جعلی انجکشن!حکومت نے عوام کو بینائی سے بھی محروم کر دیا!

کیا کسی کو علم ہے کہ اس ملک میں سو سے زائد افراد جعلی انجکشن لگنے کی وجہ سے ”بینائی“ سے محروم ہو گئے ہیں، جی ہاں! ایسا ہی ہے، اس وقت ملک بھر میں ہزاروں افراد جعلی انجکشن لگنے کے باعث بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ نہیں یقین تو خود خبریں ملاحظہ فرما لیں کہ ہر شہر میں ہزاروں مریض ایوسٹن نامی جعلی انجکشن لگنے سے زیر علاج ہیں ۔ جیسے لاہور میں 60مریض،کراچی میں سو کے قریب، ملتان میں 21مریض اس وقت نشتر ہسپتال سمیت نجی کلینکس اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں ، یہی صورتحال دیگر شہروں کی بھی ہے۔جبکہ دوست سیاستدان چوہدری منظور کے بھائی بھی اسی انجکشن کی بدولت آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ مطلب! اب اس ملک میں سرجری کے دوران استعمال ہونے والیsensitiveچیزیں بھی جعلی استعمال ہونے لگی ہیں۔ جبکہ مذکورہ انجکشن تو کوئی کمپنی نہیں بلکہ چند افراد مل کر بنا اور ڈسٹری بیوٹ کر رہے تھے۔ اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس انجکشن کے بنانے والے ملزمان ماڈل ٹاون میں واقع نجی اسپتال میں ملزم اویسٹین کی وائل سے انجکشن تیار کرتا تھا۔اور جو غیر رجسٹرڈ، غیر لائسنس یافتہ انجکشن سپلائی کررہاتھاجبکہ لاہور پولیس نے عارف والا پولیس کی معاونت سے ملزم کی گرفتاری یقینی بنائی۔ویسے یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایوسٹن انجکشن پوری دنیا میں استعمال نہیں کیا جاتا ، مگر یہاں زائد اور ناجائز منافع کے لیے میڈیکل سٹورز پر بھی بغیر اجازت اور سرٹیفکیٹ کے رکھا گیا اور پھر ڈاکٹر حضرات نے بطور نسخہ مریضوں کے لیے بھی Recomend کیا ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس انجکشن کا اثر 6گھنٹے تک رہتا ہے، آپ کی بینائی چھ گھنٹے بعد واپس آجاتی ہے، مگر ان جعلی اور نقول تیار کرنے والوں نے تو حد ہی کر دی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس مافیا کو سزا کیوں نہیں ہے؟ گورنر سرور کے قریبی رشتہ داروں پر الزام تھا کہ وہ غیرقانونی طور پر کڈنی ٹرانسپلانٹ کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، مگر مجال ہے کہ اُن پر کسی قسم کی کوئی کارروائی یا اُنہیں سزا دی گئی ہو۔ کھانسی والے شربت پینے سے درجنوں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں، آج تک اُس کیس کا بھی علم نہیں کہ کیا بنا؟پھر آپ کو یاد ہوگا کہ کارڈیالوجی ہسپتال لاہور میں ایم ایس جعلی اسٹنٹ ڈالتا پکڑا گیا تھا، مگر کیا کوئی کارروائی ہوئی؟ نہیں!وقتی طور پر صرف ایک دو ماہ مشکل ہوتی ہے، اُس کے بعد سب لوگ روٹین پر آجاتے ہیں۔ جب کسی کو سزا ہی نہیں ہوگی، تو کوئی بتائے کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی جرم رک جائے۔ الغرض ہماری مثال تو وہ ہو چکی ہے کہ اگر کوئی انسان انسانیت اور احساس کے مقام سے گر جائے تو پھر وہ حیوان سے بدتر ہوجاتا ہے۔ ایک شیر دوسرے شیر جبکہ ایک کتا دوسرے کتے کا گوشت نہیں کھاتا مگر عہد حاضر کے انسان ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔ عہد جہالت میں لوگ صرف اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے مگر آج طاقتور مافیاز کمزور انسانوں کو زندہ زمین میں گاڑ رہے ہیں۔ ادویات اور صحت کے شعبہ سے وابستہ لوگ زندگی بچانے کے بجائے زندگی چھین رہے ہیں۔ چندگندی مچھلیوں کا گند پورے ماحول کو پراگندہ کر رہا ہے۔ صاف ستھرے، اجلے اور سلجھے لوگ بھی شک کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مادہ پرستی اور نفسانفسی نے انسانی قدروں، رشتوں اور حلال حرام میں تمیز و تفریق ختم کردی۔ہر کوئی کامیابی کے لیے شارٹ کٹ تلاش کر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز کام کے لیے بھی ناجائز طریقہ اختیار کر تے ہوئے شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے۔ پرانے عہد کے لوگ چھپ کرگناہ کرتے تھے مگر اب گناہوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ آج رشوت اور جھوٹ کا بازار گرم ہے، ہر طرف جعلساز سرگرم ہیں۔ کوئی جمہوریت اور حکومت کو جعلی کہتا ہے مگر ہمارے بازاروں میں جعلی کرنسی نوٹوں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی جعلی مصنوعات، جعلی مشروبات اور منشیات بھی دستیاب ہیں۔ ہر کامیاب پراڈکٹ کی کاپی سرعام فروخت ہو رہی ہے کیونکہ جعلسازی کا ارتکاب کرنے والے قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں سے صرف سیاستدان اور ارکان اسمبلی مستفیدنہیں ہوتے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں جعلی عناصر ریاست اور شہریوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں جعلی ادویات سے وابستہ عناصر خوب پیسہ بنار ہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی ادویات چوری کرکے باہر فروخت کردی جاتی ہیں جبکہ مریض باہر سے جعلی ادویات کے نام پر موت اپنے گھر لے آتے ہیں۔ دکانوں پر جعلی ادویات جبکہ گلی محلوں میں عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار حکومت اور متعلقہ اداروں کی کمٹمنٹ اور کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔پاکستان میں جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ایک منفعت بخش تجارت بن گئی ہے۔ شہریوں کو مختلف مافیاز کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا ہے۔ڈرگ انسپیکٹرز کی منتھلیاں لگی ہوئی ہیں، ایف آئی اے کے بعض اہلکار اس کارخیر میں ملوث ہیں۔ جبکہ اس تمام کارروائیوں پر نظر رکھنے والی حکومتیں و سیاستدان ایک دوسرے کو گرانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہے ہیں، جبکہ جعلی ادویات پورے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہیں، دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اور یہ بات میں خود نہیں کہہ رہا بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں 30سے 40فیصد میڈیکل اسٹورز پر نقلی ادویات ہوتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دوسرے ملکوں کے درمیان 13ویں نمبر پر ہے جو نقلی ادویات تیار کرتے ہیں۔ ان جعلی ادویات کے استعمال سے مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ان کی بہت بڑ ی مقدار کراچی، لاہور، راولپنڈی، اور ملتان میں تیار کی جاتی ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ ادویات صحت کو بہتر نہیں کرتی بلکہ مریض کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے ڈاکٹر حضرات کو ماہر ہونا چاہیے، لیکن وہ خود اس گورکھ دھندے میں پیش پیش رہتے ہیں، ڈاکٹر حضرات ویسے توہمارے معاشرے کا وہ محسن طبقہ ہے جوصحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم سماج کا فریضہ ہے۔ ڈاکٹر مسیح کا درجہ رکھتے ہیں، معاشرہ میں قابلِ قدر افراد ہیں۔ لیکن اس مقدس پیشہ کو داغدار کرنے والے نیم حکیم عطائی ہیں۔ جو نہ صرف ان عظیم کرداروں کے لیے ناسور ہیں، بلکہ انسانی جانوں کے بھی قاتل ہیں۔ انہیں عطائی یا نیم حکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عطائی انسانیت کے خادم نہیں ہادم ہیں‘ اور وہ سماج کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہیں۔جدید دنیا میں سترھویں اور اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں عطائیت کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ 1830 ءمیں برطانوی پارلیمنٹ نے 1300 کے قریب ادویات کی ایسی فہرست بھی جاری کی جو عطائیت کے زمرے میں استعمال ہو رہی تھیں ، انہوں نے اس پر کنٹرول حاصل کیا، اور آج تک وہاں پر 200سال گزرنے کے بعد بھی عطائیت یا جعلی ادویات کے حوالے سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہاں ہر گزرتے روز اس ”وبائ“ میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا خمیازہ عام عوام کو بینائی سے محرومی کی صورت میں مل رہا ہے۔ یہ ہمارے حکومت کا ہی کیا دھرا ہے کہ پاکستان میں % 82 لوگوں کے پاس سائنسی علاج کیلئے درکار رقم ہی موجود نہیں۔ چند سال پہلے PMDC کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6لاکھ سے زائد غیر سائنسی علاج کرنے والے دن رات غریب عوام کی صحت برباد کر رہے ہیں۔ صرف کراچی میں اندازاً 70,000 سے زائد لوگ غیر سائنسی طریقہ کار سے علاج کر رہے ہیں۔ بہرکیف آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں علم اور بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کا راج ہے۔کسی بھی ملک کے باسیوں کیلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی ایک خوشگوار اور بامقصد‘ صحت مند زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہیں اور ان میں کلیدی کردار صحت اور تعلیم کا ہے۔لیکن حکمرانوں نے یہ بھی ہم سے چھین لیا ہے، لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران اور ادارے چیک اینڈ بیلنس کو بہتر بناکر عوام کی مشکلات کا مداوا کریں۔ کیوں کہ وطن عزیز کی ہر شے میں اس وقت گھس بیٹھیے آگئے ہیں جو اس ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اُن سے جان چھڑا نے اور اُنہیں عبرت کا نشان بنانے کی اس وقت اشد ضرورت ہے، ورنہ ساری عوام ہی حقیقی”بینائی“سے محروم ہو کر خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور ہو جائے گی!