سپریم کورٹ ....آپ سے یہ اُمید نہیں تھی!

علم نہیں یہ کیسا ملک ہے، جہاں 2الگ طبقات رہتے ہیں، ایک وہ جسے اشرافیہ کہتے ہیں ، اور دوسرا وہ جسے ”عام آدمی“ کہتے ہیں۔ ایک وہ جو ہیلمٹ نہ پہننے یا سگنل توڑنے پر حوالات میں رات گزارتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ بندے مار کر بھی گھر میں چین کی نیند سوتا ہے۔ ایک وہ جس کو انصاف پہنچانے کے لیے دن رات عدالتیں کھلی ہیں، جبکہ دوسرا وہ جس کی کئی کئی نسلیں ”فیصلے“ کے انتظار میں گزر گئیں۔ ویسے ہمیں پاکستان بننے سے پہلے کے حالات کا توآنکھوں دیکھا حال نہیں پتہ ....مگر اس وقت جو حالات بن چکے ہیں،،، اُس لحاظ سے تو ”دو قومی نظریہ“ اب لاگو ہونا چاہیے۔ جس کی تعریف یہ ہو کہ عام آدمی کو ایسا پاکستان چاہیے جس میں اُسے انصاف ملے، پروٹوکول کے لیے گھنٹوں سڑک پر خوار نہ ہونا پڑے، سرکاری دفاتر میں اُسے آسانی اور بغیر رشوت کے سہولیات مہیا کی جائیں اور قانون سب کے لیے برابر ہو ، وغیرہ وغیرہ ۔ یقین مانیں! آپ دنیا بھر کا سفر کر لیں، لیکن جیسے ہی پاکستان لینڈ کریں گے، آپ کو یہاں احساس کمتری کا شکار ائیرپورٹ پر ہی ہونا شروع ہو جائے گا جب کسی سرکاری افسر کی فیملی خاص دائرے میں پروٹوکول لیتا دیکھیں گے۔ پھر ائیر پورٹ سے نکل کر جب آپ سڑک پر آئیں گے تو یہاں بھی آپ کو گھنٹوں انتظار کروایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ صبر کریں فلاں وزیر کا پروٹوکول لگا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں عام آدمی زچ ہو کر رہ جاتا ہے اوراپنے آپ کو کوستا ہے کہ ہم نہ جانے کس ملک میں رہ رہے ہیں،،، اور پھر رہی سہی کسر ایسے نوٹیفکیشنز سے نکل جاتی ہے، جس میں عام آدمی کی تضحیک کی جائے، مثلاََ گزشتہ روز ایک نوٹیفکیشن کے سامنے آیا، جس کے مطابق ملک بھر کے ایئر پورٹس پر ججز اور ان کی بیگمات کو ہوائی اڈوں پر تلاشی سے مستثنیٰ قرار دے دیاگیا ہے(یہ نوٹیفکیشن 12اکتوبر کا ہے، جو حال ہی میں منظرعام پر آیاہے)۔ جس کے مطابق سیکرٹری ایوی ایشن کی ہدایت پر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر چیف جسٹس اور ان کی اہلیہ کی تلاشی نہیں ہوگی۔اب کوئی یہ بتائے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور قانون پر عمل درآمد کروانے والوں کا یہ حال ہے تو پھر عام پاکستانی کہاں جائے؟ پھر کل کو کوئی سترہویں بیوروکریٹ، کوئی تاجر ، کوئی صحافی یا کوئی سیاستدان بھی کہے گا کہ ہمیں بھی پروٹوکول دیا جائے، پھر یہ سلسلہ یوں ہی چل نکلے گا۔ اس سے بہتر تو پھر عمران خان کی حکومت تھی، کہ جس نے تمام ائیرپورٹس پر پروٹوکول ہی ختم کر دیا تھا،، ، جبکہ اب نا تو موجودہ حکومت اس پر عمل درآمد کر واپا رہی ہے اور نہ ہی سابقہ حکومتیں،،، جیسے ن لیگ کے سابقہ دور میں چودھری نثارنے بھی پروٹوکول ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ اور پھریہ بتایا جائے کہ دنیا میں ایسا کہاں ہے؟ لیکن یہ پروٹوکول آپ کو صرف پاکستان ہی میں نظر آئے گا، مغربی ممالک کے سربراہان کا پروٹوکول دیکھا جائے تو وہ انتہائی معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، وہاں ائیرپورٹ پر بھی وہ عام آدمی کی طرح لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں، شاپنگ مال میں عام آدمی کی طرح اشیائے ضروریہ خریدتے نظر آتے ہیں، بلکہ وہاں کے سرکاری عہدیداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ملکی سربراہان کی آمدورفت کے وقت پروٹوکول کم سے کم رکھا جائے تاکہ عوام الناس کو اس حوالے سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرا کئی مرتبہ بیرون ملک جانا ہوا، مگر مجال ہے میں نے وہاں پروٹوکول کے نام پر کسی جگہ ”دوقومی نظریہ“ دیکھا یا سنا ہو۔ بلکہ ایک دفعہ میں اپنے دوست کے ساتھ ایک ٹریفک سگنل پر رُکا تو اپنی دائیں جانب کھڑی کار دیکھی جو میری طرح سگنل کے احترام میں کھڑی تھی اور وہ کار ہسپانوی وفاقی وزیر قانون کی تھی اور وہ بھی بغیر پروٹوکول کے۔ جرمنی، اسپین، فرانس، اٹلی اور دوسرے یورپی ممالک کے سربراہان کے پروٹوکول پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ بہت کم پروٹوکول رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس یہاں سابقہ حکومتی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کا پروٹوکول دیکھیں تو ائیر پورٹس سے لے کر اُن کے گھر تک خواہ 50کلومیٹر کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ جگہ جگہ آپ کو پروٹوکول آفیسر ڈیوٹی دیتے نظر آئیں گے۔ بلکہ ایک جج صاحب کے بارے میں یہ رپورٹ بھی آئی تھی کہ موصوف نے اپنے بیٹے کی امریکہ روانگی کے موقع پروزارت خارجہ سے پروٹوکول مانگا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ رجسٹرار جو خود ایک جج ہے نے پروٹوکول کے لیے خط لکھ کر جج کے بیٹے کے لیے پروٹوکول کی درخواست کی۔جب حالات یہ ہوں تو کیسے ممکن کہ ملک ترقی کر سکے۔ بہرحال دنیا بھر میں غیر ضروری پروٹوکول لینا ذہنی مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں یہ مرض نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے، سب سے پہلے یہاں ”پروٹوکول “ کی روایات کا آغاز سابق صد رپاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے کیا تھا، جو ائیرپورٹ سے شروع ہو کر سڑکوں تک آگیا۔ جس سے عوام کوخاصی پریشانی ہوتی تھی۔ مریضوں کو خاص طور پر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا ، اس وجہ سے اگر کوئی مریض ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ۔ لیکن اس پروٹوکول کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے آکر قدرے ختم کیا ۔ بھٹو صاحب نے برسراقتدار آتے ہی اپنے گزرنے کے اوقات میں شاہراہوں کو کھلا رکھنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ یہ ایک قابل ستائش اور قابل تقلید روایت تھی۔ لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ بعد ازاںکسی حاکم یا نام نہاد عوامی خدمت سے سرشار حکمران کو شاہراہیں بند رکھنے سے عوام کی تکلیف کا ادراک نہ ہو سکا اور نہ ہی ان کے ضمیر نے کبھی ملامت کی کہ عوام پر کیے گئے اس جبر سے کتنا نقصان ہوتا ہے اور اس سے عوام پر کیا گزرتی ہے۔ لہٰذاپھر سیاستدانوں اور جرنیلوں سے ہوتی ہوئی یہ بیماری اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے والے ملازمین تک بھی جا پہنچی۔ پھر یہی نہیں بلکہ اس بیماری کے مختلف مراحل ہیں۔ عہدے کے ساتھ ساتھ پروٹوکول کے درجات بھی بلند ہوتے جاتے ہیں۔ اس بیماری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ متعدی ہونے کے سبب بڑے حکمرانوں یا افسروں کے قریب رہنے والے اہلکار بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس میں مبتلا لوگ خود کو مافوق الفطرت سمجھنے لگتے ہیں۔ قومی مال و دولت کی حرمت سے تہی دست ہو جاتے ہیں۔ بہرکیف جب تک ہماری اشرافیہ عوام کی سطح پر نہیں آئے گی پاکستان کی حالت نہیں بدل سکتی۔اور پاکستان میں یہ بیماری تقریباً لاعلاج ہے، اور مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس میں مبتلا”مریض“جب مسند اقتدار کھو بیٹھتے ہیں اور سرکاری افسران جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تو اس بیماری کی پیچیدگیاں دیکھنے میں آتی ہیں جن میں ڈپریشن سرفہرست ہے اس کے علاوہ مالیخولیا اور چپ سادھ لینے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔لہٰذاہمیں مسئلہ ججز کے نوٹیفکیشن کا نہیں ہے بلکہ یہ دیگر افسران جو پروٹوکول کے لیے رہ گئے ہیں اُن کے لیے راہیں ہموار کرے گی۔ مثلاََ اس کی آپ کو ایک مثال دیتا چلوں کہ ایک بار پنجاب اسمبلی میں زرعی ٹیکس پیش ہوا، جو بہت تھوڑا تھا، اُس وقت منظور احمد ڈپٹی سپیکر تھے، اُنہوں نے خاصا شور کیا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ کسان اس قابل نہیں ۔ اُس وقت کے وزیر خزانہ نے کہا کہ تھوڑا سا تو ٹیکس ہے، اس میں حرج ہی کیا ہے؟ جس پر منظوراحمدنے کہا کہ ”ایک شخص سو رہا تھا، تو اُس کے پیٹ کے اوپر سے چیونٹی گزر گئی، اُس نے شور مچادیا، لوگوں نے کہا شورکیوں مچا رہے ہو، آخر چیونٹی ہی تو گزری ہے، جس پر اُس شخص نے کہا کہ بات چیونٹی کی نہیں ہے، ڈر یہ ہے کہ کہیں اسے راستہ نہ بنا لیا جائے“ یعنی بات تھوڑے یا زیادہ ٹیکس کی بات نہیں، بات صرف یہ ہے کہ حکومت کو کسانوں سے ٹیکس لینے کی عادت پڑ گئی تو یہ کبھی نہیں جائے گی۔ اگر جرنیل،ججز، سیاستدان، پارلیمنٹیرینز اور بیوروکریٹس قانون اور قواعد و ضوابط سے مستثنیٰ ہوں گے تو کیا قانون اور قواعد و ضوابط عام شہری کے لیے ہیں؟ کیا دستور کے آرٹیکل 25 کے مطابق سب شہری برابر نہیں ہیں؟الغرض جب ان کا احتساب ہوتا ہے تو یہ ایک دوسرے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر مراعات لینے کی باری ہوتو یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے بھٹو صاحب نے اس قبیح رسم کو توڑا تھا، اسی طرح پھر سے کوئی مرد مجاہد آگے بڑھے اور پروٹوکول کے بت کو توڑے۔ ایسے کام کی ابتدا کے لئے موجودہ قاضی صاحب بہترین آپشن ہیں، میرا خیال ہے فائز عیسیٰ صاحب کو اس بات کا علم نہیں ہوگا۔ اور اگر ہوا تو وہ یہ نوٹیفیکیشن فوراََ معطل کروادیں گے۔ عیسیٰ صاحب جب چیف جسٹس نہیں تھے تو بغیر پروٹوکول پیدل سپریم کورٹ آتے تھے۔اُمید ہے وہ اس قبیح رسم کو ختم کر وا کر 24کروڑ عوام کی نمائندگی کریں گے ۔ کیوں کہ منصف سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جو دہائیوں سے پروٹوکول کی نفی کرتا رہا ہو۔ پروٹوکول کو رد کرنے سے جہاں منصفوںکی عزت و تکریم عوام کے دلوں میں جاگزیں ہو گی وہاں ان کے ذہن میں عوامی مسائل بھی رسائی پائیں گے اور حالات کے سدھار کی طرف بڑھیں گے۔