ذاتیات کی لڑائی ملک کو ڈبو دے گی!

لیں جی! آخری خبریں آنے تک ڈالر 188روپے سے زائد کا ہوگیااور سٹاک مارکیٹ 11سو پوائنٹس تک نیچے گر گئی! ڈالر گزشتہ ایک ماہ میں گیارہ روپے سے زائد مہنگا ہوا جبکہ سٹاک مارکیٹ کی ”پیش رفت“ بھی نیچے کی طرف ہی دکھائی دی۔یہ تو تھے معاشی حالات! اب آئیں کہ بیرون دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھ رہی ہے، امریکا و دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو ”پرامن“ پاکستان کے سفر سے گریز کرنے کا کہا ہے۔ جبکہ بھارت پہلے ہی ہمارے خلاف خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے کہ ملک بغیر کسی سیاسی سربراہ کے چل رہا ہے۔ جبکہ عرب ممالک ٹکٹکی باندھ کر ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ایک بار پھر سیاسی و آئینی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ اس سارے معاملے پر حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں جو اجلاس فرنیچر ٹوٹنے پر 16 اپریل تک ملتوی کیا گیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے وہ 6 اپریل کو طلب کیا جس پر تحریک انصاف اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی، اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں سپیکر اور دپٹی سپیکر میں میچ پڑ گیا ہے، جبکہ مرکز میں بال سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ مطلب بقول شاعر سب کچھ اُلجھا پڑا ہے۔ ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں اب بتا!کون سے دھاگے کوجدا،کس سے کریں یہ معاملات کیسے حل ہوں گے، اس بارے میں سپریم کورٹ ہی بہتر رہنمائی کر سکتی ہے۔ اب تک 1993ءمیں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انہیں دوبارہ بحال کیا گیا تھا مگر بحالی کے باوجود حکومت عدم استحکام کا شکار رہی اور اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت نہیں ہے جس پہ آئین شکنی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ الزام پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر لگایا جاتا رہا ہے۔ مبینہ طور پر نواز شریف نے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر آمادہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے 5 اگست 1990ءکو اسمبلیاں توڑ کر بینظیر حکومت کو گھر بھیجا تھا۔اس پر نواز شریف اور ان کی پارٹی نے خوب جشن منایا تھا۔ اسی طرح مبینہ طور پر بینظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے غلام اسحاق خان کو استعمال کیا اور انہوں نے 18 اپریل 1993ءکو اسمبلیاں توڑ دیں۔ نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے جشن منایا تھا۔ 3 اپریل 2022ءکو وزیراعظم عمران خان نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بھیجی، جس پر صدرِ مملکت نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ فرق اتنا ہے کہ اس مرتبہ جشن منانے والوں میں اپوزیشن کے بجائے حکومت پیش پیش ہے۔ حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صدق دل کے ساتھ اپوزیشن کی اکثریت کو تسلیم کرتی اور میدان چھوڑنے کے بجائے بھرپور مقابلہ کرتی۔ لیکن خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کر دیںجس کے بعد ملک بھر میں ایک آئینی و سیاسی بحران نے جنم لیا۔ حالانکہ عمران خان کو علم ہونا چاہیے تھا کہ گیلپ پاکستان کا حالیہ سروے پی ٹی آئی کے حق میں آیا ہے اور آج یہ جماعت اس قدر پاپولر ہو چکی ہے کہ اگر فوراً الیکشن کروا دیے جائیں تو میرے خیال میں سب سے زیادہ ووٹ اسی جماعت کی جھولی میں گریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن ملک پاکستان میں شاید جمہوریت سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ جمہوریت برداشت اور توازن کا عملی مظاہرہ ہوتی ہے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے الزامات لگا رہی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر سب غدار ہیں تو پھر عوام کا مسیحا کون ہے؟ ان کے دکھوں کا مداوا کس نے کرنا ہے؟ غربت، بیروزگار ی اور مہنگائی جیسے مسائل کس نے حل کرنے ہیں۔تف ہے کہ ابھی تک عمران خان سنبھلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے، بلکہ اُن کے مشیر اُن سے ابھی تک غلط فیصلے کروانے کی کوشش کررہے ہیں، جیسے گزشتہ روز ایک تقریر کے دوران خان صاحب نے امریکا کے خلاف ہر روز احتجاج کرنے کی کال دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کیا کسی ملک کو یہ بتانے کے لیے کہ ہم زندہ قوم ہیں ، کیا احتجاج ہی ایک طریقہ رہ گیا ہے؟ گھر سے نکلو، کچھ جذباتی اور کچھ بے روزگار لوگوں کو ساتھ لو ، سڑک بند کر دو، ٹائر جلا دو، محروم لوگوں کے نا آسودہ جذبات سے کھیلو اور اس کے بعد رات بھر جشن فتح مناتے رہو کہ امریکہ سمیت سب کو معلوم ہو گیا ہے ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ پھر دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو دیکھ لیں، اقتدار کے لیے پاگل ہوئی جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی پاکستان کی فکر نہیں، پاکستان کے عوام کی فکر نہیں، گرتی ہوئی معیشت کی فکر نہیں، روپے کے کمزور ہونے کی فکر نہیں، اسٹاک مارکیٹ میں کھربوں روپے ڈوبنے کی فکر نہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی کی فکر نہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کی فکر نہیں، فضائی آلودگی بڑھنے کی فکر نہیں، آبادی کے بے ہنگم ہونے اور بڑھنے کی فکر نہیں، امن و امان کی فکر نہیں، خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کی فکر نہیں ....الغرض اگر انہیں فکر ہے تو صرف اتنی کہ اقتدار کیسے مل سکتا ہے؟ اور اقتدار ملنے کے بعد پیسہ کیسے کمانا ہے؟ یا ملک کی نیا کو ایک بار پھر کیسے ڈبونا ہے۔اور پھر بچے بچے کو علم ہے کہ اپوزیشن نے کس طرح اکثریت حاصل کی ہے۔ کس طرح اور کس کس ہوٹل یا ”ہاﺅس“ میں پارلیمنٹرینز کی بولیاں لگتی رہی ہیں۔ یعنی یہ لوگ بھی اقتدار کے اتنے لالچی ہیں کہ نجی ہوٹلوں میں علامتی وزیر اعلیٰ بننے کی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ تو گزشتہ کئی سال سے مطالبہ کر رہے تھے کہ الیکشن ہوں، وغیرہ اور اب جب الیکشن کے لیے حکومت نے ہاں کر دی ہے تو اب یہ اپوزیشن والے بھاگ رہے ہیں ۔ لہٰذاملک کو مزید خراب نہ کریں ، میں پھر یہی کہوں گا کہ اقتدار کی لڑائی میں جتنے کردار نظر آرہے ہیں، اُنہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ڈالر 2سو کا ہو یا 3سو کا۔ اُن کے تو ہر صورت وارے نیارے ہیں۔ خدارا! ملک کے مفاد میں بہترین فیصلے کرنے والوں سے التجا ہے کہاس ساری صورتحال میں پاکستان کو دیکھیں۔یقینا ملک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث کاروباری حضرات نے ہنڈی کے ذریعے ڈالرز بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی ڈالر کی شارٹیج کو دیکھتے ہوئے ہم پر بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمت بتدریج بڑھانے کا دباﺅ بڑھا دیا ہے۔اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز اس وقت ملک کو دیکھیں، اس کی بقاءکے لیے کام کریں۔ اس کے Survival کے لیے اقدامات اُٹھائیں۔ امریکا کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج کرنے کے بجائے ہمیں اُس کا مقابلہ اپنے ٹیلنٹ سے کرنا چاہیے، جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں تو تعلیم کا عالم یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں، جس کی دنیا میں کوئی حیثیت ہو اور دنیا بھر کے طالب علم وہاں داخلہ لینے کے متمنی ہوں۔ ریاست کی بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ اس نے صرف میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔پی ایچ ڈی حضرات کا یہاں ” افراطِ زر“ ہے لیکن عصری بیانیے میں ہمارا اہل دانشمند کہیں نظر نہیں آتا۔ دو کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال ہیں اور وہ سکول نہیں جاتے۔دنیا بھر میں ہم سے بد ترین صورت حال صرف ایک ملک کی ہے اور اس کا نام نائیجیریا ہے۔ہماری نصف سے تھوڑی کم آبادی نا خواندہ ہے۔لیکن ہم امریکہ کو جلسوں میں احتجاج کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ قرض نہ لیا جائے تو ملک چلانا مشکل ہو جائے۔ کشکول ہمارے گلے میں طوق کی صورت لٹکا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباﺅ پر ہم قانون سازیاں کر لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے اہلکار کو ہم سٹیٹ بنک کا گورنر بنا دیتے ہیں اور سٹیٹ بنک کو خود مختار بنا دیتے ہیں۔قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے ہمیں مزید قرض درکار ہوتا ہے۔بجٹ آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے قرض پر سود اور اقساط کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کا حجم ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ چکا ہے۔معیشت کی بحالی کا ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ قرض کھا کھا کر ہم نے ملک کی کمر دوہری کر دی لیکن ایک ایسا ڈھنگ کا انڈسٹریل یونٹ قائم نہیں کیا جا سکا، جس سے کوئی چیز تیار کر کے ہم دنیا کو بیچ سکیں اور زرمبادلہ کما سکیں۔اب ہم سڑکوں پر نکل رہے ہیں کہ امریکہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے اور اس کو اچھی طرح معلوم ہو جائے ہم ایک زندہ قوم ہیں۔یہ کیا ہے؟ کیا اس طرح ملک چلتے ہیں؟ بہرکیف خدارا اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس ملک کو روندنے سے گریز کریں، لانگ ٹرم پالیسیاں بنائیں، جیسے تحریک انصاف کے اچھے اقدامات میں سے یہ بھی ایک اچھا قدم تھا کہ انہوں نے ایکسپورٹرز کو بہتر سہولتیں دے رکھی تھیں، بجلی کم ریٹ پر دی جارہی تھی جس کے باعث ان کے ریٹ عالمی مارکیٹ کے برابر چل رہے تھے۔مسلم لیگ نون کی پالیسی ایکسپورٹرز کے حق میں نہیں رہی۔ کاروباری طبقے کو خدشہ ہے کہ اگر مرکز میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنتی ہے تو ایکسپورٹرز کو ملنے والی رعایات ختم ہو جائیں گی؛ اس لیے تمام سرمایہ دار یہاں سے بھاگنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر صورتحال پر کسی نے کنٹرول نہ کیا تو خاکم بدہن یہ عدم استحکام ملک کے لیے ہر گزاچھا نہیں ہوگا! اللہ اس ملک پر رحم فرمائیں!(آمین)