16دسمبر 1971ء: ہم اپنی غلطیوں سے کیوں نہیں سیکھتے؟

یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔لیکن 1971ءسے لیکر آج تک52سالوں میں ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں ”جمہوریت “ کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے ۔اورپھریہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ”بڑا ہاتھ“ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے،بلکہ مزید ترقی بھی کر رہا ہے۔ پھر اس حوالے سے حمود الرحمن کمیشن بھی بنا جس نے 2سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی بنائی ، لیکن اسے ”قومی راز“ بنا کر رکھ دیا گیا لیکن 90کی دہائی میں اس کے کچھ حصے قومی اخبارات میں شائع ہوئے تو سنجیدہ حلقوں میں خاصی تشویش پائی گئی۔ وہ حصے یہاں شائع کرنے کے قابل تو نہیں ، کیوں کہ اُس میں رنگین راتوں، اور محفل شباب کا بھی ذکر ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں 6 جرنیلوں کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی گئی تھی جن میں جنرل یحییٰ خان،جنرل عبدلحمید،لفٹننٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ،میجر جنرل عمر،لیفٹننٹ جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا شامل ہیں،رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان فوجی افسروں کا مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے پر کورٹ مارشل کیا جائے،،، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں قائم اس کمیشن نے آئندہ سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے بچنے کے لیے چند سفارشات بھی پیش کی تھیں۔ لیکن اُن پر بھی آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ لہٰذاحمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا لب لباب یہ کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج پرجب سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگ جاتا ہے، تو وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔ اور یہی ”سقوط ڈھاکہ “ کا سبق بھی ہے۔ رپورٹ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے مراحل میں سیاستدان ہر گز ہر گز سہولت کاری کا کام سرانجام نہ دیں،،، کیوں کہ جب سہولت کار دستیاب ہوں تو پھر فیصلہ کرنے والوں کو شہہ ملتی ہے۔ لیکن سہولت کار وقتی سہولت حاصل کر تو لیتے ہیں مگر اُن کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے، نہیں یقین تو آپ سانحہ 1971ءکو دیکھ لیں،،،اُس وقت مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سہولت کاروں میں ذوالفقار علی بھٹو، البدر، الشمس، جماعت اسلامی، مشرقی پاکستان سے ہی بہت سے بہاری شامل تھے۔ لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ بعد ازاں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ تاریخ گواہ ہے کہ اُنہیں بنگلہ دیش میں نشان عبرت بنا دیا گیا، اُنہیں ابھی تک مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے بہت سے رہنماﺅں کو پھانسی دی جا چکی ہے، اور بہت سے رہنما ابھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں،،، لیکن ہم نے اُن کے لیے کچھ نہ کیا، ہم نا تو اُن کو پاکستان لے کر آئے اور نہ ہی اُن کے لیے آواز اُٹھائی۔ اسی طرح بھٹو جنہوں نے جنگی قیدیوں کو چھڑوا یا اور واپس مغربی پاکستان لائے ، بعد میں پھانسی کے تختہ دار پر لٹکا دیاگیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے، اور نہ ہی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، ہم اگر اس قابل ہوجائیں تو یقینا ہم ترقی بھی کر لیں گے۔ کیوں کہ جس جس ملک نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، اُس نے ترقی کی ہے، اور جس نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے وہ تاریک راہوں میں گم ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہمارے ہاں روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ”اُلٹا چور کوتوال کو“ کے مصداق ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اپنے لہجوں میں تکبر لے آتے ہیں۔ یعنی معذرت کے ساتھ ہمیں آج یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے فیصلہ کرنے والوں کے چہرے اور زبان سے تکبر صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی تکبر کی وجہ سے ہم نے بڑے بڑے عظیم بنگالی جن میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، ایم ایم عالم جیسے رہنماءسر فہرست تھے، کو ضائع کیا اور انہیں صحیح جگہ استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ہم نے اُن کے ساتھ Insulting رویہ روا رکھا، پھر1970کا الیکشن کروایا گیا، عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی، لیکن ہم نے تکبر کی وجہ سے عوامی لیگ کو کسی سطح پر تسلیم نہ کیا، زیادہ سیٹیں عوامی لیگ کی تھیں، لیکن ہم نے انہیں اقتدار نہ دیا۔ اور جب انہوں نے اقتدار مانگنے کے لیے مظاہرے شروع کیے تو ہم نے وہاں ٹکا خان کو بھیج دیا،،،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اُس وقت بھی تکبر دکھائی دیتا تھا، اور آج بھی تکبر دکھائی دیتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں، کہ کس طرح سویلین کے کیسز کو بھی ”خصوصی عدالتوں“ میں بھیج دیا گیا ہے۔ خیر موضوع پر ہی دوبارہ آتے ہیںکہ اور تاریخ کے اوراق پر ہی روگردانی کرتے ہیں کہ آج کا دن 16دسمبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ جب یہ سانحہ ہوا تو اس کے اگلے روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔اس سانحہ میں اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ قصور وار تھی، سیاستدان اپنی جگہ۔ایک اور حیران کن امر یہ تھا کہ اس سانحے کے بعد صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی نہ ہوئی تھی بلکہ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سینارٹی لسٹ میں اپنا نمبر چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ سبق جو اقتدار اور طاقت کے ایوان چلانے والوں نے پلٹن گراو¿نڈ میں شرمناک ہزیمت اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا! قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آئندہ سدھارنے کی کوشش کرے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ اُس وقت ہم سے جو غلطیاں ہوئیں،آج بھی اہم اُسی قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں۔ اُس وقت ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انہیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، پھر ہم نے حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، کو ہم نے وزیر اعظم بنایا اور ”غدار“ کے خطاب سے نواز کر 1962میں قتل بھی کروا دیا۔یہ بالکل ایسے ہی جیسے ایک منتخب حکومت سے اقتدار لے کر اُنہی سیاستدانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہیں۔ اور جس سے اقتدار لیا گیا، اُس کی اس قدر ڈھٹائی سے کردار کشی کی جا رہی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل پاکستان سے ضرور ”باغی“ ہو جائے گا۔ لہٰذامیں ایک بار پھر کہوں گا کہ ہم اگر اپنی غلطیاں مان لیں تو اس میں ہر ج ہی کیا ہے؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے اپنی غلطی تسلیم کی ، جرمنی نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی دونوں آج بڑی طاقتیں بن چکی ہیں۔ انڈیا نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے، وہ آج دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، بنگلہ دیش جس نے ہم سے آزادی حاصل کی وہ ہم سے بہت بہتر ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اُن کے لہجوں میں تکبر نہیں ہے، ہم نے ہر جگہ مار کھائی ہے، ہمارے ہاں تو اُن سے صحیح معنوں میں کمیونیکیشن گیپ پایا جاتا ہے۔ اور پھر میرے خیال میں 1956ءکے آئین کو توڑنا ہی پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا سبب بنا تھا، حالانکہ شیخ مجیب الرحمن بھی اپنی تقریروں میں 1956ءکے آئین کی بحالی کی بات کرتے رہے۔ آج بھی ہر لمحہ 1973ءکا آئین ہر لمحہ خطرات کی زد میں رہتا ہے، کبھی کوئی اسے توڑ کر ایمرجنسی لگا دیتا ہے تو، کوئی اس میں من پسند تبدیلیاں کرکے نظریہ ضرورت کو فروغ دیتا ہے۔ بہرحال مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 52سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا ماتم، سینہ کوبی اور آہ و زاری بدستور جاری و ساری ہے۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور جارحیت قرار دیتے ہیں۔ہم بنگلہ دیش میں ہوئے فوجی آپریشن کا مختلف حیلوں بہانوں سے دفاع کرتے اور بنگالیوں کے قتل عام کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں۔ہمارا ریاستی بیانیہ اور میڈیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کو مشکوک سمجھتا اور اسے بھارت کی’ نوآبادی‘ قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک’ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بن گیا ‘ بارے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوسکا اور اس بارے میں جو کچھ مواد ہمیں ملتا ہے وہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سویلین کنٹری بیوشن کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔سابق جرنیلوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا کو فوجی نکتہ نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے کو”دشمن،غداری، اسلحہ کی کمیابی، فوجی قیادت کی نااہلی اور فتح و شکست“ کے سیاق و سباق میں بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ قصہ مختصر کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ اس دن کے موقع پر ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، اگر ملک کی سب سے بڑی پارٹی الیکشن کروانے کے حوالے سے بات کر رہی ہے تو مقتدر حلقوں کو سیاسی استحکام لانے کی غرض سے نئے الیکشن کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لانا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکے۔ ورنہ خدانخواستہ ہم مزید رسوا ءہوتے اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے رہیں گے! اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو!