عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کو سی ایس ایس کا حصہ بنایا جائے!

ملک کی سیاست جس ڈگر پر چل پڑی ہے اس کے نتیجے میں انتظامیہ اور مقننہ حتیٰ کہ فوج کے بارے میں بھی اختلافی باتیں عام ہوچکی ہیں اور اداروں میں تقسیم کی اس بحث نے اب عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نئی بحث پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے اجرا میں تاخیر سے متعلق عدالت عظمیٰ کے” از خود نوٹس کیس“ میں دو تین کی اکثریت سے ہونے والی کارروائی اور اس حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے دو فاضل ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 27 صفحات پر مشتمل تفصیلی اختلافی فیصلے سے شروع ہوئی۔ اختلافی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تقسیم سے ملک میں سیاسی ماحول گرم ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر خودکو سیاسی جھنڈ میں دھکیلا اور یہ سلسلہ دو اسمبلیوں کی تحلیل، منحرف ارکان کی ووٹ شماری اور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک جاپہنچا۔ ازخود نوٹس کی کارروائی جلد بازی میں کی گئی جبکہ یہ معاملہ لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں زیرالتوا تھا۔ عدالت عظمی کو صوبائی معاملات میں مداخلت اور ہائیکورٹوں کی خود مختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے تھی۔ فاضل ججوں کے مطابق سپریم کورٹ کا متذکرہ فیصلہ تین دو کا نہیں بلکہ چار تین ججوں کا ہے لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے اختلاف کو مرکزی فیصلے میں شامل نہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف بنچ سے نکالا گیا جس کا چیف جسٹس کو کازلسٹ جاری ہونے کے بعد اختیار نہیں تھا۔ فاضل ججوں نے اپنے فیصلے کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے کا تسلسل قرار دیا اور چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور دائر کی گئی تمام درخواستیں مسترد کردیں۔ اختلافی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس کے ”ون مین پاور شو“ کے اختیار پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اس اختلافی فیصلے سے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے پر سوالیہ نشانات لگ گئے ہیں وغیرہ۔ کسی کیس کو لے کر عدالت عظمیٰ کے ججز کے آپسی اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں بلکہ یہ ادارے کا حسن ہوتے ہیں مگر سیاسی کیسز میں یہ اختلاف سیاہ دھبہ بن جاتے ہیں، جس سے ہر صورت عدلیہ کو ناصرف بچنا چاہیے بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کی طرح اداروں کے کیسز کو لینے سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔ ایسا کرنے سے نا صرف عدلیہ کسی متنازع عمل کا حصہ ہونے سے بچ جاتی ہے بلکہ سیاستدانوں کو بھی شہہ نہیں ملتی۔ اور اب چونکہ ہمارے سیاستدانوں کا ہر دوسرا کیس عدلیہ کے پاس جاتا ہے تو ایسے میں عوامی سطح پر چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ فلاں جج فلاں پارٹی کو سپورٹ کررہا ہے ، اور فلاں جج کی تعیناتی ہی میرٹ پر نہیں بلکہ فلاں سیاسی جماعت کی سفارش پر ہوئی۔ کسی جمہوری ریاست کے لیے یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے، کہ اُس کا سب سے بڑا انصاف کرنے والا ادارہ ہی تنازعات کی زد میں آجائے۔ تبھی راقم نے اپنے کالموں اور مختلف فورمز کے ذریعے یہ گزارش کی ہے کہ ججز کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے، ججز کی تقرری کے لیے سی ایس ایس طرز کا امتحان ہونا چاہیے، اس میں کسی کا براہ راست تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ آگے چلنے سے پہلے اگر ہم سپریم کورٹ میںججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر نظر ڈالیں تو ملک میں اس وقت 19ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175-A میں سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ میں جج تعینات کرنے کے اختیارات سپریم کورٹ ہی کے پاس ہیں۔یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہو گا، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل شامل ہوتے ہیں۔اسی طرح اس مقصد کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سے قائم کی گئی ہے جس میں چار اراکینِ سینیٹ اور چار ہی قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے چار کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دیتی ہے اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالتی کمیشن کا ہی فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ اب اس تمام عمل میں الزامات دھرے جاتے ہیں کہ فلاں جج فلاں کی جانب سے بھیجا گیا ہے ، اور پھر ہوتا یہ ہے کہ اگر مذکورہ جج بہترین فیصلے بھی کرے تب بھی اُس پر چھاپ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی ضرور لگ جاتی ہے۔اب ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنتا ہے تو وہ اپنے چیمبر کے وکلاءیا دوستوں کو جج بنا دیتا ہے۔ پھر بار کونسل پر جس کا قبضہ ہوتا ہے، وہ بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسے ہوتا ہے، کہ اس کونسل کے ممبر ہی آپس میں ججز کی سیٹوں کو بانٹ لیتے ہیں۔ لہٰذامیں پھر کہوں گا کہ ججز کی تعیناتی سی ایس ایس کا حصہ ہو، گریڈ17میں سول جج بھرتی ہو، اور گریڈ 22تک یعنی سپریم کورٹ کے جج تک وہ میرٹ پر جائے۔ ان کا ایک سیلری سٹرکچر ہو، اس میں خوشامد سسٹم ختم ہونا چاہیے، فیورٹ ازم کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقین مانیں اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے، ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جس طرح آج کا ماحول ہے یا تاریخ میں کئی بار یہ ماحول بنا جیسے 1997 میں نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تو اس نے فوری طور پر 14ویں آئینی ترمیم کرتے ہوئے صدر کی اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم کر دیا۔ اس آئینی ترمیم کے بعد وزیراعظم کسی کے سامنے جوابدہ نہ رہے۔ نواز شریف نے مذکورہ آئینی ترمیم میں ایسی شقیں ڈالیں جس کے بعد پارلمنٹ بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہی۔کچھ اراکین پارلیمنٹ نے اس آئینی تریم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی تو نواز شریف سخت طیش میں آگئے اور کھل کر سپریم کورٹ پر تنقید کی۔ جب پر سپریم کورٹ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا۔ حالت خراب ہوتے دیکھ کر صدر پاکستان اور پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ نواز شریف کوسمجھانے آئے اور درخواست کی کہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کریں۔ نواز شریف نے ضد کی کہ ”چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا“۔ ساتھ ہی نہایت جارحانہ انداز میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اپنے مرضی کے ججز تعینات کرنے شروع کر دئیے بلکہ جسٹس سجاد علی شاہ کے قریب سمجھے جانے والے ججوں کی تنزلی بھی کر دی۔ جن ججوں کی تنزلی ہوئی انہوں نے نواز شریف کے اس حکم کے خلاف کوئٹہ ہائی کورٹ میں اپیل کر دی اور بہت سے ججز چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔اسی دوران پشاور ہائی کورٹ سے ان دو ججز کی معزولی کا حکم آگیا جنکی تنزلی ہوئی تھی اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے خود کو سپریم کورٹ کا عبوری چیف جسٹس قرار دےد یا۔تاہم چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنی کرسی پر موجود رہے اور نواز شریف کے خلاف کیس کی سماعت جاری رکھی جس پر 30 نومبر 1997 کو عین اس وقت جب کیس کی سماعت جاری تھی نواز شریف کے کیبنٹ کے وزراءاور بہت بڑی تعداد میں پارٹی اراکین نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیااور عدالتی کاروائی روک دی۔چیف جسٹس نے پاک فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے فورا 14 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیا اورصدر کے اختیارات بحال کر دئیے۔ پاک فوج نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کایہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کی۔ نواز شریف نے فوری طور پر صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا اور وسیم سجاد کو عبوری صدر مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کر دیا۔یوں نہ صرف اپنی مرضی کا صدر مقرر کیا بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی مرضی کے ججز تعینات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس کئی تاریخی حوالے ہیں جو ڈکٹیٹر شپ کو بھی قانونی قرار دینے کے حوالے سے ہیں، اس لیے ججز کی تعیناتیاں اگر میرٹ پر ہوں تو کبھی عدلیہ کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، بالکل بھارت کی طرح ، بھارت کی مثال میں اس لیے دیتا ہوں کہ ایک تو بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے دوسرا وہاں کا عدالتی نظام پاکستان سے 50درجے بہتر ہے یعنی دنیا کے 102ممالک کی فہرست میں بھارت کا 30واں نمبر جبکہ پاکستان کا 83واں نمبر ہے۔ تیسرا وہاں کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ وہاں کے چیف جسٹس نے براہ راست سیاست میں مداخلت کی ہو۔ لہٰذاہمیں سیاست کو عدلیہ سے نکال باہر پھینکنا ہوگا۔ ایسا اس لیے بھی ”جرم“ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اُس شخصیت، اُس سیاسی جماعت یا اُس ادارے کی مرہون منت کام کرے گا، کبھی اپنے ”احسان مندوں“ کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گا، وہ کبھی عدلیہ کی بہتری کے لیے کام نہیں کرے گا، وہ کبھی عدلیہ کی آزادی کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ جبکہ اس کے برعکس میرٹ پر تعینات ہونے والا جج یا مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے جج کے پاس ایک وژن ہوگا، ایک عزم ہوگا، جوش ہوگااور ولولہ ہوگا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ایسا کرنے سے کسی فرد واحد کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے بلکہ ہر چیز سسٹم اور قانون کے مطابق چلے گی۔ اور ویسے بھی ہم ابھی تیسری دنیا کے لوگ ہیں، نئی نئی جمہوریت دیکھ رہے ہےں،جس میں ایک بندے کے پاس اختیارات آجائیں تو وہ بجائے اُس کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کے وہ ڈکٹیٹر بن جاتا ہے! اور ملک پھلنے پھولنے کے بجائے مزید سکڑ جاتا ہے۔