عوام ناراض ہوں تو انقلاب آتے ہیں!

ایک طرف سیلاب تو دوسری طرف ملکی سیاست میں زبردست ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے، کہیں خبریں آرہی ہیں کہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے بیک ڈور آپسی رابطے شروع ہو رہے ہیں، کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان حکومت کے لیے ستمبر کے آخر تک یا اکتوبر کے شروع تک ”آخری کال“ دینے والے ہیں، کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی پوری تیاری ہو چکی ہے( جس کا برملا اظہار سابق وزیر اعظم عمران خان بھی جلسے جلوسوں میں کر چکے ہیں)۔ اور کہیں سے خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان کا یہ ”دبنگ انداز“ اُنہیں چند دنوں میں گرفتار کروا دے گا۔ جبکہ اسی دوران ہر فکرمند حلقہ عمران خان کو فی الوقت سیاست موخر کرکے سیلاب زدگان کی مدد کو اپنی تمام توانائیاں خرچ کرنے کے لیے کہہ رہاہے مگر خان صاحب بضد اس لیے ہیں کہ اُن کے پاس وقت بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اب صبر کر لیا تو ملک حقیقت میں ڈوب جائے گا۔ وہ کسی بھی صورت اکتوبر تک اس حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے دباو¿ بڑھانے کے لیے جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ پاپولر لیڈر ہیں، سیاسی ماہرین کے مطابق اگر آج الیکشن ہوتے ہیں عمران خان آسانی سے سادہ اکثریت حاصل کر سکتا ہے۔ خیر اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے حامیوں پر اس وقت توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، القادر ٹرسٹ سمیت کسی بھی اسکینڈل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس وقت ان پر عمران خان کی تقاریر کا سحر طاری ہے۔ اُن کے ووٹ بینک میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے کبھی دیگر کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ یہ ووٹ بینک بڑھ سکتا ہے کیوں کہ نئے رجسٹرڈ ہونے والے ووٹرز کی تعداد کو بھی ذہن میں رکھیں اور اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کو حق ملا تو پی ٹی آئی دیگر جماعتوں سے بہت آگے ہوگی۔ میری ناقص اطلاعات کے مطابق اب کی بار ”آخری کال“ یہ ہوگی کہ جو جہاں ہے وہیں ملک کو بند کردے، اور یہ تحریک انصاف کے لیے آسان بھی ہوگا کیوں کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، انہیں وہاں کی سرکاری مدد بھی حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے عمران ٹائیگرز کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے، جس میں نوجوانوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے، وہ ان نوجوانوں کو ضرور استعمال کریں گے۔ قصہ مختصر کہ اسلام آباد(وفاق) کے ایک طرف تو خیبر پختونخوا ہے اور دوسری طرف پنجاب ہے، موجودہ حالات اور بیانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بار دھرنا کچھ اس طرح دیں گے کہ اسلام آباد کا زمینی راستہ ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وفاقی حکومت کچھ نہیں کر پائے گی۔ کیوںکہ یہ دھرنا 2014 کے نہیں 2022 کے عمران خان دے رہے ہیں۔ اس بار ان کے پاس عوامی طاقت کے ساتھ ساتھ ریاستی طاقت بھی ہوگی۔ تمام بڑے شہروں کو جام کرنے کی کال بھی دی جا سکتی ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو میرا نہیں خیال کہ وفاقی حکومت کے پاس عمران خان سے مذاکرات کے علاوہ کوئی آپشن باقی رہے گا، کیوں کہ وفاق صوبوں کے خلاف چڑھائی نہیں کرسکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان میں ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔اب تک بظاہر حکومت عمران خان کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے، وہ اپنے ہر داو¿ میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ وہ کسی انکوائری کا حصہ نہیں بن رہے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا رہے ہیں۔پی ٹی آئی اپنے بیانات کی وجہ سے مشکل میں آتی رہی مگر یہ ماننا ہوگا کہ انہوں نے ہر مشکل کو دودھ سے مکھی نکالنے جیسا باہر نکالا ہے۔آپ یقین مانیں حیرت اس بات پر ہے کہ اس وقت بھی میں ٹی وی پر بیٹھا ہر چینل پر خبریں وزٹ کر رہا ہوں 100فیصد میڈیا اس وقت عمران خان کے خلاف خبریں چلا رہا ہے مگر آپ جس سے بھی بات کر کے دیکھ لو وہ عمران خان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ عوام ان چور ڈاکوﺅں پر اب بھروسا کرنے کو تیار نہیں ہیں، ملک اس وقت ریکارڈ 45فیصد مہنگائی کی شرح پر پہنچ چکا ہے، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں اُس جماعت کو سائیڈ لائن کر رہی ہے جسے ملک کی 70فیصد عوام اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذاایسا کرنے سے میری رائے میں لوگ ناراض ہیں، اور دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے؟ اُس کے رہنماﺅں کو مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے،دہشت گردی تک کے مقدمات بنائے جارہے ہیں ، عدالتیں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کسی اچھے کی اُمید نہ رکھے۔ مطلب اس جماعت کے چاہنے والے کیا کریں؟ عالمی عدالت کے پاس جائیں؟ نہیں جا سکتے ناں!بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد تحریک انصاف کو کہا جا رہا ہے کہ وہ جلسے اور حکومت پر دباﺅ ڈالنا بند کرے۔ مطلب! بقول شاعر آپ ہی اپنی اداو¿ں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی لہٰذاوسیع تر ملکی مفاد میں اس وقت گرینڈ جرگے کی ضرورت ہے، اس میں اسٹیبلشمنٹ اپنا مثبت رول ادا کرے، اگر کہیں تحریک انصاف ناراض ہے تو اُس کے تحفظات دور کیے جانے چاہیے! اُنہیں رام کرنا چاہیے یا اُن کے تھوڑے بہت مطالبات مان کر اور کچھ پر راضی کرکے آگے چلنا چاہیے، ایسا کرنے سے شاید عوام کا غصہ کم ہو جائے۔ اور پھرعوام کو یہی غصہ نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مہنگائی کاغصہ ہے، مہنگی بجلی کا ہے، مہنگے راشن کا ہے، مہنگی ادویات کا ہے، مہنگے ڈالر کا ہے، مہنگی اشیائے خورونوش کا ہے، مہنگی سبزیوں کا ہے اور مہنگے پھلوں کا غصہ ہے ۔ اور پھر کیا یہ سب چیزیں کسی انقلاب کو دعوت نہیں دے رہیں؟ بلکہ میرے توخیال میں انقلاب کا نام لئے بغیر پہلی تصویر آئی ایم ایف نے کھینچی ہے۔جس کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں مہنگائی ،حکومت کے خلاف مظاہرے ہوں گے پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوںکے نہ ملنے ،اقتصادی بدحالی کی وجہ جرائم جنم لیں گے۔ملک بھر میں سیلابی صورت حال کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں مکان منہدم ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوں گے۔زرعی زمینیں تباہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کا خطرہ بھی ہے۔سوال یہ ہے پاکستانی قوم نے اپنی چمڑی بھی آئی ایم ایف کو پیش کردی جس کا اعتراف وزیر اعظم شہباز شریف نے نہایت بے بسی کے ساتھ یہ کہہ کر کیا کہ اب ہمیں چھینک لینے سے پہلے آئی ایم ایف سے اجازت لینا پڑتی ہے۔اس ایک جملے میں بے بسی اور بے اختیاری کی پوری داستان ہے۔چھینک مارنے کا اختیار بھی آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لئے کوئی ہوائے خوش خبر نہیں آتی۔اس کے باوجود مستقبل قریب کے پاکستان کی جو تصویر آئی ایم ایف نے کھینچی ہے اس میں عوامی مظاہروں ،قحط سالی ،بے روزگاری کا منظر دکھایا گیا۔حال ہی میں یہ مناظر سری لنکا میں دکھائی دئیے تھے جہاں بگڑے ہوئے معاشی حالات کے باعث بپھرے ہوئے عوام نے حکمران طبقات اور ان کے انداز حکمرانی کی علامتوں کو نشانِ عبرت بنا دیا تھا۔ آئی ایم ایف نے اپنی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کے باوجود ایک انتشار زدہ اور عوامی سطح پر مضطرب پاکستان کی تصویر کشی کی ہے۔یہ انارکی کا منظر انقلاب کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے جب عوام ایک تعفن زدہ نظام کی ناﺅ کو بالکل اسی طرغ غرقاب کرتے ہیں جس طرح حال ہی میں سری لنکن عوام نے اپنے ایک وزیر کی گاڑی کو جھیل میں بہاد یا تھا۔ یوں آئی ایم ایف نے ایک انقلاب کی ہی منظر کشی کی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملک کے گدلے سیلابی پانیوںکے کیچڑ میں لت پت لاشیں ، سیلاب سے بہہ جانے والی بستیاں، مفلوک الحال لوگ سبھی انقلاب کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جو کسی انقلاب کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں، یہ وہی انقلاب ہو گا جو عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ عمران خان بھی اسی انقلاب کی ہی بات کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے پہلی بار کہا ہے کہ ملک میں تبدیلی کے دوراستے ہیں پرامن انتخابات یا امام خمینی طرز کا خونیں انقلاب لیکن ہم انتخابات کے راستے پر گامزن ہیں۔امام خمینی کے انقلاب کی بات کے ساتھ ایک پوری کہانی وابستہ ہے ،ایک خزاں گزیدہ سیاسی اور ثقافتی کلچر کے زمین بوس ہونے اور اس کی جگہ ایک عوامی کلچر نمو پانے کی داستان وابستہ ہے اور اس میں خوفناک مناظر بھی جابجا ہیں۔ یوں تو پاکستان کے لوگ ہمیشہ سے ایک ایسے انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے رہے ہیں جو معاشرے کے چھوٹے چھوٹے ظالم کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر عام آدمی کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرے۔لیکن ایسا اس لیے نہیں کہ شاید لوگ ظلم کی انتہا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ بقول شاعر درگزر جتنا کیا ہے وہی کافی ہے مجھے اب تجھے قتل بھی کر دوں تو معافی ہے مجھے بہرکیف تاریخ میں آنے والے انقلاب چین، فرانسیسی انقلاب، روسی انقلاب اور انقلاب ایران کو کون بھول سکتا ہے۔ ان سب نے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور یہ تمام کے تمام بڑی تبدیلیاں لے کر آئے جن میں مثبت اور منفی دونوں پہلو شامل ہیں۔ ان سب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ سالہا سال تک یہاں کے عوام نے ظلم و بربریت میں گزارے، عوام ریاست سے ناراض ہوگئے، اور پھر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو سارا نظام ملیا میٹ کرکے نیا نظام اور نئے لوگ لے آئے جنہوں نے عوام کی تقدیر بدل دی!