”تحفے“ لینے کی روایت، اوپر سے نیچے تک!

تحفہ لینا کسے پسند نہیں! یقینا یہ سب کو پسند ہوگا، اسی لیے پوری دنیا میں ”تحفہ“ ہی واحد چیز ہے جس سے انکار کوئی نہیں کرتا، تمام دوست ممالک بھی ایک دوسرے کے ساتھ تحفے تحائف کا لین دین کرکے گہرا رشتہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، اور چونکہ ممالک کی سطح پر تحائف لینے دینے والے عوامی نمائندگان ہوتے ہیں، اس لیے کسی بھی جمہوری ملک میں یہ تحفے کسی حکمران کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ یہ پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں۔ اس لیے حکمران انہیں ایک جگہ یعنی ”توشہ خانہ“ ”پبلک گفٹ سنٹر“ یا”اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ“ میں جمع کروانے کے پابند ہوتے ہیں۔ اور پھر اگر آپ حکمران ہیں، اور آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ فلاں ملک سے ملنے والا تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تمام ممالک میں باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔ مثلاََ بھارت میں یہ قانون ہے کہ ”چونکہ دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف ملک کے لیے ایک اعزازی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے وہاں ان تحائف کی قیمت سے زیادہ بولی لگائی جاتی ہے اور فروخت ہونے پر رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔ امریکا میں صدر باراک اوباما کے دور تک یہ قانون تھا کہ تحائف کو وہاں کے میوزیم میں رکھوایا جاتا ہے، تاکہ عوام کو علم ہو کہ کونسا ملک اُن کے ملک کے لیے کتنی چاہت رکھتا ہے، لیکن یہ قانون ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں تبدیل ہوگیا اور اب رقم ادا کرکے کسی کی بھی ملکیت میں جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کا قانون ہے ،ملنے والے تحفے حکمرانوں، سرکاری ملازمین اور سکیورٹی اداروں کے افراد خرید سکتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ اس اشرافیہ کی خریداری سے رہ جائے تو وہ عوام میں فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ اور قانون یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے تحفے کے متعلق حکومت کو مطلع کیا جائے اور اسے توشہ خانے میں جمع کرا دیا جائے لیکن اس پالیسی کے باوجود ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ملنے والے تحائف کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی توشہ خانے میں جمع کرانے کیلئے حکومت کو دیے جاتے ہیں۔دسمبر 2018ءمیں تشکیل دی گئی نئی پالیسی کے مطابق 30 ہزار روپے مالیت سے زائد کے تحائف کی پچاس فیصد قیمت ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے تاہم تیس ہزار روپے تک کے تحفے کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ استثنیٰ ایسے تحائف کیلئے نہیں ہے جو نادر نوعیت کے یا تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہوں۔یعنی نواز شریف کے آخری دور میں حکمران تحفے کا صرف 15فیصد ادا کرکے اُسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے، جو کہ قانون 2018ءمیں تبدیل ہوا اور اب یہ قانون ہے کہ آپ تحفے کی کل مالیت کا 50فیصد ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے ملک کی اعلیٰ شخصیات خصوصاً حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے بیش قیمت تحائف کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔اس معاملے کو اس وقت زیادہ عوامی توجہ ملی جب سابق دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے غیر ملکی دوروں سے ملنے والے تحائف کی تفصیل منظر عام پر لانے کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا۔اس کے ردعمل میں اس وقت کی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان تفصیلات کو چھپانے کی وجہ سٹیٹ گیسٹ کے طور پر ملنے والے بیش قیمت تحفے مقررہ قیمت سے کم پر لیا جانا ہے۔ان الزامات کے بعد نواز شریف کو یہ تفصیلات منظر عام پر لانی پڑی، جنہیں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں جمع کروایا گیا۔اب موجودہ حکومت نے توشہ خانہ میں رکھے غیر ملکی تحائف کی نیلامی کروائی تو ایک شہری کی درخواست پر پی آئی سی کی جانب سے حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملنے والے تمام تحفے، خاص طور پر وہ تحائف جو وزیر اعظم اور وزرا نے رکھے، ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیل جمع کروانے کی پابند بھی ہے مگر حکومت نے پی آئی سی میں یہ جواب جمع کروا دیا کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل سے ان ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے انہیں ملکی مفاد میں جاری نہیں کیا سکتا۔جبکہ کچھ دن پہلے کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر وزرا کو ملنے والے 170 سے زائد تحائف کو کچھ عرصہ قبل بولی کے تحت نیلام کیا گیا تھا۔ ان تحائف میں رولیکس گھڑیاں، سونے کے زیورات، مختلف ڈیکوریشن پیسز، سوینیئرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل تھے۔ان اشیا کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین اور فوج کے ملازمین نے حصہ لیاتھا۔ اسی معاملے پر ایک شہری نے پی آئی سی میں موجودہ حکومت بشمول وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی اور حکومت نے ملکی مفاد میں نہ ہونے کا جواز بنا کر وضاحت جمع کرائی۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے تین سابق حکمران ان دنوں توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں اور توشہ خانے سے قیمتی کاروں کی خلاف ضابطہ خریداری پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ریفرنس بنایا گیا، جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر اثر ورسوخ استعمال کرکے غیر ملکی تحائف کم قیمت پر حاصل کرنے کا ملزم نامزد کیا گیا ہے تو موجودہ حکومت پر اس حوالے سے ابھی تک کوئی کیس درج کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا نیب ان حکمرانوں کے جانے کے بعد کیس اوپن کرے گی، بالکل ویسے ہی جیسے زرداری حکومت کے جانے کے بعد زرداری پر کیس کھولا، نوازشریف حکومت جانے کے بعد نوازشریف پر کیس کھولا، جبکہ اب موجودہ حکومت کے جانے کے بعد خان صاحب پرکیس بنے گا۔ پھر نوازشریف کی طرح عمران خان کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے اور جائیداد کو نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے جس ڈگر پر سابقہ حکمران چلتے رہے۔ اور ویسے بھی عمران خان تو وہ شخصیت ہیں جن کی ایمانداری کی گواہی اُن کے مخالفین بھی دیتے ہیں، اور اُن پر کسی قسم کا کرپشن کا الزام بھی ابھی تک نہیں لگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس قسم کی غلطی کیسے کر سکتے ہیں کہ اُن کے ترجمان شہباز گل کو بھی پبلک میں کہنا پڑا کہ ملکی قوانین کے تحت توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ پاس رکھنا مقصود ہو تو قانون کے مطابق اس کے عوض پیسے خزانے میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ ماضی میں 15% تک پیسے جمع کروائے جاتے تھے۔ لیکن PTI کی حکومت میں 50% رقم جمع کروائی جاتی ہے۔ یعنی تحفے بغیر پبلک کیے نیلام کرنے کا انکشاف بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو یہ ایک افسوسناک امر ہے جو ہم نے سابقہ حکومتوں میں دیکھا۔ اگر موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے تو اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ درحقیقت یہ ہمارے لیے فطری عمل بن چکا ہے کہ ہمارے اندر سے لالچ ختم نہیں ہوسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتیر محمد کو اُن کے دور اقتدار میں 1800سے زائد تحائف ملے مگر اُنہوں نے ایک بھی اپنے پاس نہیں رکھا، تبھی ملائشیا ایک قوم بھی بن گیا۔ جبکہ یہاں پاکستان کے امیر ترین افراد جن میں نوازشریف اور زرداری نمایاں ہیں تحائف کو پبلک پراپرٹی کے بجائے اپنے پاس رکھ کر اُسے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تو اس ملک کے مڈل مین یا غریب عوام سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی یہ ہمارا کلچر بن چکا ہے کہ کچھ لوگ میز کے نیچے سے ”تحفہ“ وصول کرنے کے عادی ہیں، کچھ علی الاعلان اور کچھ انعام کی صورت میں تحفے وصول کرتے ہیں۔ اور پھر کچھ معمولی تحفے بھی ہیں جیسے بائیک والے سگنل توڑ کر دیتے ہیں، فارما کمپنیاں ڈاکٹرز کو دیتی ہیں، لمبی چھٹی کے لیے سرکاری ملازم اپنے باس کو دیتے ہیں اور ہوٹل والے فوڈ انسسپکٹرز کو دیتے ہیں۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ بعض موقعوں پر تحفہ ”نذرانہ“بھی بن جاتا ہے، جو کہ مزاروں کے گدی نشین، سیاست کے گدی نشین اور نام نہاد صحافت کے گدی نشین شکریے کے ساتھ وصولتے ہیں۔ یہ تحفے کی معمولی قسم ہے، لینے والا اسے فضل ربی سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ تحفہ اگر سیاسی پیشکش ہو تو اس کا کوئی نام نہیں، یہ بس دے دیا جاتا ہے۔نہ اس کا کوئی بینکنگ چینل ہوتا ہے، نہ اسے ٹیکس والوں کے سامنے قانون کے کسی خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ جیسے بیرون ملک جائیدادیں، مفت دورے، پرتعیش بنگلے، میلوں پھیلے رقبے، مہنگی گاڑیاں اور نجانے کیا کچھ، ایسے تحفوں کی فہرست میں ہیرے کی انگوٹھی سے ہاتھی تک کچھ بھی ممکن ہے۔یہ تحفے کا خاموش لین دین ہے، جو سینیٹ کی ٹکٹوں کی خریداری سے لے کر عام پارٹی کا ٹکٹ لینے تک تحفوں کا لین دین ہوتا ہے۔ اور پھر ہماری سوسائٹی میں اور بھی قسم کے تحفے موجود ہیں جن میں بزنس مین کی طرف سے تحفے تحائف دینے کا رجحان ہے وہ تحفے سیاستدانوں، ٹھیکداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو نوازتے اور اپنی مطلب کے کام نکلواتے ہیں۔ الغرض ہماری سوسائٹی میں بدعنوانی، کمیشن، حصہ، خرچہ، بخشش،قبضہ مافیاکی رشوت، دونمبر ادویات بنانے کے لیے رشوت، ذخیرہ اندوزی کرنے کی رشوت، چینی فیکٹریوں کو حکومتی سبسڈی دلوانے کی رشوت،کِک بیک، بھتہ، پارٹی فنڈز کی خردبرد یہ سب بڑے سخت الفاظ ہیں، مگر انہیں آپ پیار سے تحفے تحائف کہہ سکتے ہیں۔جب حالات اس قسم کے ہوں تو پاکستان کو تحفے میں ملی گاڑیاں بانٹ دی جاتی ہیں، کبھی ہیروں کا ہار غائب ہو جاتا ہے۔اب خاں صاحب کی حکومت میں ان تحائف کو منفرد مقام ملا ہے، یہ تحائف صیغہ راز میں رکھے جائیں گے ۔ مطلب بے حسی اور لالچ کی انتہا کو ہم اس وقت چھو رہے ہیں کہ ملکی اشرافیہ جسے کے پاس پیسے کی ریل پیل ہے وہ بھی ان پبلک تحائف کو ذاتی ملکیت بنانے کے لیے من گھڑت باتیں بنا رہا ہے اور باپ کا مال سمجھ کر استعمال کر رہا ہے، کیا یہ ہے پاکستان؟ #TOSHA KHANA #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan