تحریک عدم اعتماد: پایا کچھ نہیں صرف کھویا ہی کھویا!

آج 10اپریل ہے، 3سال قبل تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا، جس کے بعد جمہوریت کیا، عدلیہ کیا، مقننہ کیا، صحافت کیا سب کچھ بدل گیا۔ یہ تین سال ڈکٹیٹر شپ سے بھی بدتر گزرے۔ سنا تھا ہاتھوں سے دی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اِدھر کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ اگر دانت لگانے کی کوشش کی تو توڑ دیں گے۔ ویسے بھی گرہیں کھولنے کی کیا ضرورت ہے رسیاں ہی جلا دی گئی ہیں۔ ایک شخص کا خوف ہمارے ملک کو ایک اندھی گہری کھائی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ کھائی میں جھانکیں تو 78 سال سے ہمارے حکمرانوں کے کالے کرتوت ہمیں واپس گھورتے ہیں۔ان تین سالوں میں ملکی حالات تو بدلے سو بدلے ہمارے گھروں کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔ غربت 15فیصد تک مزید بڑھ چکی ہے، جبکہ ان تین سالوں میں ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ ہمارا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ الیکشن کروانے ہیں یا نہیں اور اگر کروائے ہی ہیں تو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو کیسے باہر رکھنا ہے، لیکن پھر بھی وہ کسی صورت بھی اگر اس سسٹم میں گھُسنے کی کوشش کرے تو اُسے کیسے پیچھے دھکیلنا ہے! ان تین سالوں میں اگر کچھ نہیں بدلا تو ریاست کو چلانے والوں کی روش نہیں بدلی، وہ پہلے دن بھی سبق سکھانے کے پے در پے تھے، اور آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ان تین سالوں میں ہم نے اپنی جمہوری سیاسی جماعتوں خاص طور پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے تیور دیکھے ،،، جن کی ایک ہی خواہش رہی کہ بانی تحریک انصاف کو سبق سکھایا جائے۔ یاد دلاتا چلوں کہ انہی مذکورہ سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پسند لوگ بھی جو ہر وقت بنیادی انسانی حقوق اور حق رائے دہی کا درس دیتے رہتے ہیں وہ بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتے رہے کہ الیکشن ہوتے رہیں گے پہلے ”بانی“ کو ڈنڈا ڈولی کر کے مستقل جیل میں ہی رکھنے کا بندوبست کرو،،اور پھر جیل کے دروازے کی چابی سمندر میںپھینک دو،،،عدلیہ کو قابو میں کرو مقدمے پر مقدمے بناﺅ اور ہو سکے تو اس کے حامی ججز کو بھی منظر عام سے ہٹا دو ۔ ان تین سالوں میں ہم نے وہی تاریخ دیکھی جو گزشتہ ڈکٹیٹر شپ کے ادوار میں دیکھتے رہے ہیں،،، ہماری ان کن انکھیوں نے دیکھا کہ ہمارے ادارے، ہماری عدلیہ، ہماری اشرافیہ قانون کی ناک موڑنے، جمہوریت کو کان سے پکڑ کر اپنی مرضی کے راستے پر لگانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے،،، یقین مانیں ان تین سالوں میں تو میں کئی مرتبہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ کیا واقعی ایسا بھی ہوسکتا ہے! ہم نے تو اس عرصے میں پولیس کے تیور بھی ایسے بدلتے دیکھے کہ انہوں نے نہ آﺅ دیکھا، نہ تاﺅ دیکھا سب کو ایک ہی چھڑی سے ہانکا۔ اور ابھی تک ہانک رہے ہیں،،، نہ کہیں چادر اور چار دیواری کا خیال رکھا اور نہ کہیں کسی کی بہن بیٹی کی عزت کا خیال رکھا۔ بس ایک ہی دھن سوار رکھی کہ فلاں جماعت کے کارکنوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دینا۔ قصہ مختصر کہ ان تین سالوں میں ہم نے پوری زندگی کا نچوڑ دیکھا کہ اداروں کی کمان بے شک نئی ہو لیکن ان کے ”پیار“ کے طریقے پرانے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ملک میں ہر وقت سیٹھوں، سیاستدانوں اور ججوں کی ایک پود موجود ہوتی ہے جو وسیع تر ملکی مفاد میں ذلت اٹھانے اور مال بنانے کو ہمیشہ تیار رہتی ہے ،،، ان میں آپ صحافیوں کو بھی شامل کرلیں،،، کیوں کہ یہ وہ میرا ہم عصر طبقہ ہے جو نہ تو حکومتیں بناتا ہے، نہ گراتا ہے،بلکہ یہ صرف چھوٹے موٹے مفادات کی خاطر اور مخالفت برائے مخالفت کی خاطر کسی بھی جماعت سے جڑ جاتا ہے۔ اور پھر ان تین سالوں میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ملک کے سب سے بڑے ادارے کے خلاف ہوچکا ہے،،، یعنی ہمارے محب وطن ادارے اگر سوشل میڈیا پر اسلام علیکم بھی کہہ دےں تو ایسی گالیاں پڑتی ہیں جو کبھی پاکستان توڑنے کے خواب دیکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئیں۔ پھر ان تین سالوں میں مہنگائی کے جو ریکارڈ بنتے دیکھے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں، آپ برآمدات کی بات کر لیں، کووڈ 19کے بعد برآمدات میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا، پھرانہی سالوں میں پاکستان کی دنیا بھر میں ”درآمدات“ کے حوالے سے جگ ہنسائی ہوئی، پاکستانی پورٹ پر ہزاروں کنٹینر کھڑے رہے مگر ہمارے پاس دینے کے لیے ڈالر نہیں تھے۔ ہمارا زر مبادلہ آج بھی ہمسایہ ممالک کے پیسوں پر کھڑا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کو اس شرط پر پیسے دے رکھے ہیں کہ انہیں صرف اکاﺅنٹس میں رکھیں مگر آپ انہیں خرچ نہیں کرسکتے۔ یعنی اسٹیٹ بنک کے مطابق اپریل 2022 میں ملک کے پاس مجموعی طور پر 16.4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جن میں سٹیٹ بینک کے پاس تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔ملک کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں کی وجہ سے ان میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی اور مارچ 2023کے مہینے کے اختتام تک یہ ذخائر 9.7 ارب ڈالر رہ گئے جن میں مرکزی بینک کے پاس 4.2 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5.5 ارب ڈالر کے ذخائر تھے ۔اور آج 2025ءمیں بھی ہمارے پاس چین، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کے پیسے بطور رہن رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فی الوقت خزانہ خالی ہے۔ پھر آپ شرح سود کی بات کر لیں ، تو ان تین سالوں میں ہم نے 22فیصد تک شرح سود کا سفر بھی کیا، جس کا مطلب ہے کہ آپ ڈیفالٹ کرچکے تھے، مگر اعلان نہیں کیا گیا۔ حالانکہ عالمی اسٹینڈر 4فیصد شرح سود سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور پھر آپ پٹرولیم مصنوعات کی بات کرلیں تو شہباز حکومت نے اس کام میں بڑی مہارت اور سرعت دکھائی۔ اپریل 2022میں پٹرول کی قیمت 149.86 روپے لیٹر تھی جب کہ ڈیزل کی قیمت 144.15 روپے تھی۔آج یہ دونوں ڈھائی سو سے اوپر فی لیٹر ہیں اور یہ تین سو روپے تک کی یاترا کرکے واپس آئی ہیں۔ ان مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ایک مہینے میں 30، 30روپے تک اضافہ کیا گیا۔ حتیٰ کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح 49فیصد پر پہنچا دی گئی ،،، دوسرے ملکوں میں یہ شرح 5سے 7فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔ مطلب بقول شاعر کس کو سناو¿ں حال غم کوئی غم آشنا نہیں ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں بہرکیف اپریل کا مہینہ ہماری تاریخ میں سیاہ تاریخ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جب چلتی ہوئی حکومت کو مقتدر قوتوں نے لٹیروں کے ساتھ مل کر گھر بھیجا۔ ویسے تو یہ مہینہ یعنی 10اپریل 1986ءکا دن بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب جمہوریت کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی جلاوطنی کے بعد لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا اور مینارِ پاکستان میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کیا تھا۔ پھر یہی مہینہ سانحہ اوجڑی کیمپ کی یاد بھی تازہ کرتا ہے جب 10اپریل 1988کو راولپنڈی اور اسلام آباد دھماکوں سے گونج اُٹھے تھے۔ ابھی لوگ دھماکے کی وجہ جاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ ہر طرف سے ان پر راکٹوں اور میزائلوں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ قیامت کی وہ گھڑی جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد میں اوجڑی کیمپ کے اندر اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ کے باعث بم پھٹ رہے تھے۔اس سانحہ میں درجنوں ہلاکتیں اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے تھے۔ خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ لیکن بات گزشتہ 3سالوں کی ہو رہی تھی،،، تو جناب ! یہ بات سب جانتے ہیں کہ پچھلے ایک ہزار دن ہم پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ لوگ اب اپنے بارے میں پریشان ہیں، گزارہ کیسے ہوگا‘ امن و امان کی کیا صورت بنے گی‘ گاڑیوں اور گھروں کی بات چھوڑیں‘ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی خریداری عام لوگوں کے ہوش ا±ڑا دیتی ہے۔ ہم اور ہماری قوم کئی سانحوں‘ المیوں اور بحرانوں سے گزری ہے‘ مگر موجودہ سرکار نے معاشرے اور معیشت کو جس تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا‘ سوچتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ایک اور چیز کا ذکر کرنا تو میں بھول ہی گیا کہ ان تین سالوں میں جو کمالات اور ہنر مندیاں انہوں نے اپنے مقدمات‘ احتسابی قوانین اور حکومتی اداروں میں تعیناتیوں کے سلسلے میں دکھائی ہیں‘ وہ سب متحدہ محاذ برائے باہمی اعانت کی عنایات ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ اب موجودہ حکمرانوں پر ایک بھی کرپشن کا مقدمہ باقی نہیں رہا اور بقول شیخ رشید کے کہ تحریک انصاف کی قیادت، کارکنوں اور اُن کے خاندانوں پر ان تین سالوں میں 36ہزار مقدمات درج ہوئے ہیں۔ بہرکیف کانوں کو ہاتھ مت لگائیے! کیوں کہ ہم تو بے بس ہیں اور عوام بھی اپنے جیسے بے بس جبکہ وہ جو کچھ اس ملک اور قوم کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں ان کو بھی بے بس پاتے ہیں۔ طاقت کے اس کھیل کے ہم تماشائی رہے ہیں۔ الغرض ہم اس صورتحال سے نکل بھی سکتے ہیں۔ سیاسی منشا‘ سنجیدگی اور خلوص شرط ہے۔ سیاسی خزانے کی کنجی ایک ا ور صرف ایک ہی ہاتھ میں ہے‘ باقی کہانیاں ہیں۔ آنے والے دنوں کا جو بھی خاکہ بنے‘ فیصلے اسی جگہ پر ہوں گے۔ حالات کا ر±خ جو بھی متعین ہو‘ ہر پاکستانی اور ہمارے جیسے سیاست کے طالب علموں کی نظریں اسی جانب اٹھیں گی۔ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے باہمی اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ یہ باہمی اعتماد سیاسی قوتوں کو یکجا کرنے میں اور دوبارہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروانے میں ہے،،، جس کے فی الوقت آثار نظر نہیں آرہے۔ لیکن پھر بھی میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر ایک بار تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوگئے تو اُس کے اگلے پانچ سال میں آپ حقیقی تبدیلی دیکھیں گے اور یقینا یہ سلسلہ چل نکلے گا!