12ربیع الاول کا پیغام!

12ربیع الاول آپ کی یوم ولادت کا دن ہے، جو ہمیں اللہ اور آپ کے دیے ہوئے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے، ہمارے معاشرے میں یہ دن مختلف طبقوں میں مختلف انداز میں منایا جا تا ہے۔ کہیں محفل میلاد ہے تو کہیں جلسہ سیرت النبی، کہیں نعتیہ مشاعرہ کاانعقاد ہے تو کہیں جلوس کا اہتمام ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ رسول پاک کے تئیں اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لیے ہی کیا جاتا ہے لیکن احقر کی نظر میں یہ دن اگر رسول پاک کے مشن کی یاد اور اس کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کے احتساب کے دن کے طور پر منایا جائے تویہ آپ کے تئیں امت مسلمہ کی بہترین خراج عقیدت ہوگی۔ اس لیے کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے فرائض کیا ہیں؟ آج ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ یہ اُس کا فرض ہے ، میں فلاں فرض سے ”مبرائ“ہوں ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں؟ہم نے ایک عجیب چیز اپنائی ہوئی ہے، کہ ہم صرف اُن سنتوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں، جس سے کسی دوسرے کو فائدہ نہیں ہوتا، مثلاََ ہم ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ جھوٹ بھی ہم سے شرما جائے۔ حالانکہ آپ کی سب سے بڑی سنت یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، پھرپوری زندگی انہوں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا تھا، یہ بھی اُن کی سب سے اہم سنت ہے، اُنہوں نے پوری زندگی کفایت شعاری سے کام لیا۔ پھر انہوں نے ساری زندگی کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ وہ بدلا لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی سب کو معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ حقوق العباد کا خیال رکھتے تھے۔ جبکہ اس کے برعکس ہم سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، کم تولتے ہیں،امانت میں خیانت کرتے ہیں، کینہ پروری کرتے ہیں، منافقت کرتے ہیں، Back bitingکرتے ہیں، حقوق العباد کا خیال نہیں رکھتے، کسی کا حق مارتے ہیں، دوسروں پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں، ہم دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنا اپنا عین فرض سمجھتے ہیں۔ الغرض ہم چاہتے ہیں کہ میرے علاوہ پوری دنیا نیک ہو جائے۔ تبھی معذرت کے ساتھ ہمارے ملک کا یہ حال ہے، یہاں ہم دودھ میں ہم ملاوٹ کررہے ہیں جعلی اور زہر آلود دودھ سے لوگوں کے گردے ختم ہورہے ہیں، دوائیاں جعلی ہم بنا رہے ہیں۔ پٹرول ڈیزل کے پیمانے میں ہم ڈنڈی مار رہے ہیں۔ ٹیکس چوری ہم کررہے ہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹل پر گوشت مشکوک ہوچکا ہے۔ دونمبری میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مردہ مرغیاں ہم بیچ رہے ہیں۔ مرچوں میں اینٹیں پیس کر ہم بیچ رہے ہیں۔ کوئی ایک چیز بھی یہاں خالص ملنا مشکل ہے۔اور کہنے کو ہم ہیں مسلمان؟ کیا ایسے ہوتے ہیں مسلمان؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ کسی کو چیز فروخت کریں تو اسکی خامیاں بھی بتائیں ۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا کبھی ہم نے اپنی فروخت ہونیوالی چیز کی خامیاں کبھی کسی کو بتائی ہیں؟ آج عدالتوں میں چلے جائیں انصاف کے لیے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، ہسپتال چلے جائیں لوگ تندرستی کے لیے چیختے نظرآئیں گے، تھانوں میںچلے جائیں ہمارے مسلمان بھائی ہی ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑتے دکھائی دیں گے، جیلوں میں چلے جائیں ہزاروں بے گناہ قیدی دوسروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے.... الغرض ہر شخص دوسرے کو فرائض نبھانے کی تلقین کرتا نظر آئے گا۔ یعنی دوسروں کا درد دل ہم میں کیوں نہیں ہے ۔ ہم میںمجموعی طور پر اپنے آپ کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب،یقینا کوئی نہیں، مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقینا ہاں میں ملے گا۔ ہر سال کی طرح یہ ربیع الاول بھی گزر جائے گا، اور پھر ہمیں صرف وہ سنتیں یاد رہیںگی ، جس سے دوسرے انسان کو کم سے کم فائدہ پہنچتا ہے، ہمیں حقوق العباد کی ایک بھی سنت یاد نہیں آئے گی ،حالانکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو بھی کبیرہ گناہوں میں گنا گیا ہے، یعنی گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی کو گالی دی یا کسی شخص کا حق مارا تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا حق ہے، اس کا حق ادا کیا جائے یا اس سے حق معاف کروایا جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کیا جائے۔ حضور اکرمنے ارشاد فرمایاہے : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰة (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یقینا ہم ربیع الاول کے مہینے کا شایان شان مناتے ہیں، منانا بھی چاہیے، یوم ولادت سیلیبریٹ بھی کرنا چاہیے مگر ہمیں آپ کی سنتوں پر عمل بھی کرنا چاہیے، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آپ نے ساری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، آپ فرماتے تھے معاشرہ کی ایک مہلک بیماری جھوٹ بولنا ہے، جو بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے، ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ جھوٹ بولنے والوں کے متعلق آپ کی سخت وعید ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا: سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر آپ نے غیبت کے حوالے سے فرمایا، کہ غیبت سب سے برا سمجھا جانے والا فعل ہے،آپ نے فرمایا کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا یعنی غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، ارشاد باری ہے:تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔بہرکیف ہمیں آپ نے درس دیا ہے کہ جھوٹ، رشوت، سود وغیرہ جیسی بیماریوں سے ہمیں بچنا چاہیے تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں، ہمیں ربیع الاول کو منانا چاہیے کیوں کہ بقول شاعر در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است آبروئے ما زنام مصطفی است لیکن ہمیں ربیع الاول کے پیغام کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، اپنی زندگی میں اُسے اپنا چاہیے تاکہ ہم پرسکون زندگی گزار سکیں اور اس ملک سے بھی بے برکتی ختم ہو سکے۔ ورنہ دنیا میں ناکامی ہمارا مقدر بن جائے گی اور ہم تاریخ کا حصہ بن جائیں گے !!! #12th Rabi ul awal #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon