یہ عذاب نہیں ”مس مینجمنٹ “ ہے ! اس لیے انہیں بہہ جانے دو!

جنہوں نے کچھ نہیں کرنا اُنہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ بھئی یہ سیلاب ہمارے نامہ اعمال کی وجہ سے ہے، اگر ایسی بات ہے تو ساری اسمبلیاں، سارے کرپٹ سیاستدان، سارے کرپٹ حکمران، فیصلہ کرنے والوں کے ادارے اور عدالتیں سلامت کیوں ہیں؟ درحقیقت ایسا نہیں ہے،،، میرے خیال میں انسان کو دنیا میں جو چیز بنی بنائی ملی وہ ”Nature“ یعنی فطرت ہے، یہ ”نیچر“ کبھی پرسکون رہتی ہے، کبھی اس میں بدلاﺅ آتا ہے اور کبھی یہ یک لخت کروٹ بدلتی ہے۔ مطلب! یہ تو نیچر ہے اور اس کے قوائد و ضوابط بھی یہی تھے، یہی ہیںاور یہی رہیںگے۔ لیکن ہم اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کرتے ہیں اور اس کی خوبصورتی کو گہنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، بدلے میں وہ ہم سے ”ٹکر“ لینے کے لیے سیلاب، زلزلے اور طوفانوں لے آتی ہے جسے بسا اوقات انسان برداشت کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ آپ زمین کے خطہ پاکستان کو دیکھ لیں جیسے ہی درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، ویسے ہی نیچر نے کروٹ لی اور مون سون کی بارشوں میں پہلے سے زیادہ شدت آگئی۔ ہم نے بجائے اس کے کہ اس خطہ میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ تلاش کی جائے ہم نے سارا زور اس پر لگا دیا کہ شاید یہ اللہ کا عذاب ہے۔ حالانکہ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ یہ آفت نہیں بارش ہے، جو کبھی زیادہ ہوگی تو کبھی کم۔ اب ہم اگر پانی کے راستے پر بڑی بڑی غیر قانونی بلڈنگز کھڑی کر لیں گے اور پانی اُنہیں بہا لے جائے گا تو یہ اللہ کا عذاب نہیں بلکہ انسانی غفلت، انسانی کرائم، انسانی بے حسی اور انسانی جبلت کی اعلیٰ مثال ہے! آج وطن عزیز کے حالات یہ ہیں کہ بارش کے سیلابی ریلوں کے پانیوں نے تو سب حدیں ہی مٹا دیں۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ سمجھنا دشوار ہے کہ کہاں مکان تھے، کہاں کھیت تھے اور کہاں ڈھور ڈنگر تھے۔الغرض چاروں صوبوں میں آپ تباہی کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ بلوچستان میں سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہائے لیے جا رہے ہیں۔ صورت حال مزید تشویش ناک اس وقت ہوتی ہے جب تمام سیاسی و حکومتی انتظامیہ سوتی رہے۔ سیاست باز سیاست کرتے رہیں۔ متاثرین کی امداد کی بجائے فنڈز کو اقتدار کی ڈوبتی ٹوٹی ناﺅ اور پتوار کو بچانے میں خرچ ہوتے کرتے رہیں۔اور سرکار کہتی رہے کہ یہ اللہ کا ”عذاب“ ہے۔ ہمارے نامہ اعمال کا عذاب ہے! بندہ پوچھے کہ اللہ کا عذاب غریبوںپر ہی آنا ہے؟ مطلب کرپشن بڑے کریں اور عذاب عوام پر ! اور پھر اگر عذاب ہی آنا ہوتا تو اُن کرپٹ افراد پر آتا جو ملکی پیسہ لوٹ کر فرار ہوگئے، عذاب ہی آنا ہوتا ہوتا تو اُن لوگوں پر آتا جن کے فیصلوں اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، عذاب ہی آنا ہوتا تو غلط فیصلے کرنے والے ججز پر آتا، عذاب ہی آنا ہوتا تو اُن ”لوٹے“ سیاستدانوں پر آتا جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے وفاداریاں بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ عذاب آتا تو ملاوٹ کرنے والوں اور زیادتی کرنے والوں پر آتا، عذاب آتا تو غیر قانونی منافع کمانے والوں پر آتا، عذاب آتا تو کالا باغ ڈیم نہ بنانے والوں پر آتا، بلکہ میں تو یہ کہوں گاکہ اگر عذاب آتا تو ہمارے ملک کی پانچوں اسمبلیاں نہ بچتیں۔ عذاب ہی آنا ہوتا تو اُن پر آتا جنہوں نے دریا کنارے ہوٹل بنانے کے لیے غلط لائسنس جاری کیے۔الغرض ہم لوگ آج بھی اپنی کوتاہیوں کو مذہب کے ساتھ جوڑکر خطرناک عمل سے کھیل رہے ہیں۔ یقین مانیں ایسی ایسی ویڈیوز منظر عام پر آرہی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ پھر اس میں جعل ساز بھی کود پڑے ہیں جو غلط فہمیاں زیادہ پھیلا رہے ہیں جیسے ایک ویڈیو نظر سے گزری کہ سیلاب کو لوگوں نے قرآن پاک دکھایا، پھر زمین پھٹی اور سیلاب اُس پھٹی ہوئی زمین میں چلا گیا! مطلب یہ کیا تھا؟ یعنی بجائے ہم اس چیز کہ ٹھوس منصوبہ بندی کریں ہم مذہب کو درمیان میں لا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ سیلاب اللہ کا عذاب نہیں بلکہ ہماری ”مس مینجمنٹ “ اورغفلتوں کا نتیجہ ہے، نہ تو ہم پانی کو Saveکر سکتے ہیں نا اس سے کام لے سکتے ہیں اور نہ ہی اس نعمت کا صحیح انداز میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت ہم نہ ان آفتوں کے آگے بندھ باندھ رہے ہیں اور نہ ہی ان کا سد باب کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کا سدباب کیسے ہو؟ اس کی مثال آپ جاپان سے لے لیں، جہاں خطہ زمین کے سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں اور یہ زلزلے پاکستان میں آنے والے 2005ءکے زلزلوں جتنی شدت (7.1-7.9) رکھتے ہیں۔ لیکن وہاں کبھی جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ یوں کہہ لیں کہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بلکہ کیا کسی کو علم ہے کہ گزشتہ سال جاپان ہی میں 24سے زائد بڑے چھوٹے زلزلے آئے مگر کہیں شور نہیں ہوا، کہیں جانی نقصان نہیں ہوا۔ بلکہ اُنہوں نے ”فطرت“ کو اپنا دشمن بنانے کے بجائے اُس کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ وہاں اُنہوں نے حادثات سے بچنے کے لیے زلزلہ پروف عمارتیں بنا رکھی ہیں، سونامی سے بچنے کے لیے کنکریٹ کی بسیمنٹ بنا رکھی ہیں اور جہاں طوفانوں کا خدشہ ہو وہاں کی عمارتوں کے شیشے بھی بلٹ پروف قسم کے بنائے جاتے ہیں۔ یہی حال یورپ کا ہے، جہاں ہر سال شدید برف باری ہوتی ہے مگر اُنہوں نے ایسے انتظامات کر رکھے ہیں کہ کبھی کوئی سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ مگر یہاں آج ایک بار پھر آدھا پاکستان ڈوب چکا ہے، 12ارب ڈالر کے نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے، مطلب جو پاکستان ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہو ئے تھا اُسے مزید 12ارب ڈالر کے نقصان کا دھچکا لگا ہے۔ بلکہ ایک امریکی تھنک ٹینک ”ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ“ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں اندازاً سات لاکھ 15 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کا سالانہ نقصان تقریبا ایک فیصد یعنی 1.7 ارب ڈالر تک ہوتا ہے۔ اس کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں 2030ءتک پاکستان میں سالانہ 2.7 ملین افراد دریائی سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں‘ تاہم ملک میں خستہ حال ارلی وارننگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے اور سیلابی خطرات سے متاثرہ شہروں میں سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، بلکہ یہاں تو اُلٹا انسانی المیوں نے جنم لیا ہوا ہے.... پشاور میں ڈوبنے والی بچی اٹک سے مل رہی ہے،ڈیرہ غازی خان میں لاشوں کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔تین کرو ڑ سے زائد آبادی کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔2010میں آنیوالے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے،جس میں تقریبا دو کروڑ شہری متاثر ہوئے تھے مگر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے 2010ءکے سیلاب کے ریکارڈ بھی توڑ دئیے ہیں۔مگر حیرت یہ ہے کہ ہم بے شرموں کی طرح اپنی غفلت چھپانے کے لیے ان بارشوں کو اللہ کا عذاب کہہ کر اپنے آپ کو وقتی دلاسا دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈیم نہیں بن رہے جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ایک ایک دریا پر سینکڑوں ڈیم بنا کر بجلی پیدا کر رہا ہے اس وقت بھارت میں 5ہزار چھوٹے بڑے ڈیم بجلی پیدا کر رہے ہیں، جاپان میں 5لاکھ ڈیم بجلی بنا رہے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں 73 ورکنگ ڈیم ہیں جن میں سے 60 گزشتہ صدی میں مکمل ہوئے تھے۔ان میں سے 13گزشتہ عمران خان کی حکومت میں بنائے گئے تھے یا ابھی بھی بن رہے ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ دور میں اس شعبے میں ہونے والا بیشتر کام ابھی زبانی جمع خرچ یا تکمیل کے مرحلوں میں ہے۔ ہاﺅسنگ سوسائٹی مافیا، چائنا کٹنگ کے ماہرین اور کچھ مراعات یافتہ ریاستی محکموں نے پہلے سے موجود آبی ڈھانچے کا ستیاناس کر دیاہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آج بھی سیلاب آنے پر افسردہ نہیں ہیں بلکہ بادی النظر میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں موجود روایتی سیاستدانوں کی تو چاندی ہوگئی ہے، اُن کے چہرے تو خوشی سے کھلے ہوئے ہیں، انہوں نے فنڈز کھانے ہیں، جو باہر سے امداد آئے گی وہ انہوں نے کھانی ہے۔ وہ کرنے کے کام سے ہٹ کر بار بار عالمی برادری کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ڈالرز بھیجے۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو عرصہ دراز سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں، پیپلزپارٹی گزشتہ 14سال سے سندھ میں حکومت میں ہے، مگر مجال ہے کہ کہیں کوئی ڈیم بنایا گیا ہے، یا سیلاب روکنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہو، ن لیگ گزشتہ 10سال پنجاب پر حکومت کر کے گئی ، مرکز میں بھی انہوں نے پانچ سال حکومت کی مگر مجال ہے کہ نہ تو سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی اور نہ ہی ڈیم بنانے یا سستی بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی کام کیا۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ 2005کے زلزلے کو گزرے 17سال گزر گئے مگر آج بھی ان سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے، جیسے ڈیلی میل کی خبر کے مطابق ہمارے رہنما و وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے برطانوی امداد میں سے پیسے چرا کر برطانیہ میں شریف خاندان کے اکاو¿نٹ میں بھیجے۔ پھر یوسف رضا گیلانی پر بھی 2010ءکے سیلاب کے پیسے کھانے کے الزامات کسے یاد نہیں۔ بہرکیف یہ سیلاب عذاب نہیں ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہے، ہر ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک ادارہ ہوتا ہے، پاکستان میں بھی اسی قسم کا ایک ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے )2005کے زلزلے کے بعد بنایا گیا تھا، جس کا کام قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنا ہے لیکن اس ادارے کے پاس بھی نہ تو جدید ٹیکنالوجی اور آلات ہیں اور نہ ہی مطلوبہ وسائل ہیں۔ جو وسائل اسے مہیا کئے جاتے ہیں ، اس کے استعمال کے اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں۔نہلے پر دہلا یہ کہ اس کے سابق سربراہ پر کروڑوں روپے کرپشن کے الزامات لگ چکے ہیں، پھر حیرت ہوتی ہے لوگوں کی سوچ پر اگر عذاب آنا ہوتا تو ان جیسے لوگوں پر سب سے پہلے آتا جو لوگوں کی زکوة کی رقوم کو بھی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پھر پاکستان میں فلڈ کمیشن کی سن لیں جس نے چوتھا فلڈ پروٹیکشن پلان دیا ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ تقریباً ہر دس سال بعد بڑا فلڈ آتا ہے اور ہر بار پہلے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔لیکن ادارہ بھی قائم ہے، لوگ تنخواہ بھی بٹور رہے ہیں اور الا ماشاءاللہ عذاب سے بھی بچے ہوئے ہیں!لہٰذافقط عالم مایوسی میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اس ملک پر اللہ رحم فرمائے (آمین)