ہمیں”دشمن مودی “سے سیکھنا چاہیے!

”اس وقت ملک شدید بحرانوں کا شکار ہے“ یہ جملہ ہم ایک عرصے سے سنتے، کہتے اور بولتے آرہے ہیں، مگر مجال ہے کہ ہماری قسمت بدلنے میں کوئی قیادت سامنے آئی ہو۔ یا ہماری بھی ”گڈلک“ نے کبھی کام کیا ہو! ہمارے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے کئی ممالک ترقی کرگئے، مگر ہم افسردگی کے عالم میں کھڑے محض دیکھتے ہی رہ گئے۔ مثلاََ ملائشیا، سنگا پور، چین، انڈونیشیا اور بھارت جیسے ممالک نے ہمارے سامنے ترقی کی ہے،ویسے تو ان ممالک کا اکثر میں اپنے کالموں میں ذکر کرتا رہتا ہوں مگر آج ہم ازلی دشمن بھارت کا ذکر کریں گے کہ وہ ہم سے کس قدر آگے نکل چکا ہے! جی ہاں یہ وہی بھارت ہے جس نے ہمارا جینا دو بھر کردیا ہے، جوچہار سو ہماری برائیاں کرتا نہیں تھکتا، جس نے کشمیریوں پر زندگی تنگ کر دی ہے۔ لیکن وہاں کی قیادت جیسی بھی ہے اپنے وطن کے لیے مخلص ہے۔جبکہ ہمارے یہاں سیاستدانوں کو آپسی لڑائیوں سے ملک ڈوب رہا ہے، ملک ویران ہو رہا ہے، ملک معاشی ہچکولے کھا رہا ہے مگر مجال ہے کسی کو اس کا احساس بھی ہو۔ جبکہ اس کے برعکس بھارت ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ مسلم کش فسادات کروانے والے مشہور فسادی نریند مودی کی قیادت میں ہو رہا ہے۔ نہیں یقین! تو آپ چیک کر لیں کہ بھارت آج ملک میں بنی پہلی الیکٹرک کار پیش کرچکا ہے ، جس سے ابتدائی طور پر فیول کی 30 سے 40 فیصد بچت ہوگی جبکہ پاکستان 75 سال بعد بھی مکمل آٹو مینوفیچرنگ پلانٹ بھی نہ لگا پایا ہے۔ بھارت نے مدھیہ پردیش ریاست میں فلوٹنگ سولر پروگرام کا افتتاح کیا گیا ہے جس سے ابتدائی طور پر 600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جبکہ ہم آج بھی گرمیوں میں 10 سے 20 گھنٹے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ 75 سال بعد آج بھارتی دارالحکومت دہلی میں 2000 سے زیادہ کار چارجنگ پوائنٹ ہیں جہاں نارمل چارجنگ ریٹ 3 روپے فی یونٹ اور فاسٹ چارجنگ 7 روپے فی یونٹ ہے ، انڈیا 2030 تک 80 فیصد الیکٹرک کاریں اور بائیکس استعمال کرے گا۔بھارتی سائنسدانوں نے کامیابی کے مشکل ترین مراحل طے کرکے اپنی چاند پر کمند ڈالنے کی کوشش کرلی جبکہ پاکستان کے سائنسدانوں نے سوائے مذہبی و سیاسی بحث و مباحثے کے حوالے کچھ کارنامہ نہیں دیکھایا ہے۔ بھارت نے 75 سالوں میں نہ صرف اپنی قوم کے لیے ابتدائی تعلیم کے معاملات سدھارے بلکہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔ آج بھارت میں تقریباً 1000 یونیورسٹیز ہیں اور پاکستان میں 100 جامعات ہیں۔یعنی انڈیا نے تعلیمی شعبے میں بے انتہا ترقی کی اور آج دنیا کی 1000 بہترین جامعات میں 41 بھارتی یونیورسٹی ہیں جبکہ پاکستان سے صرف 4 جامعات دنیا کی جامعات میں اپنا مقام بنا پائیں ہیں۔بھارت اپنے جی ڈی پی کا 3.5 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جس کے باعث وہاں شرح خواندگی 80 فیصد تک جا پہنچی ہے اور مملکت عزیز میں جی ڈی پی کا صرف ڈیڑھ فیصد تعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔اسی لیے ہم ابھی تک 50فیصد خواندگی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ٹی ماہرین کو سہولیات دینے میں بھارت سب سے آگے جبکہ پاکستان سب سے پیچھے کھڑا ہے، یعنی پاکستان اس وقت آئی ٹی ایکسپرٹس کے لیے انتہائی برا ترین ملک بن گیا ہے ، جہاں آئی ٹی ماہرین کو سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ، یعنی پاکستان کو زیر وفیسیلیٹی قرار دیا جا رہا ہے جبکہ بھارت اس وقت چوٹی پر ہے جہاں پرسب سے زیادہ سہولیات دی جارہی ہیں۔ تبھی بھارت میں آئی ٹی سیکٹر نے انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے جس کی آئی ٹی سروس کی ایکسپورٹ 70ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے اور بھارتی شہربنگلور آئی ٹی سروس کی ایکسپورٹ کی وجہ سے بھارت کی ”سلیکون ویلی“ کہلاتا ہے جبکہ امریکہ میں ہزاروں بھارتی آئی ٹی پروفیشنلز مختلف کمپنیوں میں ملازمت کررہے ہیں۔ 1968ءمیں قائم کی گئی ٹاٹاکمپنی آج بھارت کی آئی ٹی سروس فراہم کرنیوالی سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے جس کا سالانہ ریونیو تقریباً 11.57 بلین ڈالر ہے اور اس سے 2 لاکھ 55 ہزار افراد روزگار سے وابستہ ہیں۔ اس میں کمال کسی اور کا نہیں بلکہ بھارتی تھنک ٹینکس کا ہے ، جو حکومتوں کے آنے جانے پر اثر انداز نہیں ہوتے جبکہ مودی کو آپ لاکھ برا کہیں مگر اُس کی قیادت میں بھارت نے ترقی کی ہے 2014ءمیں جب مودی نے قیادت سنبھالی اُس وقت انڈیا دنیا کی 19ویں بڑی معیشت تھا جبکہ آج پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ جبکہ ہم اُس وقت دنیا میں 78ویں نمبر پر تھے جبکہ آج ہماری معیشت کا نمبر 100سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ 2014 میں پاکستان 23ارب ڈالر کی برآمدات رکھتا تھا اور بھارت 110ارب ڈالر کی۔ جبکہ آج پاکستان کی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہو کر 19ارب ڈالر اور بھارت کی بڑھ کر 220ارب ڈالر کو پہنچ چکی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ”میک ان انڈیا“ نامی پروگرام جب سے شروع ہوا ہے تب سے بھارت کے ہر ضلع میں نئی نئی مینو فیکچرنگ کی جا رہی ہے۔ یعنی میک ان انڈیا نے 27 شعبوں میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان میں مینوفیکچرنگ اور خدمات کے اسٹریٹجک شعبے بھی شامل ہیں۔ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ (او ڈی او پی) پہلے ملک کے ہر ضلع سے دیسی مصنوعات کے فروغ اور پیداوار میں سہولت فراہم کرنے اور دستکاروں اور ہینڈلوم بنانے والوں، دستکاری، ٹیکسٹائل، زرعی اور پراسیس شدہ مصنوعات کو ایک عالمی پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے ’میک ان انڈیا‘ کے وژن کا ایک اور مظہر ہے،جس سے ملک کے مختلف خطوں کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مزید ملتی ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ کھلونا بنانے کی صنعت میں 1995تک پاکستان دنیا بھر کی انڈسٹری میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا جبکہ پاکستان میں اب یہ مقام چین نے حاصل کر لیا ہے، یعنی ہر قسم کا کھلونا ہم چین سے منگواتے ہیں جبکہ بھارت نے ضروری آئیٹمز کے علاوہ ہر قسم کی چینی آئیٹمز کی ملک میں درآمدات پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس کے علاوہ جب مودی کے دور کا آغاز ہوا تو اُنہیں بولڈ فیصلے کرنا تھے، جو انہوں نے 5سو اور ہزار کے نوٹ بند کرکے کیے۔ اس پر ملک بھر میں بہت تنقید ہوئی، ایک ایک کلومیٹر لمبی لائنیں بنکوں کے سامنے دیکھی گئیں ، لیکن اس پر مودی نے کہا کہ ”میں نے ملک سے صرف پچاس دن مانگے ہیں۔ اس کے بعد کہیں کوئی کمی رہ جائے تو ملک جو سزا دے گا، میں اسے بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔“سوال یہ ہے کہ 8 نومبر 2016 کو نوٹوں پر پابندی کے اعلان کے بعد کئی موقعوں پر وزیر اعظم مودی نے پابندی کی وجوہات اور اہداف وضع کیے تھے کیا وہ صحیح ثابت ہوئے ہیں؟مثلاََ اُن کے ایسا کرنے سے غیر قانونی طریقے سے کمائے پیسے کی روک تھام ہوئی۔ ایسا کرنے سے 3 لاکھ کروڑ روپے، جو پہلے کبھی بینکنگ نظام کا حصہ نہیں تھے ،بینکوں میں آئے۔ دوسرا ایک ارب روپے سے زائد کے جعلی نوٹوں کا چلن ختم ہوگیا۔ تیسرا بدعنوانی، غیر قانونی دولت اور جعلی کرنسی کے خلاف اقدام کرنے میں آسانیاں پیدا ہوئیں، اور سب سے بڑھ کر معیشت کو کیش کریڈٹ سے ڈِیجالائیزیشن کی جانب لانا ممکن ہوا۔پھر وہاں کے باغی گروپوں کو خاصا نقصان پہنچا، اُن کی تو کمر تک ٹوٹ گئی۔ قصہ مختصر کہ مودی خواہ ہمارے لیے ایک دشمن ہے مگر اُس نے اپنی قوم کے لیے بہت کچھ کیا ، پھر اُس نے 5اگست 2019ءکے کشمیر میں ہوئے اقدام کی وجہ سے بھارت میں خاصی شہرت حاصل کی، اُس کے ایسا کرنے سے ہم لاکھ بڑھکیں ماریں مگر اُس نے کشمیر کے آزادی پسندوں کی کمر توڑ دی۔ اب کوئی مانے یا نا مانے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پہلے سے کشمیر آزادی کی تحریک میں یقینا کمی واقع ہوئی ہے۔ پھر اُس نے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جس میں وہ سو فیصد کامیاب بھی رہا۔ اور پاکستان کو کئی جگہ پر جوابدہ ہونا پڑا۔ پھر اُس نے عالمی سطح پر لابنگ کے ذریعے پاکستان کومعذرت کے ساتھ ”نتھ“ ڈالی ۔ جیسے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان پر دباﺅ ڈلوانے اور اپنے من پسند اقدام کرنے میں بھی کامیاب ہوا۔ اُس نے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور دنیا کو دکھایا کہ ذاتی مفاد کے سامنے مذاہب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بہرکیف دشمن کی صلاحیتوں کا جب تک ہم اعتراف نہیں کریں گے، اُس وقت تک آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو دشمن کی صلاحیت کو جاننا، جانچنا اور پرکھنا ہوگا تبھی ہم کسی بھی فیلڈ کے ماہر بن سکتے ہیں، پھر ہمیں اپنی کمزوریوں پر بھی نظر ڈالنا ہوں گی کہ ہم کہاں کہاں کمزور ہیں جیسے آج پاکستان کے زمبادلہ کے ذخائر 7ارب ڈالر کو پہنچ چکے ہیں جبکہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 500ارب ڈالر کی حد کو چھو رہے ہیں۔ پھر دنیا کی 20امیر ترین کمپنیوں کے سی ای اوز بھارتی ہیں۔ جبکہ ماسوائے اکا دکا ممالک میں جہاں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر ہیں سبھی جگہ ہمیں بھارتی ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی تنگ نظر ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بعض جگہوں پر دشمن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں ایک عرصے سے سیاسی استحکام ہے۔ کوئی ادارہ دوسرے ادارے میں مداخلت نہیں کرتا۔ کسی کی جرا¿ت نہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کو براہ راست مخاطب کرسکے۔ کسی کی جرا¿ت نہیں کہ وہ آرمی چیف یا چیف جسٹس کو پریس کانفرنسوں میں ڈسکس کر سکے۔ اور پھر آرمی چیف یا سپریم کورٹ کی بھی جرا¿ت نہیں کہ وہ سیاسی اداروں میں مداخلت کر سکیں! لہٰذااگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ مودی جی سے ہی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی قوم سے خیر خواہی کیسے کی جا سکتی ہے؟ باقی آگے آپ فیصلہ خود کر لیں!