قربانی تقویٰ اور پرہیز گاری کا نام مگر!

قربانی ایک مختصر لفظ ہے ،لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے۔ انسان جواپنی زندگی کے مختلف مسائل میں الجھا ہوتاہے،اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے قربانی کا پیغام دیا تھا ہم اس سے کس قدر کنارہ کش ہو چکے ہیں، دوسروں کے حقوق چھین کر اور جھوٹ بول کر ”قربانی“ دینے سے یا محض قرب و جوار میں اپنا سٹیٹس سمبل بحال رکھنے کے لیے نہ تو ثواب ملتا ہے اور نہ قربانی کے اصل مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے یہاں کی 60فیصد آبادی غریب ترین ہے، عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کے لیے عالمی پیمانہ دو امریکی ڈالر روزانہ آمدنی ہے، یعنی تقریباً 3سو پاکستانی روپے۔اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی 21 فیصد آبادی میں لوگوں کی روزآنہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔ 40فیصد جو خط غربت سے اوپر زندگی گزار رہے ہیں ان کا معیار زندگی بھی دیکھ لیں.... ان میں سے ایک فیصد شاہانہ زندگی گزار رہا ہے 30فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے اور 9فیصد چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اب ایسے حالات میں آپ مجھے بتائیں کہ ان میں سے کتنے فیصد لوگ اپنی ”ناک“ رکھنے کی خاطر قربانی دے رہے ہیں اور کتنے فیصد خالص اللہ کی رضا کے لیے؟ حالیہ عیدِ بقر میں 50ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ تھے اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ اپنے گلی محلے سے آپ کا گزر ہوا ہو گا تو یقیناََ آپ کو ہر دوسرے گھر میں ”قربانی“ بندھی ہوئی نظر آئی ہوگی۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دوکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ”استطاعت“ رکھتے ہیں۔ میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ حالانکہ میں کون ہوتا ہوں قصائیوں و نیم قصائیوں کی دہاڑیاں ”برباد“ کرنے والا۔۔۔ میں ورط حیرت کی اتھاءگہرائیوں میں اس لیے ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ ہے، اس نے انہی پیسوں میں سے گھر کا کچن چلانا ہے، بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنی ہے، دودھ والے کو پیسے دینے ہیں، اپنا روز مرہ کی سواری کا خرچ چلانا ہے وغیرہ اور جب کوئی تہوار آتا ہے جیسے عیدین وغیرہ تو پورے خاندان کے لیے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں یعنی 50ہزار روپے کا اضافی خرچہ اسے برداشت کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے 30سے 50 ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے کم تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی جج، کوئی بیوروکریٹ یا کوئی مجسٹریٹ جس کی تنخواہ لاکھ روپے بھی ہوگی وہ بتائے اس تنخواہ اور مہنگائی میں کیسے قربانی کا جانور خرید کر سنت ابراہیمیؑ ادا کر سکتا ہے؟ ہمارے حالات تو بقول شاعر یہ ہیں کہ وہ جن کا شجرِ انا آندھیوں میں بھی نہ گرا بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ پل پڑے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں جہاں ہزاروں بچیاں غربت کی بنا پر اپنے ہاتھوں کے پیلے ہونے کی منتظر رہتی ہیں وہاں کئی کئی لاکھ کے پلے پلائے اور سجے سجائے جانور قربانی کے لئے خرید کر ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں بھی فربہ پلے پلائے اور بھاری بھرکم سینگوں والا بکرا خریدنے کیلئے بندے کا اپنا بھی بھاری بھرکم اور جیب کا بھاری ہونا ضروری ہے۔میں نے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کی بات کی، یقین جانئے یہ اس لیے مہنگے ہیں کہ ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے، کسی سے کپڑا خریدو تو وہ مہنگے داموں دے گا، سلائی کروانے جاﺅ وہ منہ مانگے دام وصول کرے گا، یعنی کوئی ایک فرد، ادارہ یا گروہ سسٹم میں نہیں ہے اگر یہی چیزیں ساری سسٹم میں موجود ہوں تو نہ تو کبھی کوئی قربانی کے جانور مہنگے داموں خرید سکتا ہے اور نہ کبھی کوئی قصائی اضافی پیسے وصول کر سکتا ہے، نہ کوئی رمضان میں گھی، کھجوریں، بیسن وغیرہ مہنگا کر سکتا ہے اور نہ بچوں کے گارمنٹس کوئی مہنگا کر سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کے سرکل کو توڑا جائے، اور یہ سرکل اسی وقت ٹوٹتا ہے جب آپ اس سرکل سے نکل جائیں، اسی طرح آپ کو دیکھ کر کوئی دوسرا بھی نکل جائے، لیکن اگر آپ خود ہی پہل نہیں کریں گے اور اس جاہلانہ سسٹم میں اپنے آپ کو دھکیل دیں گے اور اسی سسٹم کا حصہ بن جائیں گے تو آپ بھی وہی لکیر کے فقیر ہوں گے۔ ہماری ”قربانی“ میں رزق حلال کا عنصر ہونا چاہیے، صرف جانور خرید کر دکھاوے کے لیے اس کی ”بلی“ چڑھا دینے سے اللہ راضی نہیں ہوتا، اور نہ ضمیر ہی مطمئن ہوتا ہے۔پھر ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں ہر گلی کے باہر تین، تین چار چار جگہ جانور ذبح ہو رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کے پیدل گزرنے والوں کے لیے بھی راستہ نہیں ہوتا، پھر جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ پھردنیا بھر میں اس قدر بے دردی اور اناڑی قصائیوں کے ہاتھوں جانوروں کو ذبح کروایا جاتا ہے کہ ثواب ملنے کے بجائے ، جانوروں کو اذیت پہنچانے کے عوض انسان گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے، جگہ جگہ خود ساختہ قربان گاہیں بنا دی جاتی ہیں ، کہیں گولی مار کر جانور کو گھیرا جارہا ہے تو کہیں ادھ ذبح جانور کے پیچھے نومولود قصائیوں کی دوڑیں لگی ہوتی ہیںحالانکہ دنیا بھر میں عید الاضحٰی کے موقع پر سنتِ ابراہیمیؑ کی یاد تازہ کرنے کے لیے قوانین کی پاسداری لازمی ہوتی ہے۔آپ متحدہ عرب امارات کی مثال لے لیں تمام ریاستوں میں بھی قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں تاہم ہر ریاست میں انتظامیہ کی جانب سے ان جانوروں کی فروخت کے لیے ایک مخصوص جگہ متعین کی جاتی ہے۔لیکن یہاں قربانی گلی محلوں یا اپنی رہائش گاہ کے باہر نہیں کی جاسکتی بلکہ جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے سلاٹر ہاﺅس یا مذبح خانوں میںلے جایا جاتا ہے جہاں موجود ڈاکٹرز کی جانب سے طبی معائنہ کے بعد اُنھیں قربان کیا جاتا ہے۔اس کا مقصد جانوروں میں موجود بیماریوں کو انسانوں میں منتقلی سے روکنا ہے۔ جب کہ ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کا معائنہ کیا جاتا ہے کہ آیا اس گوشت کا استعمال مضرِ صحت تو نہیں۔دنیا بھر میں دوسرے ممالک سے قربانی کے لیے آنے والے جانوروں کے معائنہ کے لیے ایئر پورٹ پر بھی ویٹرنری سیکشن ہوتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ جانور بیماریوں سے پاک اور قربانی اور استعمال کے لیے محفوظ ہوں۔ اگر بات ترکی کی کی جائے تو وہاں قربانی کرنے کے منظم طریقہ اور جدید سہولیات سے استفادہ کیا جاتا ہے.... آپ کہیں گلی محلے میں جانور کو ذبح وغیرہ نہیں کرسکتے....برطانیہ میں ان دنوں زیادہ مقبول طریقہ یہ ہے کہ اکثر حلال میٹ کی دوکانیں آپ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی سہولت فراہم کر دیتی ہیں۔پورے یورپ میں عید کے موقع پر عارضی ذبح خانے قائم کر دئیے جاتے ہیں جہاں لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، بلکہ اس مرتبہ تو یورپ کے بعض ملکوں میں عارضی موبائل ذبح خانوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے قربانی دی.... آپ بھارت کی مثال لے لیں وہاں گائے کی قربانی کی تو ممانعت ہے مگر ہر ریاست کی جانب سے سرعام جانور کو ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، آپ ریاست کی جانب سے مختص کیے گئے مذبح خانوں کے علاوہ کہیں جانور کو ذبح نہیں کر سکتے.... آپ اپنے ملک کے پرانے حصے بنگلہ دیش کی مثال لے لیں وہاں ہر شہر کی انتظامیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنے کے لیے باقاعدہ کچھ جگہوں کا انتظام کرتی ہے ۔ تاکہ لوگ مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں قربانی نہ کریں .... بہرکیف ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے ، یہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے ، کہ ہم اپنی قربانی میں تقویٰ پرہیز گاری کو شامل کرکے جھوٹ اور کرپشن کو اس ملک سے نکال باہر پھینکیں، صفائی ستھرائی کا خود سے اہتمام کریں، ہماری حکومتوں کو اپنے عوام کے حالات بہتر کرنے کیلئے ایسے اقدامات بھی کرنا چاہئیں کہ وہ بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے نکل کر عید کے تہواروں کی اصل خوشیوں کا بھی حصہ بن سکیں کہ خوشی کے موقعوں پر غمزدہ لوگوں کی محرومیاں اور بھی شدت سے سامنے آتی ہیں۔خدا کرے کہ ارض پاک پر خوشیوں کی جھومر اسی طرح ڈھلتی رہی اور امن وامان کے گہواروں میں عید کے تہوار کی طرح ہر آنے والا دن عید کی خوشیوں والا سورج طلوع کرتا رہے۔ اور حقیقی قربانی اس دن ہوگی جب لوگوں میں احساس پیدا ہوگا ورنہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مار کرقربانی دی بھی تو کیا دی!!! #eid qurban #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Leader tv hd