عمران خان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان پر غور کریں!

خان صاحب نے اپنی سیاست میں ایک اور سرپرائز دیتے ہوئے دونوں صوبائی اسمبلیوں(پنجاب اور کے پی کے) اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کے بارے میں مشاورت کا اعلان کردیا ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف کے استعفوں کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 123 نشستوں، پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں، خیبر پختونخواہ کی 115 نشستوں، سندہ اسمبلی کی 26 اور بلوچستان کی دو نشستوں یعنی کل 563 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔جو ناممکنات میں سے ایک ہے ۔لہٰذاحکومت فوری طور پر جنرل الیکشن کی طرف جائے گی ، لیکن اُس سے پہلے حکومت بھی کچھ نہ کچھ ”کاروائیاں“ کرے گی اور اسی طرح نئے سیاسی بحران جنم لیں گے! اور آخرمیں شاید عمران خان کامیاب ہو جائیں گے۔ خیر آپ سب کچھ ایک طرف رکھیں اور فرض کریں کہ نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور اگلے سال جنوری فروری میں الیکشن طے پا جاتے ہیں اور اس وقت کی صورتحال کے مطابق جس کے بارے میں سبھی طبقات متفق ہیں کہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو ایسے میں خان صاحب کیا کریں گے؟ کیا اپنی سابقہ ٹیم کے ساتھ میدان میں اُتریں گے؟ یا نئی ٹیم ترتیب دیں گے؟یا وہی آئی ایم ایف سے سٹیٹ بنک کے گورنرز ادھار لیں گے،یا وزیر خزانہ امپورٹ کریں گے؟ یا وہی عثمان بزدار جس پر ہر فرد نے تنقید کی اور حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کو پنجاب کے وسیع و عریض میدان میں اُتاریں گے؟ یا وہی اسمبلیوں سے من پسند قانون سازی نہ ہونے کا شکوہ کرتے نظر آئیں گے؟ یا بار بار اپنی ٹیم میں مقتدر حلقوں کے کہنے پر تبدیلیاں کریں گے؟ یا اُسی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے مخالفین سے پیسے نکلوانے کے لیے کروڑوں روپے مزید خرچ کریں گے، جو ٹیم آج کل عمران خان اور اُن کی ٹیم پر دن رات کیسز لے کر چڑھائی کیے ہوئے ہے؟ ان سوالات کے جوابات یقینا خان صاحب ہی دے سکتے ہیں جنہوں نے ایک نہیں کئی کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ یہی کام ملائشیاکے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کیا تھا جنہیں حال ہی میں 53سال بعد اپنی ہی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی ہے۔ مہاتیر اپنی انہی دقیانوسی پالیسیوں کے سبب اپنے ہی حلقے میں پانچ اُمیدواروں میں سے چوتھے نمبر پر آئے ہیں۔ حالانکہ مہاتیر محمد کے پاس دنیا کے معمر ترین وزیراعظم ہونے کا گنیز ورلڈ ریکارڈ ہے، جب وہ طویل عرصے بعد 2018 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، اس وقت ان کی عمر کے 93 برس مکمل ہونے میں صرف 2 مہینے رہ گئے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ مہاتیر کو آغاز میں ہی کامیابیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں بلکہ اُنہیں 1981 سے 2003 تک جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوں نے دنیا کے ہائی ٹیک مصنوعات برآمد کرنے والے سرفہرست ممالک میں شامل کرا دیا۔مہاتیر محمد کی طویل لیڈرشپ کی وجہ سے سیاسی استحکام آیا اور انہیں ”جدید ملائیشیا کے بانی“ کا لقب دیا گیا، ان کے دور میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں ہائی ویز اور انڈسٹریل پارکس کی تعمیرات ہوئیں۔مگر عمر کا تقاضا سمجھ لیں ،ہر ادارے پر تنقید، اقتدار کی ہوس یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی یہی چند وجوہات تھیں کہ مہاتیر محمد نے عمر کے آخری حصے میں شکست کھائی۔ اُن کی ابھی تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ، اتحادی سیاسی پارٹیاں، عام عوام اوردیگر اداروں سے ان بن چل رہی ہے۔ اُن کے 50سالہ سیاسی کرئیر میں آج تک براہ راست کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا، لیکن اقتدار میں آنے کے لیے آپ کاصرف ایماندار ہونا ضروری نہیں بلکہ آپ سے جڑے ہوئے لوگوں کا پاک دامن اور قابل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذااگر خان صاحب کی بات کی جائے تو اُنہوں نے حقیقت میں کئی محاذ کھول رکھے ہیں، وہ اس وقت صرف عوام پر ہی اکتفا کرکے بیٹھے ہیں۔ تبھی تو خود عمران خان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں، گزرے چھ سات مہینوں میں جو مقاصد عمران خان نے سیٹ کیے تھے،جن کے لیے انہوں نے سب کوششیں کیں، بیانیے بنائے، جلسے جلوس اور لانگ مارچ کیے، وہ نتائج دینے میں ناکام رہے۔وہ الیکشن چاہتے تھے، نہیں ملے، نومبر سے پہلے وزیراعظم بن کر آرمی چیف لگانا چاہتے تھے نہ لگا سکے۔ پھر جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع کے حق میں تھے تاکہ وہی نئے الیکشن کرائیں، لیکن وہ بھی نہ ہوسکا۔ الیکشن کمشنر سے استعفیٰ چاہتے تھے وہ بھی نہ ملا۔ 26 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا پلان تھا مگر لوگ میلے ٹھیلے کی طرح جلیبیاں کھا کر گھروں کو روانہ ہوگئے! اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے اپنی وہ بات درست ثابت کر دی کہ اقتدار سے نکل کر وہ خطرناک ہو جائیں گے۔ وہ واقعی نہ صرف موجودہ حکومت کے لیے خطرناک ہوئے ہیں ،ان چھ ماہ میں حکومت نے بہت کچھ کھویا ہے اور خان نے بہت کچھ پایا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اہم عہدوں پر اس وقت وہ لوگ تعینات ہیں جن سے خان صاحب کو ذاتی پرخاش ہے۔ لیکن میں پھر بھی یہی کہتا ہوں کہ اگر ان تمام مسائل کے باوجودآج الیکشن کا اعلان ہو جاتا ہے تو جیت یقینی طور پر عمران خان کے حصے میںآئے گی۔ لہٰذاخان صاحب کو چاہیے کہ وہ حکومت (پی ڈی ایم) کی مذاکرات کی پیشکش کو نہ ٹھکرائیں اور اسمبلیوں میں واپس جائیں تاکہ الیکشن اصلاحات ہوسکیں اور بہترین قیادت اس ملک کے استحکام کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ کیوں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بنایا جا رہا ہے ، بھارتی میڈیا نے جس بھونڈے انداز میں ہمارے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو موضوع بنائے رکھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پھر غیر ملکی مصنّفین اور مورخین نے کتابوں کے نام بھی ایسے رکھے رہے ہیں۔ The Warrior State، یا یہ بھی دیکھ لیں کہ Pakistan A Garrison State، یا مزید یہ کہ A Hard Country، یا POOR Pakistan۔ مطلب! شرم تو ہمیں آنی چاہیے جنہوں نے اس ملک میں رہنا ہے ، ان حکمرانوں کو شرم اس لیے بھی شاید نہیں آتی کیوں کہ انہوں نے کونسا اس ملک میں رہنا ہے۔ لہٰذابادی النظر میں اگر خان صاحب غور کریں تو معاشی عدم استحکام کا اُن کو بھی نقصان ہو گا کیوں کہ اگر وہ ایک سال بعد بھی اپنی حکومت بناتے ہیں اور اُنہیں انتہائی خراب معیشت ملتی ہے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور اُن کی حکومت نہیں چل سکتی، چاہے وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ بھی آئندہ الیکشن جیت جائیں۔ پی ڈی ایم کے لئے مناسب ہو گا کہ بجائے اس کے کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ساتھ اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کی ضد کریں، عمران خان کو بات چیت کی دعوت دیں اور آئندہ سال جون میں الیکشن کروانے کے بارے میں سوچیں۔ بات چیت سے سیاسی استحکام بھی آئے گا اور معاشی صورتحال بھی مزید ابتری سے بچ جائے گی۔ سیاست دانوں میں اقتدار کے حصول کی رسہ کشی تو کبھی ختم نہیں ہونے والی، پاکستان اور عوام کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ دونوں فریق بات چیت کے ذریعے الیکشن کا فیصلہ کریں جو جون میں ممکن ہو سکتا ہے لیکن اس دوران پاکستان کی معیشت، بہترین طرز حکمرانی،حکومتی اداروں کو عوامی مسائل کے حل کرنے کے لئے فعال بنانے، جلد انصاف کی فراہمی، پولیس و افسر شاہی کو غیر سیاسی کرنے جیسی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کریں جو پاکستان اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ چاہتے تو ہیں کہ اسمبلی میں واپس جائیں کیونکہ جس طرح کی مزاحمتی سیاست ہو رہی ہے ملک مسلسل ان حالات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خود کہتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ سیاسی استحکام کیسے آئے گا۔ جب وہ روزانہ اداروں اور حکومت کو برا بھلا کہتے رہیں، لوگوں کو یہ بتائیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ان حالات میں استحکام کیسے آئے گا۔ یا پھرعمران خان کے سیاسی استحکام کا مطلب صرف ان کی حکومت اور ملک میں پاکستان تحریکِ انصاف کی شکل میں صرف ایک سیاسی جماعت کا وجود ہے اگر وہ ایسا چاہتے ہیں تو ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ ملک کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ کروڑوں لوگوں کے اس ملک میں جہاں ہر صوبے کی اپنی ایک سیاسی تاریخ ہے وہاں یہ کیسے ممکن ہے آج بھی عمران خان یہی بات کر رہے ہیں کہ حکمرانوں سے بات نہیں ہو سکتی اس طرح تو سیاسی استحکام نہیں آ سکتا اور اگر پی ٹی آئی حکومت میں آتی ہے تو پھر وہ ان سے بات نہیں کریں گے یونہی سلسلہ چلتا رہے گا تو بات کیسے آگے بڑھے گی۔ سیاسی استحکام کے لیے عمران خان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا انہیں یہ ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے رہنے کے بجائے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہو گا۔ صرف دوسروں کو للکارنے، روزانہ برا بھلا کہنے سے لوگوں کو ذہنی مریض تو بنا سکتے ہیں تعمیر کی طرف نہیں جا سکتے۔ سیاسی استحکام کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کو قبل از وقت انتخابات نظر نہیں آ رہے جیسا کہ ان کی طرف سے یہ سننے کو بھی مل رہا ہے کہ انتخابات اکتوبر تک جا سکتے ہیں جب یہ واضح ہو رہا ہے تو پھرفی الوقت عمران خان کو اگلے الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے، اُنہیں پارٹی کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا چاہیے، اُن کی پارٹی کے اندر سینکڑوں قسم کے اختلافات ختم کرنے چاہیے۔ اس دوران پی ڈی ایم جو پہلے ہی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ایکسپوز ہو چکی ہے ، عوام کے سامنے مزید آشکار ہوجائے گی۔ لہٰذاخان صاحب فوری طور پر پارلیمنٹ میں جائیں لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، خود کو سب سے بہتر، افضل سمجھنا بند کریں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد آپ کے ساتھ ہے اس کی درست سمت رہنمائی کریں۔ نوجوانوں میں نفرت کے بیج نہ بوئیں انہیں ملک اور اداروں سے محبت کا سبق دیں۔ آپ کا ہونا اس ملک کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا پاکستان ہمارے لیے۔ آپ لوگوں کی اُمید ہیں ، اگر خدانخواستہ یہ اُمید ٹوٹی تو ملک بڑی تباہی کی طرف چلا جائے گااور ہمارے حصے میں ایک بار پھر کرپشن آجائے گی!