کشمیر الیکشن ، الزام تراشیاں اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق !

آزاد کشمیر میں الیکشن مہم زور و شور سے جاری ہے، پولنگ 25 جولائی کو ہو گی، اس وقت بنیادی طور پر تین بڑی جماعتیں کشمیر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، ایک تحریک انصاف ، دوسری ن لیگ اور تیسری پیپلزپارٹی ۔ ان کے رہنماﺅں کی پرجوش تقریروں اور ایک دوسرے پر الزامات نے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھادیا ہے۔ ویسے تو یہ ”الزامات“ اور پرجوش تقریریں جمہوریت کا حُسن ہوتی ہیں، لیکن کبھی کبھی یہ گلے بھی پڑ جاتی ہیں جیسے بلاول اور مریم اکثر کہتے پائے جاتے ہیں کہ پانچ اگست2019 کو جو کچھ ہوا وہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔یا یہ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کشمیر پر سودے بازی کرچکی ہے اور وہ آزادجموں وکشمیر کو صوبہ بنا کر اس تنازعہ کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ الزامات کشمیریوں کے دل ودماغ پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں، یہی بیانات چھوٹے چھوٹے کلپ بناکرمقبوضہ کشمیر کے طول وعرض میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔یا بھارتی میڈیا ان کلپس کو استعمال کرتے ہوئے پراپیگنڈہ کرتا ہے۔ حالانکہ مسئلہ کشمیر کسی جماعت یا شخصیت کا نہیں بلکہ ایک قومی ایشوہے اور قومی سطح پر کشمیریوں کی مدد اور پشت پناہی کا عزم پایاجاتاہے۔ جنگیں یا تحریکیں آج کی دنیا میں توپ وتفنگ سے کم اور نفسیاتی حربوں سے جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔ ممکن ہے بلاول اور مریم کو اس کا ادراک نہ ہو لیکن یہ ذمہ داری مقامی کشمیری لیڈرشپ کی تھی کہ وہ انہیں باور کراتی کہ آزادکشمیر ایک حساس علاقہ ہے۔ گفتگو کے آداب یہاں مختلف ہیں۔جبکہ یہ سیاستدان موچی دروازہ لاہور کی سیاست کو آزادکشمیر میں متعارف کرارہے ہیںحالانکہ وہاں کے شہریوں کے مسائل مختلف ہیں۔ ان پر بات کی جانی چاہیے اور ان کے مقامی مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل دیا جانا چاہیے۔لیکن ہمارے رہنما اس جانب نہیں آتے۔ الیکشن کے موسم میں سیاسی جماعتوں کے سب ہی جلسے کامیاب ہوتے ہیں۔ شہری تمام جماعتوں کے جلسوں میں شوق سے شرکت کرتے ہیں۔ مفت سواری دستیاب اور کھانے پینے کا انتظام بھی ہو تو جلسے میلے کی شکل اختیار کرجاتے ہیں لیکن الیکشن کے دن فیصلہ لوگ مستقبل کے منظر نامہ کو سامنے رکھ کرتے ہیں۔ ووٹرز ماضی کے قیدی نہیں بلکہ زمینی حقائق کے سب سے بڑے نباض ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ کشمیر کا الیکشن کون جیتے گا کون نہیں، لیکن پچھلی پریکٹس تو یہی رہی ہے کہ جو جماعتیں مرکز میں اقتدار میں ہوتی ہیں وہی کشمیر میں حکومت بناتی ہیں، آپ کشمیر الیکشن کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔ لہٰذااگر کشمیر الیکشن پر بات کریں تو آزاد ریاست قائم ہونے کے بعد وہاں صرف ایک ہی جماعت مسلم کانفرنس کا وجود تھا، یہ جماعت کشمیری مسلمانوں کی اولین جماعت تھی، جو شیخ عبداللہ اور سردار غلام عباس نے قائم کی تھی، بعد میں شیخ عبداللہ کانگریس سے مل گئے اور سردار غلام عباس آزاد کشمیر کے بیس کیمپ سے آزادی کی جنگ لڑنے کیلئے آگئے۔ 1973 تک کشمیر میں مسلم کانفرنسں ہی برسر اقتدار رہی، 1973 میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پہلی بار آزاد کشمیر میں بھی پیپلزپارٹی قائم کی گی، 1985 کے بعد پاکستان میں جب مسلم لیگ منظم ہوئی تو آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کو ہی مسلم لیگ قرار دیا گیا اور اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس بڑی پارٹیاں بن گئیں، ان کے علاوہ جموں کشمیر لبریشن لیگ اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نام سے بھی جماعتیں قائم ہوئیں، لیکن ان کے نظریات کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اگر پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی تو آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی جیت گئی، پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت تھی تو وہاں مسلم کانفرنس کامیاب ہوجاتی، اس کو کشمیری عوام کا شعور قرار دیا جائے کہ وہ حکومت پاکستان سے معاملات بہتر رکھنے کیلئے حکومتی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں یہ ایک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ دنوں اسی بات کا اعتراف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی کیا تھا، جب اسلام آباد میں ان سے آزاد کشمیر الیکشن کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا، وہی ہوگا، جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، بہرحال اس بار الیکشن ہو رہے ہیں تو پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہے، اس بار آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کے علاوہ مسلم لیگ ن بڑی جماعت کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہے، یہ مسلم لیگ کا دوسرا الیکشن ہے، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کے فعال ہونے کی وجہ ہے یہ ہے کہ 2008 میں پاکستان مسلم لیگ ن نے مسلم کانفرنس کی سرپرستی چھوڑ کر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں بھی قائم کر دی تھی، آزاد کشمیر مسلم لیگ کے قیام کے بعد2017میں پاکستان مسلم لیگ نے آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنالی۔ بہرکیف آزاد کشمیر کے اندر تو ابھی تک مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں مقابلہ ہے۔حکومت بنانے کا دارومدار وادی اور جموں کے مہاجرین کی ان 12 نشستوں پر ہوتا ہے، جن میں 9 پنجاب 2 سندھ اور 1 کے پی میں ہے۔اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کشمیریوں کے لیے کشمیر سے باہر پولنگ سٹیشن بن سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر سکیں تو اوور سیز پاکستانیوں کے لیے یہ سہولت کیوں نہیں رکھی جاتی، اس پر راقم نے پہلے بھی آواز اُٹھائی تھی، کہ پاکستان کی کل آبادی کا 6فیصد بیرون ملک رہتا ہے، یعنی 90لاکھ پاکستانی قانونی طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں رہ رہے ہیں جبکہ 30سے 35لاکھ غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان پاکستانیوں کا ڈیٹا نا تو نادرا کے پاس ہے نا ہی کسی دوسرے ادارے میں موجود ہے۔ہر حکومت ان کے لیے بل لانے کا کہتی ہے مگر یہ باتیں اسمبلیوں کے اندر ہی کہیں گم ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس اوور سیز پاکستانیوں کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے، ان کی اہمیت کو جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں قریباََ 25ارب ڈالر کا فرق ہے، اور یہ فرق بیرون ملک پاکستانی پورا نہ کریں تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10ماہ میں پاکستان میں ہر مہینے 2ارب ڈالر بذریعہ اوورسیز پاکستانی ، پاکستان میں آرہے ہیں۔ اور یہی صورتحال رہی تو پورے مالی سال میں 28ارب ڈالر پاکستان آئیں گے، جو کہ ایک ریکارڈ بن جائے گا۔لہٰذااتنے زیادہ پیسے پاکستان کوبھیجنے والے اوورسیز پاکستانی اگر چند ایک سہولیات کا مطالبہ کریں تو ہمارے تیور دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہی اُٹھ کر لوگ ان کے خلاف کورٹ میں بھی چلے جاتے ہیں، اُن پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور پھر علی الاعلان ایوانوں میں مخالفت بھی کرتے ہیں، تو ذرا سوچیں کہ اُن پر کیا بیتتی ہوگی ۔ اور ہاں یہ لوگ تو پھر بھی پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن دوسری جانب جیسا میں نے ذکر کیا کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں 45 براہ راست نشستوں میں سے 33 آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں واقع ہیں جہاں 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں 12 لاکھ 97 ہزار خواتین شامل ہیں جبکہ 12 پاکستان کے دیگر حصوں کی ہیں جس کے 4 لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 931 خواتین شامل ہیں۔ ان 12نشستوں میں سے 9پنجاب میں ہیں۔جن کے لیے الیکشن کمیشن لاہور اور دیگر اضلاع میں باقاعدہ اہتمام کرتا ہے اور پاکستان میں موجود کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذااگر اسی طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ کی اجازت دے دی جائے اور کوئی بہتر طریقہ اپنایا جائے تو یہ 73سال پرانا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جسے ہم نے اپنی اناﺅں کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے، حالانکہ دیگر ممالک اپنے شہریوں کو نہ صرف آن لائن ووٹنگ کی سہولت دیتی ہے ، بلکہ Manuallyووٹ ڈالنے کی سہولت بھی دیتی ہے، مثلاََ کسی بھی یورپی ملک میں الیکشن ہو، دوسرے ممالک میں جہاں اس ملک کی اکثریت آباد ہو گی، اُن کے لیے باقاعدہ پولنگ سٹیشن قائم کیے جاتے ہیں، اور جن ملکوں میں تعداد کم ہوگی اُنہیں آن لائن ووٹنگ کی سہولت دی جاتی ہے۔ ایسا کرنے سے شہری کی اپنے ملک کے لیے نہ صرف عزت بڑھتی ہے بلکہ وہ اپنے آبائی وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کی تگ و دو بھی کر تا ہے۔ #kashmir election #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan