کورونا فائنل راﺅنڈ ہے، احتیاط ضروری!

یہ کم و بیش رواں سال فروری کے آخر کی بات ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیاکہ ملک میں عالمی وبا کووڈ 19 کا ”کھیل ختم“ ہوا۔انہوں نے اپنے وزیراعظم نریندر مودی کی تعریف کی اور پوری دنیا میں ”ویکسین ڈپلومیسی “کے آغاز کا بھی عندیہ دیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اُلٹ ہوگیا اور آخری اطلاعات آنے تک یومیہ متاثرین کا نیا عالمی ریکارڈقائم ہو گیا، یہاں تک کہ میتوں کی آخری رسومات کھیتوں میں ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس وقت وہاں روزانہ 4لاکھ سے زائد کیسز سامنے آرہے ہیں جبکہ اموات کی تعداد یومیہ 2ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ اس حوالے سے اگر ہم مختصراََ جائزہ لیں تو گزشتہ سال ستمبر کے وسط میں کورونا کیسز کی تعداد روزانہ 93 ہزار سے زیادہ تھی، اس کے بعد سے اس میں متواتر کمی دیکھی گئی اور یہ کم ہوکر 11 ہزار یومیہ ہو گیا۔ اس بیماری سے روزانہ ہونے والی اموات بھی کم ہو کر ہفتے میں 100 سے نیچے رہ گئی تھیں۔لہٰذاسیاستدانوں، پالیسی سازوں اور میڈیا کے کچھ حصوں نے یہ خیال ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ انڈیا واقعی اس وبائی دلدل سے باہر نکل آیا ہے۔ اسی اثناءمیں مسٹر مودی کو ”ویکسین گورو“ کہا جانے لگا۔پھر فروری میں انڈین الیکشن کمیشن نے پانچ ریاستوں میں اہم انتخابات کا اعلان کیا جہاں 18 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ ووٹرز 824 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔27 مارچ سے شروع ہوکر یہ انتخابات ایک ماہ تک جاری رہنے والے تھے۔ اور ریاست مغربی بنگال کے معاملے میں ووٹنگ آٹھ مراحل میں ہونا قرار پائی۔ بغیر کسی حفاظتی پروٹوکول اور معاشرتی دوری کے انتخابی مہم زور و شور سے شروع ہوئی۔ مارچ کے وسط میں کرکٹ بورڈ نے گجرات کے نریندر مودی سٹیڈیم میں انڈیا اور انگلینڈ کے مابین دو بین الاقوامی کرکٹ میچز دیکھنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کو اجازت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں ہر 12سال بعد آنے والے کمبھ کے میلے کی بھی اجازت دے دی گئی جس کی رسومات 5ماہ تک جاری رہتی ہیں، اور جس میں لاکھوں افراد شرکت کے لیے آتے ہیں، اور اب جبکہ کہ کمبھ کا میلا شروع ہو چکا ہے اور اس میں کورونا کے کیسز بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں تو اسے روکنا مشکل نظر آرہا ہے۔ لیکن پھر بھی بھارتی حکومت اسے ایک ماہ کے اندر سمیٹنے کے دعوے کر رہی ہے۔ اس لیے ہمسایہ ملک بھارت میں ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں چیزیں الٹنا شروع ہوگئیں اور انڈیا وائرس کی تباہ کن دوسری لہر کی لپیٹ میں تھا اور متعدد شہروں کو تازہ لاک ڈاو¿ن کا سامنا تھا۔اپریل کے وسط تک ملک میں اوسطاََ ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ کیسز آنے لگے۔ قارئین ! اس وقت بھارت صحت عامہ کی ایمرجنسی کی گرفت میں ہے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ان میں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں کووڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات کے لیے بھیڑ، ہسپتالوں کے باہر مرنے والوں کے غمزدہ لواحقین، سانس لینے کے لیے بے چین مریضوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کی لمبی قطاریں اور لاشوں سے بھرے مردہ خانے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ہسپتالوں میں اور راہداریوں پر مریضوں کی بھیڑ ہے اور کبھی کبھی ایک ہی بستر پر دو، دو مریض نظر آرہے ہیں۔ہسپتالوں میں بیڈ، ادویات، آکسیجن اور ضروری ٹیسٹوں کے لیے کی جانے والی فون کالز کی بھرمار ہے۔ دوائیں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں، اور ٹیسٹ کے نتائج میں دنوں لگ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انڈیا کے وسیع ویکسینیشن پروگرام جس کا راقم نے گزشتہ کالم میں ذکر بھی کیا تھا، کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بھارت زیادہ خود اعتمادی میں مارا گیا ہے، اور ہم جن کی سینکڑوں کلومیٹر کی سرحد بھارت کے ساتھ لگتی ہے، محفوظ ہم بھی نہیں ہیں۔ یہاں بھی روزانہ اموات کی تعداد ڈیڑھ سو افراد کے قریب پہنچ چکی ہے جو فروری تک محض 20تک تھی اور ان ڈیڑھ سو افراد کا تیسرا حصہ لاہور یوں کا ہے جو ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے سے ابھی تک قاصر ہے۔ جبکہ اس وقت ملک بھر میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز آنے کی شرح 11.62فیصد ہو گئی ہے، لاہور میں یہ شرح 18، حیدرآباد 14، کراچی 13 فیصدہے، کئی شہروں میں 90 فیصد سے زیادہ وینٹی لیٹرز زیر استعمال ہیں، پہلی لہر کے مقابلے میں 30 فیصد زائد مریض آکسیجن پر ہیں۔ الغرض کورونا کی تیسری لہر نے دنیا کے ساتھ ہمارے خطے کے ممالک اور ان کی حکومتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بار کورونا کے اثرات بھی زیادہ شدید ہیں۔ مریضوں کی حالت زیادہ بگڑ رہی ہے، ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور آکسیجن دینے کے آلات کم پڑ رہے ہیں، اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ کئی ہزار لوگ روزانہ نشانہ بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ سخت اقدامات کب اٹھائے جائیں گے؟ کورونا کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہی ماہرین نے یہ کہہ دیا تھا کہ اس وائرس سے جلدی جان نہیں چھوٹے گی، یہ بار بار حملہ آور ہوتا رہے گا ، جب تک اس کی ویکسین بن کر ہر ایک کو نہیں لگ جاتی۔ ہمارے ہاں پچھلے سال گرمیوں میں ہسپتالوں کی گنجائش سے زیادہ مریض آ گئے تھے، اگر وہ شرح برقرار رہتی تو ملک میں خوفناک بحران پیدا ہوجاتا۔ الحمد للہ اس میں کمی آ گئی اور بتدریج معاملات کنٹرول ہوتے گئے۔ تب یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمارے پاس اپنی آبادی کے دباﺅ کے مطابق مناسب سہولتیں موجود نہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم انسداد کورونا کی صلاحیت بہتر کر لیتے۔ مزید کورونا سینٹرز، زیادہ آکسیجن دینے کے آلات اور وینٹی لیٹرز کی تعداد میں اضافہ۔ مناسب حکمت عملی سے کام لیا جاتا تو اس پر زیادہ رقم بھی خرچ نہیں ہونی تھی۔ بدقسمتی سے حکومت کورونا میں کمی کا کریڈٹ تو لیتی رہی، مگر یہ نہیں سوچا کہ اگلی لہر شدید ہو ئی توعوام کا کیا بنے گا؟ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے تھا کہ لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ملتان جیسے شہروں میں جہاں کورونا کی شرح بہت زیادہ ہوچکی ہے، وہاں فوری طور پر ویکسین لگانے کے سنٹرز پانچ سات گنا بڑھا دئیے جاتے۔ان شہروں میں رہنے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگوائی جاتی۔ یوں چند دنوں میں کئی ملین افراد محفوظ ہوجاتے۔ کورونا کا اصل خطرہ زیادہ رسک فیکٹرز والوں کو ہے۔ دمہ اور دل کی بیماریوں کا شکار لوگ، شوگر، بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کے رسک فیکٹر زیادہ ہیں۔ انہیں کورونا ویکسین پہلے لگنی چاہیے۔ اب ہوگا یہ کہ ایک چالیس سالہ شخص جو شوگر، بلڈ پریشر کا مریض ہے، اس تک ویکسین پہنچتے کئی ماہ بلکہ شائد سال بیت جائے۔ اس دوران وہ کورونا کے رحم وکرم پر ہوگا۔ اللہ حکومت پر رحم کرے اور عوام کا خیر خواہ بنائے۔ بظاہر یہ لگ رہاہے کہ حکومت کی خواہش ہے لوگ نجی شعبہ سے ویکسین لگوائیں اور حکومت کو کچھ نہ کرنا پڑے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھارت سے ہماری سرحدیں مکمل بند کر دینی چاہئیں ، سخت لاک ڈاﺅن کرنا چاہیے، عوام کے اکٹھ کو روکنا چاہیے، جیسے پچھلے دنوں میں احتجاج کے دوران ہمارے عوام نے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا بالکل اسی طرح بھارت نے بھی اس لہر کو شروع میں نظر انداز کیا تھا، جس کا نتیجہ وہ آج بھگت رہا ہے۔ لہٰذاماہرین کے مطابق کورونا کا یہ فائنل راﺅنڈ چل رہا ہے ، اگر ہم اس راﺅنڈ میں ہار گئے تو ہمارا حال بھی انڈیا اور برازیل جیسا ہو جائے گا، اس لیے فیصلہ ہم عوام کے ہاتھ میں ہے!