کیا اس معاشرے کا ”استاد“ انسان نہیں؟

”استاد“ علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاءمیں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جو معاشرے استاد کی اہمیت کو جان چکے ہیں وہ اُسے عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ فکر معاشیات سے بھی آزاد کر چکے ہیں،جبکہ ہمارے جیسے معاشرے اُن کے لیے ایسی ایسی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں کہ اساتذہ اپنی اصل ذمہ داریاں چھوڑ کر فکر معاش اور عزت بچاﺅ مہم پر لگ چکے ہیں، الغرض ہمارے معاشرے میں بھی اُساتذہ کرام انتہائی پرلے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ بھلا وہ کیسے؟ آپ اس کی ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ ہر سال عید الاضحی پر قربانی کرنا ہمارے معاشرے کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے، ہر کوئی اس میں جیسے تیسے کرکے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، تبھی ہمارا شمار سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر کیا جاتا ہے۔پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق ہرسال کی طرح اس سال بھی وطن عزیز میں ایک کروڑ جانور قربان کیے گئے، صرف لاہور میں 14لاکھ جانور قربان کیے گئے، قربانی کرنے والے افراد میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے مگر ایک سروے کے مطابق سب سے کم جانوراساتذہ کرام نے قربان کیے۔ ظاہر ہے وجہ مالی معاملات کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک 25تیس ہزار روپے تنخواہ لینے والا اُستاد کیسے قربانی کر سکتا ہے؟ میری نظر سے جب یہ خبر گزری تو یقین مانیں کہ دل افسردہ سا ہوگیا کہ اس ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ ججز یا بیوروکریٹس کی ہے، اورجو طبقہ ججز کو بناتا ہے وہ یا تو کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے یا بھوک سے مر رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ویسے تو ہمارے اُساتذہ کی کل تعداد 50لاکھ کے قریب ہے، جن میں سے 27لاکھ سرکاری اور 23لاکھ پرائیویٹ اساتذہ ہیں۔لیکن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 96فیصد اساتذہ بنیادی ضروریات سے محروم سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کا دنیا بھر کے اساتذہ کو دی جانے والی مراعات سے مقابلہ کریں تو حیرت کی بات ہے کہ ہم کسی رینکنگ میں ہی نہیں آتے۔ کیوں کہ ہم ایک اُستاد کو 3200ڈالر سالانہ اوسطاََ تنخواہ دے رہے ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں 1لاکھ دس ہزارڈالر سالانہ، کینیڈا میں 80ہزارڈالر، جرمنی70ہزار ڈالر، ہالینڈ 65ہزار ڈالر، آسٹریلیا 67ہزار ڈالر، امریکا 63ہزار ڈالر اور ڈنمارک، آسٹریا ، آئرلینڈ وغیرہ 60ہزار ڈالر سالانہ تنخواہیں دے رہے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں ایک اُستاد کی اوسطاََ ماہانہ تنخواہ اگر 40ہزار روپے بنتی ہے تو مذکورہ بالا ممالک میں اوسطاََ ماہانہ تنخواہ 7سے 9لاکھ روپے بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اساتذہ پر اتنا کیوں خرچ کرتی ہیں؟ ظاہر ہے وہ جانتی ہیں کہ ٹیچر ہی وہ شخصیت ہے جو قوم کو ڈلیور کرتا ہے، باقی شعبہ جات تو قوم کے لیے سروسز فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہ ٹیچر کو دوسرے طبقات سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ وہ سائنسدان پیدا کر سکیںاور تحقیق میں اپنے طلبہ کی مدد کر سکیں۔ جبکہ ہم اساتذہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے بھی دنیا بھر کی کسی رینکنگ میں نہیں آتے۔ حالانکہ ہمارا اسلام اس بات کا بار بار درس دیتا ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ لیکن ہماری تعلیمات پر مغرب عمل پیرا ہو کر کہاں سے کہاں نکل گیا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد صاحب مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا۔اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادانہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتہ چلا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراماََ کھڑے ہو گئے اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا “A Teacher in the Courtیعنی ایک اُستاد عدالت میں.... یہ کہتے ہوئے جج نے ان کا چالان معاف کردیا۔ لیکن یہاں کا بھی ایک واقعہ سُن لیں کہ کس طرح ہمارے اُساتذہ کی” عزت و تکریم “کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوٹ مومن کے ڈگری کالج میں انٹر کے امتحانی سینٹر کا دورہ کرنے اسسٹنٹ کمشنر گئیں، کالج کا دورہ کرنے کے بعد پرنسپل آفس میں داخل ہوئیں اور پرنسپل کی کرسی پہ براجمان ہوکرحاضری رجسٹر لانے کا کہا، کالج کے پرنسپل صاحب کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ ایک طرف ٹھہر گئیں جبکہ کمشنر صاحبہ اپنی افسری کے زعم میں پاو¿ں ہلا کر منتظر با رجسٹر ہیں، حکومت کا یہ مزہ اس کے نزدیک شاہانہ تھا با وقار تھا، وہ گردن گھما گھما کر انجانے چہروں کو دیکھ رہی تھی، جس میں اُستاد تھے۔چپڑاسی تھے۔کالج کے چند گھومتے گھامتے بچے تھے۔اسی سٹاف میں ایک پروفیسر اظہر شاہ صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے وہ کرسی اور اُستاد کی عزت و تکریم و اہمیت سے آگاہ بھی تھے اورایک پرنسپل کے منصب سے آگاہ بھی تھے۔۔کمشنر صاحبہ ایک مہمان تھیں اُنہیں کُرسی پر بیٹھنے کی اجازت بھی پرنسپل صاحبہ سے لینا چاہئے تھی۔لیکن پروفیسر اظہر صاحب کے اُستاد کی اہمیت شناسی نے انہیں زبان کھولنے پر مجبور کردیا۔ بولے ”آپ کو جو ریکارڈ اور معلومات چاہئیں، دینے کو تیار ہوں لیکن یہ کرسی پرنسپل صاحبہ کی ہے اس پر نہ بیٹھیے۔ یہ کرسی آپ کی نہیں ،دوسری کرسی پر بیٹھئے۔“اسسٹنٹ کمشنر اس بات پر سیخ پا ہوگئیں اور پولیس بلا کر پروفیسر اظہر صاحب کو حوالات کی سیر کروا دی۔ پھر کچھ عرصہ قبل اُساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے والے واقعہ سے بھی بچہ بچہ آگاہ ہے، کہ کس طرح اس معاشرے میں زرداری وگیلانی و شریفین و وڈیرہ شاہی کو عزت کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ اُساتذہ جو کہ ہمارے رول ماڈل ہیں، اُنہیں ہمارا معاشرہ کیا عزت دے رہا ہے۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوتی چند ماہ قبل ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اُساتذہ جو 11دن سے سخت سردی میں بیٹھے تھے پر شیلنگ وغیرہ کی گئی، یہ اُساتذہ بھلا کون تھے؟ یہ وہ اساتذہ تھے جنہیں حکومت 8ہزار روپے ماہانہ دے رہی تھی، اور گزشتہ 7ماہ سے وہ بھی بند کر دی گئی تھی۔ یعنی یہ اساتذہ شام کی شفٹ میں بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تحت بچوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جسے حکومت نے بغیر بتائے بند کر دیا اور محض 8دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہوں پر رکھے گئے اُساتذہ پر بھی قدغن لگا دی گئی۔ پھر آپ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کو دیکھ لیں 90فیصد سکولوں میں اساتذہ ماہانہ 5ہزار سے 15ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں، یہاں یہ بات حکومتیں ضرور بتائیں کہ ایک استاد آخر کیسے 10,000 روپے یا 20، یا 40ہزار روپے میں گزارہ کرے اور اپنے خاندان کی دال روٹی کا بندوبست کرے؟ آپ آج کے دور میں 50ہزار روپے ماہانہ سے گھر کا کچن چلا کر دکھا دیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کا کچن اتنے کم پیسوں سے چل سکے۔ بقول شاعر ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو بہرکیف ایک انگریزی مقولہ ہے: A Teacher is a Beacon that lights the path of a Child (استاد وہ مینارہ نور ہے جوبچے کی راہ کو “علم و ہدایت سے” منور کر دیتا ہے)، پھر حضرت علی ؓکا قول ہے کہ ہر وہ شخص میرا استاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا ہو۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہم مغربی اقوام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اُستاد کو معاشی حالات کے جھنجٹ سے نکالا جائے، اُسے فقیر بنانے یا معاشرے کا ایک غیر اہم حصہ بنانے کے بجائے مغربی اقوام کی طرح اُسے عزت بخشی جائے۔ مغرب میں اساتذہ کی تمام ضروریات زندگی کو پورا کرنا حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے وہ لوگ اساتذہ کو ذہنی سکون اور اطمینانِ قلب سے قوم کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کیلئے تمام روزمرہ زندگی کی آسائشوں اور سہولیات مہیا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے جبکہ ہمارے ہاں ایسی ایسی اسکیمیں اور حکمتیں بنائی اور اپنائی جاتی ہیں جس سے اساتذہ کا نام اور مقام سوسائٹی میں بدنام ہوتا نظر آتا ہے، وہ لوگ اساتذہ کو بھاری تنخواہیں دیتے ہیں ان کے بچوں کو تعلیمی وظائف اور تعلیم کی تکمیل کے بعد باعزت روزگار فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بالکل اسکے برعکس ہے یہاں اساتذہ کی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جاتی، روزگار کا کوئی اچھا انتظام اور بندو بست نہیں ہے بہت سارے انجینئر اور پڑھے لکھے لوگ بے روزگار یا چھوٹا سا کام کرکے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہ لوگ اساتذہ کو کئی جدید مراعات سے نوازتے ہیں جبکہ یہاں اساتذہ کی حیلے بہانوں سے تنخواہیں کاٹی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ زبردست بدحالی کا شکار ہوتا جارہا ہے، ایسے حالات اور واقعات میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی ممالک اور ہمارے ملک میں شعبہ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے، تب ہی ہم تہذیب یافتہ اقوام میں 128میں سے 119ویں نمبر پر آتے ہیں۔ اور ہمارے اساتذہ قربانی جیسے تہوار پر بھی ذہنی طور پر مفلوج رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش اُنہوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرکے کسی اور شعبہ میں اپنے آپ کو کھپا لیا ہوتا!! #Teachers Salaries #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #A Teacher is a Beacon that lights the path of a Child