آخر تحریک عدم اعتماد کی ضرورت کیا تھی؟

” اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں“۔ یہ جملہ گزشتہ 3دہائیوں سے ہر ذی شعور شخص دہرا رہا ہے ، مگر اب حالات یہ آن پہنچے ہیں کہ ہمیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذاہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان ہیں۔ ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود سیاستدانوں کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں۔ ہماری عدلیہ ، ہمارا میڈیا ، ہمارے دانشور اور ہماری اسٹیبلشمنٹ شریک مجرمان ہیں۔ ورنہ تحریک انصاف کی گزشتہ ساڑھے تین سال سے حکومت چل رہی تھی، حالات ٹھیک ہو رہے تھے، ہر جگہ پروٹوکول ختم ہو رہا تھا، اداروں کی اہمیت بڑھ رہی تھی، شخصیات کی اہمیت کم ہو رہی تھی، ایف بی آر کا سسٹم مکمل کمپیوٹرائزڈ ہو رہا تھا، پٹوار سسٹم میں بہتر ی آرہی تھی، بیوروکریسی انڈر کنٹرول تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاناپڑی اور چلتی ہوئی حکومت کو ختم کرکے ”تجربہ کاروں“ کو میدان میں اُتارا گیا۔ جنہوں نے آکر ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ آج جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پہلے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنا کر ملک کو ڈبویا گیا اور پھر اسحاق ڈار نے معیشت کا برا حال کردیااور زرمبادلہ کے ذخائر کو 18ارب ڈالر سے ساڑھے تین ارب ڈالرسے بھی کم پر لاکر پھینک دیا گیا۔ اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ روپیہ ٹکا ٹوکری ہو چکا ہے، ڈالر ایک ایک دن میں 24،24روپے بڑھ رہا ہے، پٹرول 30سے 35روپے بڑھ رہا ہے،ہر ضرورت اشیاءمہنگی سے مہنگی ترین ہوتی جا رہی ہے، ہر امپورٹڈ چیز پہلے سے دوگنا ہو رہی ہے۔غربت میں 13فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے، یعنی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں60لاکھ خاندانوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ لوگوں کے پاس پرتعیش لائف تو ایک طرف مگر روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارہ کرنا ناممکنات میں سے ایک ہے۔ مگر حد تو یہ ہے کہ صورتحال کہیں سے بہتری کی طرف جاتی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ لیکن اندر کھاتے خاکم بدہن ملک ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے بیل آﺅٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا حجم کم کرے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمدکیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 ( سولہ ہزار ) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے۔ جبکہ پاکستان کی صورتحال بھی یہی ہے، بہت سے اقدامات کرنے کے باوجود اسحاق ڈار ابھی تک آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کی نوید سنانے سے قاصر ہیں۔ لیکن اسی اثناءمیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اور معذرت کے ساتھ ابھی تک پاکستان کو صحیح قیادت ہی نصیب نہ ہو سکی۔ آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں بہت سے لیڈروں نے اپنی قوم کا مقدر بدل کر رکھ دیا، جبکہ یہاں زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف ، حمزہ شہباز، سلمان شہباز، مریم نواز و دیگر رہنما ماسوائے اپنے کیسز ختم کروانے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ یقین مانیں حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی تقدیر بدلنے والے حکمران آج ہمارے ہاں کیوں نہیں ملتے۔ ہمارے ہاں حقیقی نیلسن منڈیلا نہ جانے کب پیدا ہوگا، جو 28سالہ قیدسے رہائی کے بعد اپنے وطن لوٹا تو اُس نے سب سے پہلے اپنے دشمنوں کو معاف کیا اور عوام سے مخاطب ہو کر وعدہ لیا کہ ”جو میں مانگوں گا ،وہ آپ مجھے دو گے “۔ عوام کا خیال تھا کہ نیلسن مینڈیلا اپنے یا اپنے بچوں کیلئے کچھ مانگے گا لیکن اُس نے عوام سے ایک ہی بات کی خواہش ظاہر کی اور کہا ”عوام عہد کریں کہ آج کے بعدکبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔“تو پھر دنیا نے دیکھا کہ اُس کی قوم سچ بولنے والے پہلے دس ممالک میں آگئی اور ملک ترقی کرگیا۔ پھر انہوں نے ملک کو سنبھالا پھر اقتدار ایک ذمہ دار شخص کے حوالے کرکے علیحدہ ہوگئے۔بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل اپنا کل اثاثہ ملک و ملت کے نام وقف کر گئے۔ماﺅزے ت±نگ نے عوام سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ جوتے نہیں پہنیں گے “۔اور پھر اس پر خود عمل کیا، ماﺅزے ت±نگ نے چین کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ،جواہر لال نہرو نے سب شاہانہ ٹھاٹھ بھاٹھ ختم کرکے کھدر کے کپڑوں میں سادہ زندگی بسر کی۔اور عوام کی خدمت کی ،امام خمینی نے کبھی اقتدار کی آرزو نہ کی بلکہ ایک حجرے میں بیٹھ کر اپنی اسلامی و انقلابی سوچ کو اپنا کر ایران کے عوام کی عزت وقار کو بحال کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان قائدین کے نام تاریخ میں امر ہو چکے۔ اسی طر ح کئی ممالک کے لیڈروں نے خودسے زیادہ قوم کی ترقی وخوشحالی کو مقدم جانا اور اپنے عوام کی تقدیر بدل ڈالی۔ اس کے برعکس ہمارے سیاستدانوں نے قوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے محض حصول اقتدارکو مطمح نظر بنایا، اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے پر توجہ دی۔اور جس سیاستدان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت ہونا تو دور کی بات کیس بھی نہ بن سکا۔ اُس پر توشہ خانہ، فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ جیسے کیس لگا دیے جن کا براہ راست خان صاحب سے تعلق بھی نہیں بنتا۔ لہٰذااسی عدم استحکام اور اداروں کی مداخلت کی وجہ سے آج دنیا پاکستان پر اعتبار نہیں کر رہی، بیرون ملک پاکستانی، پاکستان میں پیسہ نہیں بھجوا رہے۔ اور خاص طور پر جب سے خان صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے ریمٹنس میں 4ارب ڈالر کی کمی واقعہ ہوئی ہے۔ یعنی گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال بیرون ملک پاکستانیوں نے 4ارب ڈالر کم بھیجے ہیں۔ اور یاد دلاتا چلوں کہ ہمارے حکمران بھی اتنی ہی رقم مانگنے کے لیے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔ (سخت الفاظ کے لیے معذرت چاہتا ہوں مگر لفظوں کو چھوڑیں حالات کو دیکھیں جو اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔) حالات کے حوالے سے نہیں یقین تو قوموں کے عروج و زوال پر نظر رکھنے والے ایک ادارے ” ورلڈ اکنامک فورم (WEF)“نے پاکستان کے بارے میں جاری کردہ ”گلوبل رسک رپورٹ 2023“میں درج ذیل10خطرات کی نشاندہی کی ہے جو اگلے2سال میں پاکستان کو درپیش ہوسکتے ہیں1۔روزگار اور معاشی بحران2۔قرضوں کا بحران3۔توانائی کا بحران،4۔دہشت گردوں کے حملے5۔بین الملکی تنازع،6۔سوشل میڈیا کا غلط استعمال7۔زمینی حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور ماحولیاتی نظام کا خاتمہ8)صحت و تعلیمی سہولتوں کافقدان 9۔افراطِ زر10۔ریاست کا خاتمہ۔فورم نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان کو نظر انداز کرنا سراسر نادانی ہے مستقبل قریب میں ہم ایسے معاشی و اقتصادی بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی، کساد بازاری اور افراتفری پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ جبکہ ہمارے سیاستدان اپنے اقتدار کی جنگ، ذاتی مفادات کے حصول، اپنی اولادوں کے روشن مستقبل ،ہارس ٹریڈنگ اور یو ٹرن جیسی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان ، مقتدرہ قوتیں اور عوام مل کر ملک کو بچائیں جو خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے ، اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، ملکی بقا اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بحالی اورقوم کو غیروں کی غلامی سے نجات د لانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔ کیونکہ مضبوط اور خوشحال پاکستان ہی ہماری بقاءکی ضمانت ہے۔ ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں سیانے کہتے ہیں کہ غلطی کو سدھارنے کے لیے سب سے پہلے غلطی کا اعتراف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ادارے آج غلطی کا اعتراف کریں کہ آ ج ہر مسئلے کی وجہ تحریک عدم اعتماد ہے۔ یہ بھی اعتراف کریں کہ عمران خان کے دور میں مہنگائی 13فیصد تھی، لیکن آج 30فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بھی اعتراف کریں کہ خان کی حکومت کو ذاتی رنجش کی وجہ سے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ یہ بھی اعتراف کیا جائے کہ خان کی حکومت میں اگر کوئی چیز غلط تھی تو آج اُسے ٹھیک کرنے کے لیے بھی کوئی اقدام نہیں اُٹھایا جا سکا۔ یہ بھی اعتراف کیا جائے کہ پی ڈی ایم میں موجود تمام جماعتوں کے عہدیداران پر سے تمام کیسز یا تو ختم ہو چکے ہیں یا ختم کرنے کے لیے عدالتوں میں موجود ہیں۔ لہٰذااگر ابھی بھی حالات ٹھیک نہیں ہو رہے تو سادہ سا سوال ہے کہ ابھی بھی اقتدار سے چمٹنے کا آخر مطلب کیا ہے؟ الیکشن کروا دیے جائیں تو جو بھی بہتر ہوا، اُسے 5سال کے لیے اقتدار دے دیا جائے، تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ اور پھراب تو مخالف سیاسی جماعتوں کی کرتا دھرتا لیڈر مریم نواز بھی ملک میں آچکی ہے جو سنا ہے کہ ن لیگ کی کمان سنبھالے گی تو اب پیچھے کیا رہ گیا ہے؟ الیکشن کی تاریخ دیں، الیکشن کروا لیں، دنیا کے بڑے اداروں کو ضمانتی بنا لیں۔ تاکہ اُن کا بھی ہم پرا عتماد بحال ہو۔ ایسا کرنے سے یقینا ہمارے آدھے سے زائد مسائل ختم ہو جائیں گے ورنہ اگر اسی سیٹ اپ کو مزید آگے بڑھایا گیا تو افسوس کے سوا کچھ نہیں رہے گا!