حکومت کوٹھوس ایجنڈے کی ضرورت!

اس وقت سیاسی صورتحال بہت عجیب سی ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے۔ نہ فیصلے کرنے والی قوتوں کو علم ہے نہ ہی نومنتخب حکومت کو علم ہے کہ اُن کی سمت کیا ہے۔ اسی لیے نہ وزیر اعظم شہباز شریف کوئی مستقل ایجنڈا دے رہے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے ”90دن “ والے سچے جھوٹے وعدے کر رہے ہیں۔ اور پھر سب کو علم ہونے کے باوجود بھی نئی حکومت بھات بھات کی بولیاں بولنے والے اتحادیوں کو تھما دی گئیں، جس کا جلد یا بدیر اُلٹا ملکی سیاست کو نقصان ہی ہونے والا ہے۔ یعنی ایک درجن اتحادیوں نے مل کر174 ووٹوں کے ساتھ شہباز شریف کو وزیر اعظم بناتو دیا، مگر یہ حکومت اُتنی مضبوط نہ بن سکی جتنی مضبوط ہونی چاہیے تھی۔ یعنی صرف تین ووٹ روٹھ گئے تو حکومت گئی۔ ابھی کئی دن گزرنے کے بعد کابینہ نے حلف اُٹھایا ہی ہے تو اختلافات کی خبریں آنے لگیں۔ زرداری پیپلز پارٹی کے لیے مزید عہدے مانگ رہے ہیں اور اسی لیے بلاول کو میاں نواز شریف سے ملنے لندن بھیج دیا۔بی این پی اختر مینگل گروپ نے چاغی میں فائرنگ کے واقع پر قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آوٹ کیا اور اسی واقعہ کی وجہ سے کابینہ میں ابھی تک شمولیت بھی اختیار نہیں کی۔ بلاول بھٹو بھی ابھی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے جبکہ محسن داوڑ اور عوامی نیشنل پارٹی کے متعلق بھی کچھ مسائل درپیش ہیں۔ راقم نے پہلے کہا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو بہتر ہو گا کہ فوری الیکشن کی طرف جایا جائے کیوں کہ پاکستان کی قومی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے نپٹنے کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے۔ لیکن فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلانے واشنگٹن جا چکے ہیں، پٹرول 20روپے فی لیٹر بڑھانے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائی جا چکی ہے اور سب سے اہم بات کہ آخری خبریں آنے تک ڈالر کا ریٹ بھی 187روپے سے بڑھ چکا ہے۔ اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حالات سدھارنے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ حالانکہ جن کے پاس اب حکومت آئی ہے وہ یقینا سابقہ حکومت جسے ساڑھے تین سال میں ہی پھڑکا دیا گیا ہے سے کئی گنا زیادہ تجربہ کار ہیں۔ پھر بھی ماسوائے الزامات کی سیاست اور سابقہ حکومت کو جیل میں ڈالنے کے کچھ نہیں کر رہے ۔ مزید آگے چلنے سے پہلے سری لنکا کی حکومت پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے دیوالیہ ہوگئی اور وہاں کے حالات پاکستان سے کس طرح میل کھاتے ہیں۔ درحقیقت سری لنکا میں گزشتہ کئی عشروں سے دو خاندان حکومت کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک بندرا نائیکے اور دوسرا ”راجا پاکسے“ خاندان ہے۔ ان خاندانوں کے نوجوان اب دنیا بھر کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر ملک میں فوج سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں نام پیدا کررہے ہیں لیکن حیرت انگیزطور پر سری لنکا مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کو بھی ہماری طرح یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ملک تباہ ہونے کے باوجود ان سب خاندانوں کے کاروبار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیل رہے ہیں اور وہاں سے آنے والے پیسے کے ذریعے یہ سری لنکا میں سیاست کررہے ہیں۔ جس طرح کچھ عرصہ قبل یہاں گو نواز گو کے نعرے لگا کرتے تھے، بالکل اسی طرح اب وہاں پر بھی ”گو گوٹا گو“ کے نعرے مقبولیت اختیار کر چکے ہیں۔ گوٹا دراصل وہاں کے بہتر سالہ صدر لیفٹیننٹ کرنل ننداسینا گوٹابیا راجاپاکسے کا مختصر نام ہے اور گو گوٹا گو کے نعرے لگانے والے ان کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ان کا تعلق سری لنکا کے معروف سیاسی خاندان راجا پاکسے سے ہے۔2005ءمیں ان کے بڑے بھائی مہندا راجا پاکسے صدر بن گئے تو گوٹابیا کو سیکرٹری دفاع لگا دیا گیا۔ اس کے بعد راجا پاکسے خاندان کا طلسماتی عروج شروع ہوگیا۔ 76سالہ مہندا راجا پاکسے دراصل اس سیاسی خاندان کے سربراہ ہیں۔ سری لنکا کے دستور کے مطابق صدر طاقتور ترین عہدہ ہے مگر دو بار صدر بننے کے بعد کوئی تیسری بار صدر نہیں بن سکتا اس لیے مہندا راجا پاکسے نے وزرات عظمیٰ پر قناعت کرلی۔ انہوں نے سری لنکا میں اپنے خاندان کو اس طرح ترقی دی کہ اگر اسے شاہی خاندان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت ان کے بھائی گوٹابیا راجا پاکسے سری لنکا کے صدر ہیں، ایک بیٹے نمل نوجوانوں کے وزیر ہیں، دوسرے صاحبزادے ان کے چیف آف سٹاف ہیں، چند دن پہلے تک ایک بھائی باسل راجا پاکسے وزیر خزانہ تھے، سب سے بڑے بھائی چمل راجا پاکسے پہلے پارلیمنٹ کے سپیکر رہے اس کے بعد کئی وزارتیں ان کے پاس رہیں، چمل کے بیٹے سشیندرا نو میں سے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہوگئے۔ ان کے علاوہ ان گنت کزن مختلف ملکوں میں سفیر ہیں اور سری لنکا کی تقریبا ًسبھی کارپوریشنوں، بینکوں اور ہوائی کمپنیوں کے سربراہان بھی راجا پاکسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سری لنکا کے حوالے سے یہ تفصیلات شیئر کرنے کا مقصد وہاں کے حالات کو رونا پیٹنا ہر گز نہیں ہے بلکہ پاکستان کے حالات کے بارے میں فکرمند ہونا ہے کہ یہ بھی خاکم بدہن اُسی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ایلیٹ کلاس کا کیا دھرا ہے جبکہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ایلیٹ کلاس کا کیا دھر ا ہے جس کی نشاندہی ہر کوئی کرتا نظر آتا ہے بلکہ خان صاحب نے اس حوالے سے گزشتہ روز ہی کہا ہے کہ کہ مجھے معلوم تھا کہ ایک دن یہ سب اکٹھے ہوجائیں گے، اب ایسے لوگ ملک پرمسلط ہوگئے جن کے ملکی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات ہیں اہم ہیں۔ دراصل یہ لوگ ملک کے اصل مجرم ہیں، ان میں کروڑ پتی ارب لوگ شامل ہیں، ٹائی لگا کر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے شامل ہیں اور وہ کلاس بھی ہے جو اس ملک کی ناکامی کی براہ راست ذمہ دار ہے، ان لوگوں کا ضمیر انہیں صبح شام ملامت کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طور سے ہم اس ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا جب انہیں کوئی موقع ملتا ہے تو یہ اپنے ’ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر ‘ کبھی مذہب کی آڑ لیتے ہیں، کبھی مہا محب وطن بننے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی جذباتی نعروں کے پیچھے چھپ کر خود کو دلاسا دیتے ہیں کہ دیکھو میں تو اس ملک میں انقلاب لانے والوں کے ساتھ کھڑا ہوں جبکہ اصل انقلاب خود ان کے خلاف آنا چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ایک وقت کے کھانے کا بل پچاس ہزار روپے بھی ہو تو انہیں محسوس نہیں ہوتا لہذا انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹماٹر کتنے روپے کلو ہو گیا اور کوکنگ آئل کی قیمت میں کتنے گنا اضافہ ہوا۔ انہیں بس ایک نعرہ چاہیے تاکہ رات کو جب ان کا ضمیر سوتے وقت ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے تو یہ اس نعرے کی آڑ میں اپنا دفاع کر کے سکون کی نیند سو سکیں۔ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں، اس کلاس کی بے خوابی ہے! بہرکیف ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ تجربہ کار لوگ اپنی تجربہ کاری کے ذریعے حکومت میں آگئے، اور پھر وہی حرکتیں شروع کہ سابقہ حکومتوں پر کیسز بنانے شروع کردیے۔ حدتو یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی مخلوط کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں اتحادیوں کے مرہون منت نظر آئے۔لیکن انکی تقریر میں ملک کو درپیش چیلنجوں کا کوئی بالترتیب ذکر تھا، نہ قلیل مدتی ٹھوس ایجنڈا اور نہ راہ عمل۔ بلکہ ایسے مبارکبادیں دیتے نظر آئے جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا گیا ہو۔ شہباز شریف بلاشبہ موجودہ سیاسی قیادت میں حکومت چلانے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اُن کو ماضی کے برعکس اس وقت ایک ایسی سیاسی حمایت حاصل ہے جو بہت کمزور ہے، جو قابلِ اعتباربھی نہیں اور جس کی وجہ سے شاید وہ ایسا کچھ نہ کر سکیں جس کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا اصل چیلنج معیشت کا ہے۔ اور چیلنج بھی ایسا ہے جو فوری حل مانگتا ہے کیوں کہ ذرا سی بھی دیر پاکستان کو خدانخواستہ سری لنکا جیسی صورتحال میں دھکیل سکتی ہے۔جس کا پاکستان کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ سری لنکا سوا دو کروڑ آباد کا ملک جب پاکستان 22کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ سری لنکا کو اُٹھنے میں شاید چند سال لگ سکتے ہیں مگر پاکستان اس حوالے سے صرف سوچ ہی سکتا ہے کہ اُس کے ساتھ حد درجے تک برا ہوسکتا ہے( اللہ ملک پر رحم کرے!)