پرویز الٰہی کی خوش آئند رہائی....موسم بدل رہا ہے!

موسم تو واقعی ہی بدل رہا ہے، کہ پرویز الٰہی سرخرو ہو کر رہائی پاچکے ہیں،،، بانی تحریک انصاف کو بھی کئی مقدمات میں ریلیف ملا ہے، اور پھر جب سرکار کو کوئی مقدمہ نہیں ملا تو انہوں نے ٹیریان وائٹ کیس دوبارہ کھلوانے کی کوشش کی۔ مگر بھلا ہو اسلام آباد ہائیکورٹ کا جنہوں نے بانی پی ٹی آئی کیخلاف نااہلی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹیریان کیس میں2ججز کا فیصلہ درست قرار دے دیا،یعنی اس کیس کے حوالے سے فیصلہ 10مئی 2023 کو فیصلہ آچکا تھا، اور اسی فیصلے کو ہی آگے بڑھا کر مزید کیس کو کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی اور پھردرخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا گیا۔ پھر نکاح کے کیس کو دیکھ لیں، جس میں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں! مطلب! اگر بات ایسے کیسز تک آگئی ہے تو میرے خیال میں اغلوں کو صلح کر لینی چاہیے۔ اور صلح اس لیے بھی کر لینی چاہیے کہ اس وقت موسم تو واقعی بدل رہا ہے، آپ سائفر کیس کو دیکھ لیں ، جس میں ضمانت بھی ہوچکی ہے، رہائی کا روبکار بھی جاری ہو چکا ہے، 190ملین پاﺅنڈ کیس میں بھی بانی تحریک انصاف کو گزشتہ ہفتے ضمانت ہوچکی ہے، اور رہا توشہ خانہ کیس تو یہ بات سب کو پتہ ہے کہ اُس کیس میں کتنی جان ہے اور کتنی نہیں۔ خیر یہ وقت تحریک انصاف ، اس کے قائدین اور کارکنوں کے لیے مشکل ضرور ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ مشکل کے بعد ہی آسانیاں آتی ہیں، اور تاریخ ہمیشہ اُن لوگوں کو یاد رکھتی ہیں جنہوں نے قربانیاں دی ہوں۔۔۔ پرویز الٰہی کی بھی اس قربانی کو تاریخ میں یاد رکھ جائے گا کہ اُنہوں نے اس عمر میں متعدد بیماریوں کے باوجود عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اور گزشتہ روز رہائی پانے کے بعد بھی کہا کہ ’اللہ پاک کا بہت شکر ہے کہ مجھے سرخرو کیا۔ اللہ پاک نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں ثابت قدم رہوں۔ میں ان ججوں کا مشکور ہوں جنھوں نے حق اور سچ کا ساتھ دیا اور مجھے رہائی ملی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’میں عمران خان کے ساتھ تھا، ہوں اور انشاءاللہ رہوں گا۔‘اُن کے یہ الفاظ یقینا تحریک انصاف کے کارکنوں کو ایک نئی زندگی دیں گے۔ ویسے یہ تو ایک عالمی سچ ہے کہ جیسے اچھا وقت سدا نہیں رہتا ،،، ویسے ہی برا وقت بھی سدا نہیں رہتا۔ لیکن برے وقت میں جو لوگ مرد بن کر کھڑے رہتے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ آج ٹیپو سلطان ، بھی نہیں ہے میر جعفر بھی نہیں ہے اور میر صادق بھی نہیں ہے، لیکن تاریخ میں کسے اچھے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے،،، ظاہر ہے ٹیپوسلطان کو۔ کیوں؟ وہ اس لیے کہ میر جعفر نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے بنگال پر انگریزوں کی حکومت قائم کرا دی جو پورے برصغیر کو غلامی میں جکڑنے کا سبب بنی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ میر جعفر نے برصغیر کو غلامی کی دلدل میں پھنسانے کا دروازہ کھولا ۔ پھر ہماری تاریخ میں پلاسی کی جنگ بہت اہمیت رکھتی ہے دراصل اسی جنگ میں فتح نے انگریزوں کو ہندوستان پر اپنے پنجے گاڑنے یا پیر جمانے میں کامیابی بخشی۔ جہاں تک میر صادق کا تعلق ہے اس کا جنوبی ہند سے تعلق تھا وہ ٹیپو سلطان کا وزیر تھا۔ اس نے اپنے آقا یعنی ٹیپو سلطان سے غداری کی۔ وہ صرف زمین جائیداد اور دولت کے لیے انگریزوں کا آلہ کار بن گیا تھا اس نے ٹیپو سلطان کے اہم خفیہ راز انگریزوں کو پہنچائے اور میدان جنگ میں فوجوں کو انگریزوں سے نہ لڑنے کی ترغیب دی مگر فوج نے اپنے آقا ٹیپو سلطان سے وفا داری نبھائی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑتے ہوئے ٹیپو سلطان کی طرح جام شہادت نوش کیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے آقا کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آج کس کی اہمیت زیادہ ہے؟میر صادق ٹیپو سلطان کی شہادت کے تین دن بعد مرگیا تھا، میر جعفر سراج الدولہ کی شہادت کے 15سال بعد مرگیا تھا، اُس نے 15سال تو زندہ رہ لیا، مگر اس دوران کس قدر لعنت طعن ہوئی یہ باتیں تاریخ میں نمایاں ہیں۔ جبکہ آج بھی اُس کی حویلی میں بھوتوں کا بسیرہ ہے، آج اُس کی حویلی پر لوگ جتنا تھو تھو کرتے ہیں شاید ہی دنیا میں کسی کی قبر پر اس قدر لعن طعن ہوتی ہے۔ بلکہ اگر انٹرنیشنل رینکنگ ایجنسیاں اس جانب توجہ دیں تو یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ بن سکتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ لعنتیں ان دونوں کے حصے میں ہی آئی ہیں۔ بہرحال ٹیپوسلطان ہو، بھگت سنگھ ہو، میجر عزیز بھٹی، قائداعظم ہوں، عبدالستار ایدھی ہوں یا دیگر قومی ہیروز ان سب کو قوم نہیں بھولتی!مجھے یاد آیا کہ ہم آج تک راشد منہاس کو بھولے؟ نہیں ناں! لیکن اُس کے ساتھ غدار انسٹرکٹر کو آج کو ن جانتا ہے؟یعنی 20 اگست 1971ءکو راشد کی تیسری تنہا پرواز تھی۔ وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا اور طیارے کا رخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انھیں ہدایت کی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغوا ہونے سے بچایا جائے۔ اگلے پانچ منٹ راشد اور غدار انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کے کنٹرول کے حصول کی کشمکش میں گذرے مطیع الرحمان نے راشد منہاس سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن راشد منہاس نے اس کو ناکام بنا دیا۔ مطیع الرحمان کی تجربہ کاری کی بنا پر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ پر لینڈ کرانا ممکن نہیں تو انھوں نے آخری حربے کے طور پر جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا اور طیارہ زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ ایک نے قابل رشک موت یعنی شہادت کا درجہ پایا اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا۔ جبکہ دوسرا غدار کہلایا۔ جسے دنیا نے یکسر بھلا دیا۔ پھر حضرت امام حسین ؓ آج بھی سب کے لیے آئیڈیل راہ نما ہیں جبکہ یزید آج بھی گالی کھاتا ہے، بھٹو آج بھی زندہ ہے، اُس دور کا ڈکٹیٹر آج بھی گالی کھاتا ہے۔ بلکہ اُس دور کے ڈکٹیٹر کے متوالے آج بھی یہی کہتے ہیں کہ افسوس صد افسوس کہ انہوں نے بھٹو کی مخالفت کی۔ قصہ مختصرکہ دنیا وفاداروں کی ہمیشہ عزت کرتی ہے، اور کرتی رہے گی۔ میں پھر چوہدری پرویز الٰہی کو سلام پیش کر تا ہوں جنہوں نے بُرے وقت میں اپنی قیادت کا ساتھ دیا۔ وہ اتنی بیماریوں میں، اتنی سختیوں کے بعد بھی ایک عرصہ تک جیل میں رہے ، حالانکہ اس دوران اُن کے ساتھ بیشتر زیادتیاں کی گئیں، اُن کے خاندان کو، گھر کو ، کارکنوں کو نقصان پہنچایا گیا، جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ بالکل اسی طرح قوم کو یاسمین راشد ہمیشہ یاد رہے گی، قوم کو اعجاز چوہدری ہمیشہ یاد رہیں گے، ،قوم محمود الرشید کو یاد رکھے گی، قوم صنم جاوید کو یاد رکھے گی، تاریخ میں علی محمد خان، اعظم سواتی، شعیب شاہین جیسے لوگوں کو یاد رکھا جائے گا۔ قوم کو کبھی بھاگنے والے اور ساتھ چھوڑ جانے والے یاد نہیں رہیں گے۔ قوم کو پرویز خٹک کا نام بھی یاد نہیں ہوگا، قوم کو فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان جیسے لوگ یاد نہیں ہوں گے،،، ان کو یاد کرنا تو دور کی بات پھر ان کا قوم حشر یہ کرتی ہے کہ 8فروری جیسے جنرل الیکشن میں انہیں ایسا سبق سکھاتی ہے کہ پھر یہ سیاست ہی چھوڑ جاتے ہیں،،، آپ جہانگیر ترین کو دیکھ لیں،،، انہوں نے شکست کے بعد سیاست ہی سے منہ موڑ لیا ہے۔ الغرض لوگ اب بہلانے والی باتوں سے باہر نکل آئے ہیں،،، لوگ اب کسی کے بہکاوے میں نہیں آتے،،، نہ کسی کی باتوں میں آتے ہیں،،، بہرحال آپ اندازہ لگا لیں کہ ان جھوٹے لوگوں سے عوام اس قدر نفرت کر رہی ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آپ سوشل میڈیا کھول لیں، تمام لوگ ایکسپوز ہو رہے ہوں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے ہمیں نقصان بھی بہت پہنچایا ہے، لیکن اُس کی یہ خوبی کبھی نہ بھولیں کہ یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس نے ہمیں شعور دیا ہے، سوشل میڈیا ہی ہے جس نے طاغوتی قوتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہی ہے، جس سے لوگ خوف کھاتے ہیں ،، اور یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، کہ جہاں جہاں ظلم ہے،،، وہیں سوشل میڈیا مظلوموں کی آواز بھی بنا ہوا ہے۔ بہرکیف پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے قومی لیڈر بن کر اُبھرے ہیں، اُن کی رہائی سے یقینا سب کو مثبت پیغام ملا ہے۔ وہ تمام صحافیوں کے محسن بھی ہیں اور خیر خواہ بھی۔ وہ پہلے وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے صحافی برادری کے بارے میںبھی سوچا ، جنہوں نے پنجاب کے صحافیوں کو چھت فراہم کی، حالانکہ کبھی تیس تیس سال حکومت کرنے والوں اور کئی دہائیاں حکومت کرنے والے ڈکٹیٹرز کو بھی صحافی یاد نہیں آئے تھے، لیکن پرویز الٰہی نے ناصرف صحافیوں کے لیے کچھ کیا، بلکہ عام عوام کے لیے ایمرجنسی سروس فراہم کیں،،، روڈ ز پر پولیس چوکیاں قائم کرنے سمیت سینکڑوں ایسے کام کیے جو آج بھی سب کو یاد ہیں۔ لہٰذاموسم تو واقعی بدل رہا ہے،،، کیوں کہ جن کو لایا گیا ہے وہ گندم سکینڈل اور ٹھیکہ سکینڈل میں آج بھی اُتنی ہی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں جتنی ماضی میں لگایا کرتے تھے۔ اس لیے لگتا ہے کہ اغلوں نے انہیں سائیڈ لائن کرنے کا ایک بار پھر فیصلہ کر لیا ہے!