں اس بات پر سزا بھی نہیں ہوئی۔ مطلب یہ وہ وکیل ہیں جو جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں اپنی بیرکوں سے نکلے تھے اور واپس نہ جا سکے۔ لہٰذابجائے اس کے اپنے آپ اپنی تصیح کریں اوراپنے آپ کو سدھاریں، آپ یہ رٹ لگا دیں کہ استعفیٰ دو، استعفیٰ دوتو پیچھے کیا بچے گا؟ میرے خیال میں عوام کو Frustratedنہیں کیا جانا چاہیے۔ اور نہ ہی مقتدر قوتوں کو ایسے واقعات کو اتنا سنجیدہ لینا چاہیے ۔ بلکہ اس حوالے سے تھنک ٹینک بنانا چاہیے کہ جس ملک کے لوگوں کو بچپن میں یہ سکھایا جاتا تھا کہ جب کہیں کوئی فوجی گاڑی گزرے تو آپ نے کھڑے ہو کر سیلوٹ کرنا ہے وہاں اُن کے خلاف اتنی نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ حالانکہ پورا پاکستان اپنی فوج سے پیار کرتا ہے، سب کو علم ہے کہ اتنے دشمنوں کی موجودگی میں فوج کے بغیر یہ ملک ایک لمحہ نہیں چل سکتا، لیکن پھر بھی اگر کہیں سے ایسی آوازیں اُٹھنا شروع ہوگئیں ہیں تو اُس کا سدباب تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ اُنہیں بزور قوت دبانا چاہیے۔ بہرحال شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 30، 35سال سے ہمیں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ برا ہے، اور فلاں سیاستدان ہمارا مستقبل ہے۔ اور پھر اگلی دفعہ ہمارے ذہنوں میں تھوپا جاتا ہے کہ فلاں سیاستدان برا ہے، فلاں ٹھیک ہو چکا ہے، اب فلاں ابن فلاں میں کرپشن کا مسئلہ ٹھیک ہو گیا ہے، لیکن اس کے برعکس فلاں سیاستدان اُتنا ہی غلط ہو چکا ہے وغیرہ۔ مطلب ! پہلے سیاستدانوں کی ”امیج بلڈنگ“ کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، پھر اُس کے بعد اُس کے Bad امیج کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ آپ تاریخ اُٹھا کر خود دیکھ لیں کہ 1988ءمیں کیا ہوا، پھر 1990میں، پھر 1993ءمیں، پھر 1997ءمیں ، پھر 1999ءمیں، پھر 2002ءکے الیکشن میں، پھر 2008، 2013اور پھر 2018ءکے الیکشن میں کسی کی امیج بلڈنگ کی گئی اور کسی پر لعن طعن کروائی گئی۔ اور پھر جس پر لعن طعن کروائی گئی، اگلی بار اُسے مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ تومیرے خیال میں ایسے میں عوام کا اعتماد کہاں سٹینڈ کرے گا؟ اور پھر کیا کوئی جنگ عوام کے اعتماد کے بغیر جیتی جاسکتی ہے؟ جسے عوام کا اعتماد حاصل نہ ہو؟ بالکل بھی نہیں! لہٰذابادی النظر میں اعظم نذیر تارڑ نے اقتدار چھوڑ کر اچھا فیصلہ کیا۔ وہ چوٹی کے وکیل تھے، ہیں اور رہیں گے، وہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے ہیں، وہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی رہے ہیں اس کے علاوہ وہ ٹاپ کیسز میں بطور وکیل اپنی پروفیشنل خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ وہ 2021ءسے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر ہیں، وہ اسحاق ڈار کے آنے سے پہلے تک سینیٹ میں بطور لیڈرآف دی ہاﺅس خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، جبکہ اس کے برعکس میرے خیال میں جب آپ اتنے قد کاٹھ کے وکیل ہوں تو کسی سیاسی پارٹی کا باقاعدہ حصہ بننے میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے، کیوں کہ جب آپ سیاسی پارٹی کا حصہ بنتے ہیں تو آپ کو اپنے قائدین کی وہ باتیں بھی ماننا پڑتی ہیں جو آپ کے کیرئیر کو داغدار کر سکتی ہیں اور آپ کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتی ہے۔ آپ کو عاصمہ جہانگیر ،علی احمد کرد، اے کے بروہی، جیسا وکیل بننا چاہیے تھا جنہیں تاقیامت یاد رکھا جائے گا،بلکہ آپ کو ایس ایم ظفر جیسا وکیل بننا چاہیے تھا جو ایک وسیع المطالعہ شخص تھے۔ اور ان کا بولنے کا اندازدھیما اور ٹھہراﺅ والا ہوتا تھا وہ اشتعال میں نہیں آتے تھے جج صاحبان انہیں اشتعال دلائیں بھی تو وہ بات بدل دیتے یا پھر مسکرا کر ٹال جاتے۔ اُن کے دلائل جج صاحبان اور عدالت میں موجود سبھی سینئر جونیئر وکلاءخاموشی سے سنتے تھے، جنرل ضیاءکے دور کا ایک کیس یاد ہے جس دور میں جنرل ضیا الحق خود ساختہ امیر المومنین بنے ہوئے تھے۔ انہی دنوں ایک پٹیشن دائر ہوئی کہ ہمارا اسلامی نظام ہے اس لیے وزیراعظم یا صدر کے بجائے ”امیر المومنین“ ہونا چاہیے تو ایس ایم ظفر کو عدالت نے خصوصی طور پر عدالتی معاون مقرر کیا جب جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اسلام شورائیت اورجمہوریت کا تصور واضح ہے لیکن اسلامی تاریخ ملوکیت اور شہنشاہی نظام سے بھری پڑی ہے تو کیاا سلامی نظام ناکام ہو گیا؟ ایس ایم ظفر کا تاریخی جواب یہ تھا کہ اسلام ناکام نہیں ہوا۔ مسلمان ناکام ہوئے۔ انہوں نے دستورائیت کی بجائے ملوکیت کو رائج کیا جس کو تمام مسلمان دانشوروں فقہاءاور مورخین نے پسندیدہ قرار نہیں دیا اسے باامر مجبوری قبول کیا ہے لیکن یہ ایک پسندیدہ نظام کبھی نہیں رہا۔ اسلام ایک نظریہ دیتا ہے لیکن اگر لوگ اس نظریے پر عمل نہیں کرتے تو یہ نظریے کی نفی نہیں لوگوں کی بے ہمتی اور کم علمی اور ذہنی غلامی ہے جس نے ملوکیت کو مسلسل برداشت کیا۔ بہرکیف یہاں ہر ایک کو اپنی جنگ آپ لڑنا پڑتی ہے، ہمارے ادارے تو ویسے ہی تنازعات سے بھرے پڑے ہیں، یہاں تو ہر ادارہ کہتا ہے کہ ملک اُس کی وجہ سے چل رہا ہے، تبھی اعظم نذیر تارڑ جیسے قابل لوگ حق سچ کا ساتھ دے کر تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں اور افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ اور کوئی شخصیت بھی اُن کے ساتھ کھڑی نہیں رہتی!