پاکستان سری لنکا سے بھی بدتر : مزید کہاں تک جانا ہے؟

یہ 2007کی بات ہے جب ہم ساو¿تھ ایشیئن فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے زیر اہتمام امتیاز عالم کی قیادت میں ہم نے سری لنکا میں آزادی صحافت کے لئے کئی کانفرنسیں منعقد کیں،سری لنکنز نے ہمیں بہت محبت اور پیار دیا،ایسے ہی لگ رہا تھا جیسے وہ ہمارے ہی کسی جزیرے کے باشندے ہیں، ایک جیسا رہن سہن ، ایک جیسی ”خاندانی حکومتیں“ اور ایک جیسی کرپشن اور سیاست کا ماحول! وہاں جا کر مجھے زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ وہاں کی کرنسی (سری لنکن روپیہ ) کے مقابلے میں ہماری کرنسی تگڑی تھی۔ غالباََ ایک پاکستانی روپیہ 1.7سری لنکن روپے کے برابر تھا۔ حالانکہ اُس وقت بھی ہم جس ملک میں بھی جاتے تو وہاں پاکستانی کرنسی کی اتنی زیادہ ویلیو نہیں ہوتی تھی، یعنی دنیا کے 90فیصد ممالک میں اُس وقت بھی روپے کے مقابلے میں اُن کی کرنسی تگڑی ہوتی تھی۔ لیکن سری لنکا مجھے واحد ملک لگا کہ جہاں پاکستانی کرنسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن آج حالات یہ ہیں کہ ہم سری لنکا سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، نہیں یقین تو گزشتہ روز شائع ہونے والی عالمی جریدہ شماریات بلوم برگ کی رپورٹ پڑھ لیں۔ جس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، یعنی سری لنکا میں مہنگائی 35فیصد جبکہ پاکستان میں 36فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ جو 1964 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذا بھی سری لنکا سے مہنگی ہے۔اور پاکستانی کرنسی اور سری لنکن کرنسی نیچے کی طرف آرہی ہے، اور آنے والے دنوں میں پاکستان کرنسی مزید پیچھے رہ جائے گی۔ بلومبرگ کے مطابق رواں سال پاکستانی کرنسی بدترین گراوٹ کا شکار رہی، جو ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گری اور دنیا کی کمزور ترین کرنسی میں شمار ہوئی۔الغرض توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان نے مہنگائی میں مالیاتی بحران کے شکار سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس رپورٹ کے بعد ایک سادہ سا سوال ہے کہ ابھی مزید کہاں تک جانا ہے؟ پھر یہاں بھی اگر کچھ لوگ شاکی ہیں تو زیادہ دور نہ جائیں بلکہ پی ڈی ایم حکومت میں شامل ن لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اسی جماعت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ہماری مدر درسگاہ جی سی یونیورسٹی میں خطاب بھی سن لیں ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں آج بد قسمتی سے ہر روز ملکی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ، ملک کے ادارے ایک دوسرے کے سامنے صف آراءہیں ، یہ ملک کے نظام کی بہت بڑی ناکامی ہے ،یہ نظام اتنا کرپٹ اور فرسودہ ہوچکا کہ ڈلیور نہیں کرسکتا، ہماری حکومت نے 84ارب روپے آٹے کی مد میں خرچ کیے ، اس میں سے 20ارب کی کرپشن ہوگئی،غریب کو کیا ملا ؟، کیا لوگوں کو عدالتوں سے انصاف مل رہا۔ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم مسائل حل نہیں کر سکے ، تمام جماعتیں حکومت میں رہیں کیا ڈلیور کر پائیں،ملک میں حقیقی لیڈر شپ نہیں ہو گی تو معاملات نہیں چلیں گے ، جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس وقت گورننس بھی بالکل تباہ ہو چکی ہے، اس حکومت میں کوئی بھی شخص ٹیکس دینے کو تیار نہیں ،جس ملک میں ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ عید کا چاند نظر آیا کہ نہیں وہاں کیسے ایک ساتھ الیکشن کروانے کا فیصلہ ہو سکتا ؟۔گورننس کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے مزید چھوٹے صوبے بنانا ہوں گے۔ان کی اپنی حکومت کے سابق عہدیداران کے بیانات کے بعد بھی اگر کوئی نہیں سمجھتا تو یہ بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔اور پھر ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہمیں ابھی مزید کہاں تک بربادی لانی ہے۔ ”بربادی“ سے مجھے یقینا ہٹلر کی یاد آگئی کہ 1943 میں دوسری جنگ عظیم جاری تھی ،ہٹلر کی جرمن فوج اتحادیوں کا مقابلہ تو کر رہی تھی مگر اُس کی مزاحمت ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی ، اتحادی افواج کی بمباری نے جرمنی کے شہروں کو تقریباً کھنڈر بنا دیا تھا۔جرمن شہری جان بچانے کیلئے محفوظ مقامات تلاش کررہے تھے مگر اُن کے چاروں طرف یا تو لاشوں کے انبار تھے یا پھر بمباری سے مسخ شدہ عمارتیں۔ہٹلر کو شاید اندازہ ہوچکا تھا کہ جنگ اُس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے مگر وہ حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا ،وہ سمجھتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح جرمن فوج اب بھی جنگ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اِس خوش گمانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض چار سال پہلے تک جرمن فوج کا کرّو فر ایسا تھا کہ دنیا کانپتی تھی لہٰذا ہٹلر اگر کسی خود فریبی میں مبتلا تھا تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی ،وہ اب بھی فوجی جوانوں اور افسروں سے ملاقاتیں کرتا اورنئے نئے جنگی ہتھیاروں کا معائنہ کرتا۔اور جس دن اُس نے خودکشی کرنا تھا وہ اُس دن بھی یعنی اپریل 1945 میں جب سوویت افواج برلن کے دروازے تک پہنچ گئیں تب بھی ہٹلر نوجوان سپاہیوں سے ملاقات کرکے انہیں لڑائی جاری رکھنے کی ہدایت دے رہا تھامگر اُس وقت تک وہ جان چکا تھاکہ اِس کا کوئی فائدہ نہیں ،اسی لئے 30 اپریل کواُس نے اپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کر لی۔اگلے روز یکم مئی کوبی بی سی نے جرمن ریڈیو کے حوالے سے ہٹلر کی موت کی خبر نشر کی۔ مطلب ! اگر ہم نے ہٹلر بننا ہے تو پھر لگے رہیں اور بربادی کا سامان پیدا کر تے رہیں ۔ ہٹلر کے جانے کے 78سال بعد آج جرمنی نے اپنے آپ کو سنبھالا ہے۔ حالانکہ اُس وقت کہا جارہا تھا کہ جاپان اور جرمنی دونوں ممالک آئندہ کبھی بھی اپنے پاﺅںپر کھڑے نہیں ہو پائیں گے مگر بہترین قیادت میسر آجائے تو ناممکن چیزیں بھی ممکن بن جاتی ہیں۔ اورآج دونوں ممالک دنیا کے دس بڑے خوشحال ترین ممالک میں شمار ہوتے ہےں۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں نے ابھی تک خودکشی نہیں کی، بلکہ جب ملک پر برا وقت آتا ہے تو یہ لوگ ملک سے ہی کوچ کر جاتے ہیں۔ اور مہنگائی و دیگر مسائل کو برداشت کرنے کے لیے عوام رہ جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ آمروں کی حمایت کرنے والے آج آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ نہیں یقین تو خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔اور تو اور بھٹو کے لیے انصاف کے نعرے لگانے والے اُس وقت بھٹو کو پھانسی دلوانے میں سب سے آگے تھے۔ بہرکیف آج ہماری حالت 1945 کے جاپان اور جرمنی سے زیادہ بری تو نہیں ، ہم پر کسی نے ایٹم بم نہیں گرایا، ہمارے شہروں پر پچاس ممالک کی افواج نے بمباری نہیں کی ، اِس کے باوجود ہم اپنے مستقبل سے اِس قدر مایوس ہیں کہ ہر دم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ خاکم بدہن یہ ملک نہیں رہے گا۔لیکن یہ مایوسی بلاوجہ نہیں ہے۔اِس مایوسی کے پیچھے نا امیدی ہے اور نا امیدی کے پیچھے نالائقی ہے اور نالائقی کے پیچھے پچھتر برسوں کی وہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے اِس نالائقی کو جنم دیا ہے ، نالائقی نے نا امیدی کو بڑھاوا دیا ہے اور نا امیدی نے مایوسی پیدا کی ہے۔یہ ملک اتنے برے حالات کا مستحق نہیں تھا جتنے برے حالات کو پہنچ چکا ہے۔ اس کے ذمہ داران کوئی بھی ہوں لیکن آخری ذمہ داری سیاستدانوں ہی کی بنتی ہے جو آج بھی مذاکرات تو کر رہے ہیں مگر وہ صرف وقت گزاری کے لیے کر رہے ہیں، بادی النظر میں وہ کسی کے ایما پر کر رہے ہیں، اُن کی نیتیں صاف نہیں لگ رہیں۔ وہ کسی طور پر بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ کل تک مذاکرات کا آخری دن تھا مگر کوئی نتیجہ سامنے نہ آسکا۔ اگر مذاکرات کامیاب بنانا ہوتے تو کبھی تحریک انصاف کے سینئر قائد پرویز الٰہی کے گھر حملہ نہ ہوتا۔ اگر مذاکرات کامیاب کرنا تھے تو کبھی وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر یہ نہ کہتے کہ جج اپنی تاریخ کا حساب دیں۔ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا، یوسف رضا گیلانی کی برطرفی اور نواز شریف کی برطرفی کا، آئین معطل کرنے کا عدلیہ سے حساب لیا جائے۔ یہ اپنے پرکھوں کا حساب دیں۔کیا ان لوگوں کا احتساب ہو گا جنہوں نے جنرل مشرف کو آئینی ترمیم کرنے کا اختیار دیا؟ وہ ادارہ اپنا ماضی پاک کرنے کے لیے کیا کرے گا؟ ہم لوگ اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں۔ہم نے بھی آمروں کی حمایت کی ہے اور اس کی قیمت ادا کی ہے، انہوں نے نہیں ادا کی۔ہم نے بہت حساب دیے ہیں، ہمیں بھی حساب دیا جائے۔ ہمارے گریبان پر عوام کے ہاتھ ہوتے ہیں، وہ ہم سے حساب مانگتے ہیں۔الغرض اب ہو یہ رہا ہے کہ دونوں اطراف میں یہ کہا جا رہا ہے کہ تم ایسے کرتے رہو ہم ایسے کرتے رہیں گے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر کسی نتیجے پر پہنچنا ہے یا ملک کو بچانا ہے تو ہر طرف سے سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ صرف کور کمانڈرز کے اجلاس سے، یا ای سی سی کی میٹنگز بلا کر مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں بلکہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھایا جائے اور کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ کیوں کہ سیاسی استحکام ہوگا، ملک میں مثبت سیاست ہوگی، اپوزیشن ملکی بقا کے لیے حکومت پر تنقید کرے گی اور کسی نتیجے پر پہنچے گی تب ہی ملک ترقی کر سکے گا ورنہ ہمارے پاس سری لنکا کے بعد خاکم بدہن سوڈان جیسے حالات کا سامنا کرنا باقی رہ گیا ہے۔