پرویز الٰہی .... وفاداری کی اتنی بڑی سزا کیسے ہوسکتی ہے؟

تحریک انصاف کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی آج کل بانی تحریک انصاف کے ساتھ وفاداری نبھانے کی وجہ سے مگر اینٹی کرپشن سمیت دیگر مقدمات میں اڈیالہ جیل میں اسیر ہیں۔ چلیں مان لیا! کہ پاکستانی سیاستدانوں کے لیے جیل اُن کا اوڑھنا بچھونا ہوا کرتی ہے،،، مگر آپ کو شاید یہ تازہ ترین رپورٹ پڑھ کر حکومت پر حیرت بھی ہو کہ یہ لوگ کیسے انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے اڈیالہ جیل کے واش روم میں گر کر زخمی ہوئے ہیں،، یہ رپورٹ کسی اور نے نہیں بلکہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جمع کروائی ہے، جس میں مزید لکھا ہوا ہے کہ واش روم میں گرنے سے پرویز الٰہی کی دائیں سائیڈ کی 4پسلی فریکچر ہوئی ہےں،،، اس کے علاوہ سر پر بائیں طرف اور ماتھے پر بھی چوٹ آئی ہے۔جبکہ اُن کا بایاں گھٹنا بھی گرنے سے زخمی ہواہے.... اُنہیں جیل میں ہی طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں ،،، جبکہ نہ تو اُنہیں سابقہ سیاستدانوں کی طرح سروسز ہسپتال میں علاج کروانے کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی اُنہیں بیرون ملک جانے کی۔ شاید اُن کا ”کیس“ کمزور ہے۔ ورنہ تو یہاں لوگ 50روپے والے اسٹام پیپر پر بھی بیرون منتقل ہوئے اور بعض کو تو سرکار نے خود بیرون ملک علاج کے لیے بھیجا۔ لیکن ہمیں یہ ضرور خیال کرنا چاہیے کہ اگر کسی ایک سیاستدان کے لیے اتنی سہولتیں ہیں تو پرویز الٰہی تو پھر بھی پنجاب کے محسن ہیں۔ اُن کے دور میں پنجاب کے لیے ہوئے کاموں کو تو بعد میں لکھوں گا۔ لیکن اُس سے پہلے آپ گزشتہ ہفتے کی حکومتی کارروائی بھی دیکھ لیں کہ ایک شخص جو گزشتہ 6ماہ سے جیل میں ہے، اُس پر اس ماہ کے آغاز میں مزید 3مقدمات درج کر دیے گئے ہیں۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ ٹیکسلا سرکل جائیں اور وہاں کے تین تھانوں میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت چوہدری صاحب پردرج تین مقدمات میں نامزد کر دیے گئے ہیں۔ان تینوں تھانوں کی اگر بات کریں تو تھانہ ٹیکسلا میں دہشت گردی ایکٹ و دیگر دفعات کے تحت 9مئی 2023 کے مقدمہ نمبر 940، اسی طرح دہشت گردی ایکٹ و دیگر دفعات کے تحت ہی تھانہ ٹیکسلا میں درج 11 مئی 2023 کو درج مقدمہ نمبر 948 اور تھانہ صدر واہ میں دہشت گردی ایکٹ و دیگر دفعات کے تحت 10 مئی 2023 کو درج مقدمہ نمبر 744 میں نامزد ہیں اور پولیس کو مطلوب ہیں۔ الغرض پرویز الٰہی کے کیسز کو دیکھ کر لگ یہی رہا ہے جیسے اس وقت ریاست بمقابلہ سیاستدان جاری ہے، جس میں ریاست جیسے تیسے کر کے طاقت استعمال کررہی ہے۔اور پھر یہ عمل صرف پرویز الٰہی پر ہی نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی،شاہ محمود قریشی، اسد عمر، یاسمین راشد وغیرہ جیسے سیاستدانوں کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔ اور پھرجیسے ہی عدالتیں ان سیاستدانوں کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں، حکومت اگلے ہی لمحے اُنہیں دوبارہ دبوچ لیتی ہے۔ جیسے آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ سے رہائی کا حکم نامہ لینے کے بعد پولیس اہلکار جب پرویز الٰہی کو ان کے گھر چھوڑنے جا رہے تھے تو ان کی گاڑی کو نقاب پوش اہلکاروں نے روک کر انہیں پھر سے گرفتار کر لیاتھا۔ جب نقاب پوش اہلکار چودھری پرویز الٰہی کو پولیس کی گاڑی سے نکال کر گود میں اٹھائے لیے جا رہے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ”اب جیل سے چودھری پرویز الٰہی کی ہڈیاں ہی باہر آئیں گی“۔اس ”بیان“پر خاصی بحث بھی ہو ئی اور ملک بھر میں تشویش بھی ہو رہی ہے کہ وطن عزیز میں چل کیا رہا ہے؟ اُس وقت بھی پرویز الٰہی صاحب کے ”اغوا“ پر دونوں ڈی آئی جیز حیران پریشان بلکہ بظاہر ہکا بکا کھڑے تھے اور لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کسی پولیس اہلکار کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ اور اُس وقت سے سابق وزیر اعلیٰ پابند سلاسل ہی ہیں۔ خیر قصہ مختصر کہ خدانخواستہ اگر پرویز الٰہی کو دوران حراست کچھ ہو جاتا ہے کہ تو کیا یہ ملک ایک بار پھر کسی بڑے سانحے سے نہیں گزرے گا؟ خدارا فیصلہ کرنے والے اس قوم پر رحم کریں، اس ملک پر رحم کریں۔ جہاں کمٹمنٹ کرنی ہے وہاں کریں، ملکی معیشت کے ساتھ کمٹمنٹ کریں، ڈالر کے ساتھ کریں، عوام کے ساتھ مخلص ہوں اور سب سے اہم بات کہ اس ملک کے ساتھ مخلص ہوں۔ سیاستدانوں کو اس طرح ہراساں کرنے کے عمل کو تو ہم 1979ءسے برداشت کر رہے ہیں، میرے خیال میں یہیں بس کردینی چاہیے اور ملک کا سوچنا چاہیے۔ شفاف انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔اس سارے عمل میں چوہدری شجاعت حسین کو بڑے پن کا کردار ادا کرنا چاہیے،،، اُن کا اور پرویز الٰہی کا ساتھ آج کا نہیں بلکہ بچپن سے ہے۔اُنہیں حکومت اور پرویز الٰہی کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور رہی بات پرویز الٰہی کی تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ پنجاب کے محسن ہیں، اُنہیں تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پنجاب میں ہوئے ترقیاتی کام آج بھی اُن کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بلکہ اُن کا ہر جگہ احترام کیا جاتا ہے، بیوروکریسی سے لے کر عدلیہ تک اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے عدلیہ میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ انہیں جس بھی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، جج صاحب ان کو دیکھتے ہی نیب، پولیس اور حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اُنہیں ”وفادار“ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے، آج اگر وہ دو لائنیں بول دیں کہ اُن کا تحریک انصاف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو آج وہ رہا ہو جائیں گے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ”کمٹمنٹ“ کیا ہوتی ہے۔ کسی کے ساتھ وفاداری کرنا کیا ہوتا ہے؟ اُن کا بڑا پن اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے مسلسل قربانی دے رہے ہیں بقول شاعر میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں اور پھر پرویز الٰہی دور میں پنجاب کے عوام خوشحال تھے، اُنہوں نے ہر پسے ہوئے طبقے کو اپنے دور میں گلے لگایا،،، حتیٰ کہ صحافیوں کا مسیحا بنے۔ اُنہیںانسان سمجھا، اُن کے مسائل سنے، اُن کے لیے صحافی کالونی بنائی، لاہور، پنڈی، ملتان کے صحافی اُن کے دل سے شکرگزار ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے صرف یاتو ججز کو ، یا پاک آرمی کے جوانوں کو، یا بیوروکریسی کو یہ سہولت حاصل تھی۔لہٰذاہر قسم کی پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہو کر پنجاب کے عوام کی فلاح کے لیے ہماری تو پہلے دن سے ہی چوائس یہی تھی ، یقین جانیے! کیوں کہ اُن کے لگائے گئے منصوبوں سے آج بھی پنجاب کے عوام مستفید ہو رہے ہیں، ان پراجیکٹس میں 1122،پی آئی سی، ہائی وے پٹرولنگ، رنگ روڈ، وغیرہ جیسی سہولیات شامل ہیں ۔چوہدری پرویز الٰہی نے 2007 میں جب پنجاب حکومت کا اپنا دور مکمل کیا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا۔جبکہ2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض تھا۔انہوں نے وزیرآباد، لیہ، ننکانہ اور ملتان بہاولپور جیسے دور دراز کے شہروں میں دل و دیگر بیماروں کے ہسپتال شروع کیے جو آج بھی ادھورے ہےں، جنہیں وہ یقینا مکمل کرکے عوام کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی پرویز الٰہی کا شاندار منصوبہ تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔انڈر گراﺅنڈ میٹرو ٹرین کا بھی منصوبہ بنایاگیا، جس پر محض 30ارب روپے اخراجات آنے تھے اور شہر کی محض 6مقامات سے کھدائی ہونی تھی اور ماحولیات پر بھی کم سے کم اثر پڑنا تھا،اور پھر سابقہ دور حکومت یعنی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کے عوام کو ریسکیو 1122،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز کے تحفے دیے۔ پھر فرانزک لیب ،جنوبی پنجاب میں برن یونٹس کا قیام ،سیالکوٹ کی ترقی کا 34 ارب کا منصوبہ ۔ اور اس جیسے بیسیوں منصوبوں کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ اس لیے حکمران فوراََ میثاق سیاست کا فیصلہ کریں تاکہ پرویز الٰہی جیسے سیاستدانو ں ہم ضائع نہ کریں،،،بلکہ ان کے تجربات سے استفادہ حاصل کریں،،، اور میں یہ بار بار کہہ چکا ہوں کہ اس وقت ملک مزید کسی بڑے اور برُے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملک کو چلنے دیں،،، اور صحیح ترقی کی منزل ہی عوام کی رائے ہے،،، جس کا احترام کیا جانا چاہیے،،، سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمات سے انتقامی سیاست کو فروغ ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے کہ سیاسی مقدمات کو فی الفور ختم کیا جانا چاہیے۔ تاکہ ملک ترقی کی سمت میں چل سکے۔ اقوام متحدہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان دور جدید کے تقاضوں سے آج بھی 60سال پیچھے ہے،،، یہاں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے،،، مگر یہ سب کچھ اُس وقت ہی ٹھیک ہو سکتا ہے جب ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے،،، ورنہ ہم باربار تیسرے گھر کو دعوت دیتے رہیں گے!اور پھر پالیسی میکرز سے بھی گزارش ہے کہ ریاست ایسے نہیں چلے گی، ملک میں طوفانوں کو تھمنے دیں، سیاسی ہم آہنگی پیدا کریں اور اگر کسی سے 9مئی جیسے واقعات پر کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو ریاست اُسے ماں بن کر معاف کردے ....اللہ اللہ خیرصلہ!