14مئی الیکشن : مگرترکیہ کے!

14مئی کو عام انتخابات کا ہونا یقینی ہوگیا ہے، مگر یہ پاکستان کے نہیں بلکہ کسی اور ملک یعنی ترکیہ (پرانا نام ترکی) کے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں الیکشن کی دی جانے والی اس تاریخ کو آنے میں اب صرف 5,6دن رہ گئے ہیں ، لہٰذاکہیں کوئی گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ نہ ہی الیکشن کمیشن کی کہیں تیاریاں دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن پورا پاکستان ان دنوں صرف ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہا ہے۔ انتخابات۔ اس ایک نکتے سے دو مرکزی سوال نکل رہے ہیں۔ انتخابات کب ہوں گے؟ ہوں گے تو کون طاقت کا نیا مرکز بنے گا؟ پی ڈی ایم ہو یا عمران خان‘ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ انتخابات اسی سال 2023ئ میں ہونے ہیں‘ اصل اختلاف یہاں ہے کہ کس مہینے میں ہوں۔ اسی اختلافی مسئلے کے گرد اعلیٰ عدلیہ بھی گھوم رہی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی۔ لیکن 14مئی کو انتخابات ہونے ہیں اور ترکیہ میں ہونے ہیں، جہاں طیب اردگان گزشتہ 20برس سے برسر اقتدار ہیں۔ حالانکہ اگر انتخابات ملتوی ہونا تھے تو وہاں ہوتے، طیب اردگان کے پاس یہ بہترین موقع تھا کہ وہ بہانہ بناتے اور کہتے کہ ابھی گزشتہ مہینوں میں تاریخ کا بھیانک ترین زلزلہ آیا ہے جس میں 60لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور 60ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں اس لیے انتخابات ملتوی کرنا پڑ رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ ایک دن بھی الیکشن آگے پیچھے ہوئے ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا شاید اس لیے ہے کہ جمہوریت کا حسن شخصیات نہیں بلکہ ”عام انتخابات“ ہوا کرتے ہیں۔ اور جمہوری ملکوں میں اسے اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے جتنا کہ وہاں قوانین کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ خیر یہ تو تہذیب یافتہ قوموں اور ملکوں کی بات ہو رہی ہے ، ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ لہٰذااگر ترکیہ الیکشن کی بات کریں تو اس وقت وہاں طیب اردگان اور اپوزیشن کے مشترکہ اُمیدوار کمال قلیچ داراوغلو کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اندازوں کے مطابق 6 اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کمال قلیچ داراوغلو، اردوان کیلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ اتنا مشکل اور سخت مقابلہ انہیں شاید کبھی پیش نہیں آیا تھا۔ ترکیہ کے انتخابات انہی کے لیے نہیں‘ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ اس لیے اس صورتحال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔اور پھر ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک درجن سے زیادہ انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں اور 2016 میں ان کے خلاف بغاوت کی کوشش بھی ناکام ہوگئی تھی۔ آگے چلنے سے پہلے اگر ترکی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ پہلی جنگ عظیم اول کے اختتام کی بات ہے جب فرانس، برطانیہ و امریکا جنگ جیت چکے تھے ، 1922ءمیں سلطنت عثمانیہ ختم ہوچکی تھی ، آخری سلطان محمد ششم وحید الدین کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ ”لوزان“ کے تحت 24 جولائی 1923ءکو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیاتھا۔ اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ فاتح قوتیں ترکی کے بڑے حصوں پر قابض تھیں۔ان قوتوں میں سے برطانیہ نے وہ خطرناک اور ظالمانہ شرائط معاہدہ لوزان میں شامل کروائی تھیں جن کی رو سے ترکی کے ہاتھ پاوں باندھ دئیے گئے تھے اور ترکی اگلے 100برس تک اس معاہدہ کو نبھانے کا پابند قرار پایا تھا۔اسی لیے طیب اردگان ایک سے زیادہ بار واضح کرچکے ہیں کہ 2023 ءکے بعد ترکی وہ ترکی نہیں رہے گا،بلکہ اپنے ملک میں ہم اپنی زمین سے پٹرول بھی نکالیں گے اور ایک نئی نہر بھی کھودیں گے جو بحر اسود اور مرمرہ کو باہم ملاکر مربوط کردے گی اور اس کے بعد ترکی یہاں سے گزرنے والے ہر بحری جہاز سے ٹیکس وصول کرے گا۔ اس صورت حال سے ساری کہانی واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کیوں طیب اردگان کا اتنا سخت دشمن ہے اور اس کے اپنے مفادات کس طرف ہیں ۔ لہٰذامغربی ممالک کی آخری حد تک کوشش یہی ہے کہ طیب اردگان دوبارہ اقتدار نہ سنبھالیں۔ لیکن ہمیں یہ ضرور علم ہونا چاہیے کہ یہ وہی طیب اردگان ہیں جنہوں نے اپنے ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارہ دلایا۔ کیا پاکستان میں آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہونے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے؟ یقینا آپ کا جواب نہیں میں ہوگا۔ لیکن طیب اردگان نے محض 6سال میں ایسا کرکے دکھایا۔ یعنی 2003ءمیں اقتدار سنبھالنے کے محض 6سال بعد 2009ءمیں انہوں نے آئی ایم ایف سے مستقل جان چھڑالی۔ وہ 2003 سے 2014 تک مسلسل ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے اب تک ترکی کے 2دفعہ صدر منتخب ہوئے۔ اتنے کم عرصے میں کوئی ”سلطان “کیسے بن سکتا ہے؟ اتنے کم عرصے میں سیاست میں آکر کوئی کیسے دنیا کی مضبوط ترین فوج کی بغاوت کو عوام کے ذریعے کچل سکتا ہے؟ کوئی کیوں کر طیب اردگان کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور بیچ سڑک میں آکر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ طیب اردگان نے ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو بلند کرنے کے لیے کام کیا، امریکا و یورپ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی۔ اگر مغربی ممالک نے ترکی کی معیشت کو دباﺅ میں لانے کے لیے اُس پر معاشی پابندیاں سخت کردیں تو اُس نے اس کے متبادل ممالک سے رابطے بڑھا کر اپنے ملک کی معیشت کو بچایا۔ جبکہ یہاں پاکستان کے” سلطانوں“ کو تین تین دفعہ اقتدار میںآنے کا موقع ملا مگر بدقسمتی سے میرے ملک کی معیشت کو انہوں نے نچوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے ملک میں ایلیٹ کلاس نے فارن اکاﺅنٹس بھرے اور ملک پر 200ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا دیا۔جبکہ اس کے برعکس اردگان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا، جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں جی20- کے کلب میں شامل ہوگیا ۔ 10 سالوں کے دوران ترکی نے جنگلات اور پھل دار درختوں کی شکل میں 3ارب کے قریب درخت لگائے۔جبکہ یہاں عمران خان کے ”بلین ٹری سونامی “نامی پراجیکٹ کو سیاست کی نذر کرکے ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ اردگان نے 10 سالوں کے دوران 125 نئی یونیورسٹیاں، 189 سکول، 510 ہسپتال اور 1 لاکھ 69 ہزار نئی کلاسیں بنوائیں تاکہ طلبہ کی تعداد فی کلاس 21 سے زیادہ نا ہو۔گزشتہ مالی بحران کے دوران جب امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھا دی تھیں ان دنوں میں بھی اردگان نے حکم نامہ جاری کیا کہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم مفت ہوگی اور سارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ جبکہ اس کے برعکس میرے ملک پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا۔ جس میں ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں کی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کمیشن وصول کرتے ہوئے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں، پھر منافع بخش کالجز، یونیورسٹیوں میں اپنے بندے لگا کر وہاں سے اپنا حصہ وصول کیا جاتا رہا۔ 10 سال پہلے ترکی میں فی فرد آمدن 3500 ڈالر سالانہ تھی جو 2018 میں بڑھ کر 15 ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح فرانس کی فی فرد شرح آمدن سے زیادہ ہے۔میرے ملک میں اوسطاََ ہر فرد کی روزانہ آمدن 2ڈالر اور سالانہ آمدن 700ڈالر سے بھی کم ہوگئی جبکہ میرے ملک کے امیر سیاستدانوں نے آف شور کمپنیاں بنا بنا کر اپنی روزانہ کی آمدن کروڑوں روپے کر لی۔ بہرکیف جس قسم کی مہنگائی کا سامنا اس وقت پاکستان کے عوام کو ہے، ترکیہ کے عوام بھی اسی قسم کے بحران سے گزر چکے ہیں تبھی طیب اردگان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک چیلنج ان 60 لاکھ نوجوان ووٹرز کا ہے جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔اس نسل نے ہوش سنبھالا تو طیب اردوان کو سربراہ مملکت دیکھااور و ہ ان حالات سے پوری طرح واقف نہیں جو ترکیہ کو ان کی پیدائش سے پہلے لاحق تھے۔یہ عام آدمی خصوصا ًنوجوانوں کا نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اور مسائل کا سامنا ہو تو اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو سمجھتے ہیں۔انہیں دوسرا مسئلہ معاشی بحران بھی ہے، جو مغربی قوتیں ترکی کے گرانے کے لیے پیدا کر رہی ہیں جیسے افراطِ زر اکتوبر 2022 ءمیں85فیصدتک پہنچ گیا تھااور ترکی کرنسی لیرا اپنی تاریخ کے نچلے ترین درجے تک گر چکی ہے۔اس نے عام آدمی کے لیے زندگی نہایت مشکل بنادی ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر مہنگائی سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھی ہے تو تنخواہیں تیس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھیں۔پھر وہاں ایک بڑا مسئلہ دس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کا ہے جنہوں نے ترک معاشرے پر بہت اثرات ڈالے ہیں۔ جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر شہر میں بھکاریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح طیب اردوان کی اس پالیسی پر بھی نکتہ چینی کی جارہی ہے جس میں غیر ملکیوں کو ترکیہ میں مخصوص شرائط کے ساتھ شہریت‘کاروباراور جائیداد کی ملکیت کا حق دیا جارہا ہے۔پھر وہاں انہوں نے کئی ایک جرنیلوں کو پھانسی کے تختہ دار تک پہنچایا ہے۔ جس کے آفٹر شاکس اُن کی ذاتی زندگی میں بھی آتے رہیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ جمہوریت کے حسن ہی کی بدولت ہے، جمہوری ملکوں میں اسے ایک ”تہوار“ سمجھا جاتا ہے۔ یقین مانیں کل ٹی وی پر طیب اردگان کا استنبول میں 17لاکھ افراد پر مشتمل جلسہ دیکھا جسے ترک میڈیا صدی کا سب سے بڑا جلسہ قرار دے رہا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہی سرگرمیاں کہیں پاکستان میں بھی لوٹ آئیں ، تبھی ہم حقیقی جمہوریت کی طرف دیکھ سکتے ہیں ورنہ سیاسی ادارہ یقینا دوسرے اداروں کی مرہون منت ہی رہے گا!