موجودہ ”امپورٹڈ“حکومت امریکا کی مرہون منت ؟

خان صاحب کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے امریکی حلقوں میں اس بات کو ضرور پھیلا دیا ہے کہ برابری کی سطح پر بات ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے! اس کے لیے خان صاحب نے میدان میں اکیلے چھلانگ ضرور لگائی تھی، مگر اب اُنہیں بھی اُن کے دوست سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سر! واپس آجائیں، ہم جو بات امریکا کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ امریکا سمجھنا ہی نہیں چاہ رہا آج کل ہمارے سیاستدانوں کے لب و لہجے اس قدر بدلے بدلے سے ہیں کہ وہ بات اپوزیشن کی کر رہے ہوتے ہیں مگر وہ سنا کسی ”اور“ کو رہے ہوتے ہیں، جیسے خان صاحب امریکا کے لیے ڈھکے چھپے الفاظ میں پیغام رسانی کرتے ہیں کہ وہ اُن کے خیر خواہ ہیں، بقول پی ڈی ایم کے کہ” انہوں نے بڑی مشکل سے امریکا کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کیے ہیں ورنہ تو سابقہ حکومت پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لے آئی تھی“ وغیرہ! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ امریکا کے لیے کتنے ضروری ہیں اور امریکا آپ کے لیے کتنا ضروری ہے؟ یہ جاننے کےلئے کسی کیمسٹری کی ضرورت نہیں بلکہ اتنا جان لیںکہ یہاں پر چلنے والی 80فیصد سے زائد این جی اوز امریکا کی فنڈنگ سے چل رہی ہیں، ہزاروں طلبہ اُسی کے قائم کر دہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور درجنوں قسم کے پراجیکٹ یو ایس ایڈ کے تحت ہی چلائے جارہے ہیں۔ اور تواور پاکستان میں آئے حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے اکٹھی ہونے والی رقم کا 70فیصد امریکا اور اُس سے جڑے اداروں نے ادا کیا ہے اور 30فیصد باقی دنیا نے ادا کیا ہے۔ حتیٰ کہ امداد کرنے والوں میں چین بھی امریکا سے پیچھے ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ واقعی پاکستان کے معاملے پر شاہ خرچ ہے یا پاکستان کی مدد کرنا اُس کی مجبوری ہے؟ ان سوالات کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے یہ سوچیں کہ آج دنیا میں کونسا ملک ہے جو بغیر کسی مفاد کے دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ یقینا آپ کو کوئی بھی ملک ایسا نہیں ملے گا۔ یہی حال پاکستان اور امریکا کا ہے۔تاریخ گواہ ہے افغان روس جنگ ہویا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ امریکا نے پاکستان کو جہاں کھڑا کیا ، پاکستان نے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اپنی ”ذمہ داری“ پوری کی۔ اس کے علاوہ امریکا کو پاکستان سے یہ خطر ہ ہے کہ وہ اگر پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے تو اُسے افغانستان میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یایہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان روس و چین کے بلاک کی طرف رخ کر سکتا ہے۔ یا یہ بھی سمجھ لیں کہ پنٹاگون پاکستان کو کبھی اکیلا اس لیے نہیں چھوڑے گا کہ خطے میں اُسے اس طرح کا اتحادی دوبارہ نصیب نہیں ہوگا! اس لیے امریکا چاہ کر بھی پاکستان کے ساتھ مکمل قطع تعلق نہیں ہو سکتا ہے، اور پھر رہی پاکستان کی بات تو وطن عزیز کا امریکا کے ساتھ جڑے رہنا تو ویسے ہی بہت بڑی مجبوری ہے ۔ لہٰذااب اس تمہید باندھنے کے مقصد کی طرف آجائیں، کہ آج کل ہر سیاستدان امریکا اور مقتدر حلقوں کی خوشنودی کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے اور یہ ہمیشہ سے ہمارے سیاستدانوں کی عادت رہی ہے۔ لیکن خان صاحب کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے امریکی حلقوں میں اس بات کو ضرور پھیلا دیا ہے کہ برابری کی سطح پر بات ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے! اس کے لیے خان صاحب نے میدان میں اکیلے چھلانگ ضرور لگائی تھی، مگر اب اُنہیں بھی اُن کے دوست سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سر! واپس آجائیں، ہم جو بات امریکا کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ امریکا سمجھنا ہی نہیں چاہ رہا، لہٰذا اگلی مرتبہ دوبارہ امریکا کو باور کروانے کی کوشش کریں گے۔ تبھی خان صاحب کے مزاج میں یکسر تبدیلی محسوس کی گئی ہے اور انہوں نے رواں ہفتے یکے بعد دیگر اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں امریکا کو ”رام“ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے گزشتہ روز عمران خان نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی سازش کے بیانیہ والی بات پرانی ہو گئی ہے اور وہ اس کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اسی طرح جہاں تک امریکا کی جانب سے پاکستان کو غلام سمجھنے کی بات ہے عمران خان نے کہا ہے اس میں بھی میں امریکا کے بجائے پاکستان کی حکومتوں کو ذمے دار ٹھہراتا ہوں۔ یہ امریکا کا نہیں پاکستان کی حکومتوں کا قصور رہا ہے۔ اسی انٹرویو میں عمران خان نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آکر امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ مذکورہ بالا انٹرویو میں خان صاحب نے کونسی غلط بات کہی؟ لیکن اب چونکہ خان کی ہر بات کا بتنگڑ بنا کر 90فیصد میڈیا اُن کا امیج خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ہمیں شاید اُن کی ہر بات بری لگے گی، لیکن بادی النظر میں انہوں نے ٹھیک کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ بات چیت کبھی بھی برابری کی سطح پر نہیں کی گئی! نہیں یقین تو آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ پاک امریکہ دوستی کے معمار جنرل ایوب خان نے تنگ آکر :Friends not Masters کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جنرل ایوب نے کتاب میں رونا رویا کہ امریکہ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے بجائے دھونس جماتاہے۔با الفاظ دیگر پاکستان کے قومی مفادات اور عوامی جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے اور نہ ان کی پروا کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نوازشریف کے دور میں جس تحقیر آمیز لب ولہجے میں امریکی حکام ہدایات جاری کیا کرتے تھے انہوں نے پاکستانیوں کو بہت رنجیدہ کیا۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن امریکی حکام صرف اپنے مفادات کی تکمیل پراصرار کرتے رہے۔ بھول کون سکتاہے کہ تسلسل کے ساتھ ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتاتھا۔ پاکستانی حکام کو دورغ گو اور پیسہ کے پجاری قراردیاجاتا۔ انہیں طعنہ دیاجاتاکہ وہ افغانستان میں دوہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ سے پیسہ بھی ا ینٹھ رہے ہیں اور ڈیلیور بھی نہیں کررہے۔ عمران خان برسراقتدارآئے تو یہ منظر نامہ بدلنے لگا۔ بتدریج پاک امریکہ تعلقات بہترہوئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان میں گاڑھی چھننے لگی۔افسوس! صدر بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔عمران خان نے نچلے درجے کے امریکی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ سی آئی اے کے سربراہ کے دورے پاکستان میں ملاقات کی درخواست کی گئی تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے ہم منصب سے ملیں۔ امریکی حکام ایسے کسی پروٹوکول کے عادی نہیں!چند برس قبل سابق امریکی سفارت کار کس ڈینس کی پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک دلچسپ کتاب The United States and Pakistan: 1947-2000 کے عنوان سے چھپی۔ مصنف کے بقول امریکی سفارت خانے کی تقریبات میں اعلیٰ پاکستانی حکام کی شرکت معمولی کی بات تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان تو سفارت کے تھرڈ سیکرٹری کے استقبالیہ میں بھی آجاتے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستانی وزارت خارجہ اور حکومت کو غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ایک ضابط کا پابندکیا جس کی انہیں قیمت چکانا پڑی۔ اب عمران خان نے اگر بھٹو بننا ہے تو اُس کے لیے اُن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہو گا، یا خاکم بدہن اس سے زیادہ بھی کچھ ہو سکتا ہے، اُنہیں اگلے الیکشن کے لیے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، یعنی اس معاملے میں کچھ بھی بعید نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ ہر تقریر میں خود کہتے ہیں کہ اُنہیں مار دیا جائے گا وغیرہ۔ خیر ہم اُس بحث میں نہیں پڑتے لیکن ہمیںیہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس طرح قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، ہم امریکا کے بغیر نہیں چل سکتے، اس وقت ہم پر زیادہ نہیں تو کم و بیش 6ہزار ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے۔ اور ابھی ہم نے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ جس کے لیے ہمارے ”مسیحا“ اسحاق ڈار تیاری کر چکے ہیں۔ لہٰذاہمیں ترکی کے صدر طیب اردگان کی طرح سب سے پہلے اپنے پاﺅں مضبوط کرنے ہیں، طیب اردگان 2002ءمیں اقتدار میں آئے اور 2010تک انہوں نے ملک کی امپورٹ کم کرکے اور ایکسپورٹ بڑھا کر آئی ایم ایف کو بائے بائے کہہ دیا تھا۔ جبکہ 2016میں بغاوت کے وقت تبھی عوام اُن کے لیے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے اور 200سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے سیاستدان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ آپ جس ملک سے قرضہ لیتے ہیں، جس دنیا کے آپ مقروض ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ اُس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھیں؟ کیا امریکا آپ کی ایسی حرکتوں پر سرزنش نہیں کرے گا؟ اور پھر وہ تبھی آپ کے اوپر اپنے بندے لا کر بٹھا دے گا تاکہ آپ اُس سے دھوکہ نہ کر سکیں! ہاں! ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جیسے پاکستان امریکا کی ضروریات پوری کرتا ہے تو اُس کے بدلے میں پاکستان اُ س سے بڑی ڈیمانڈ کر سکتا ہے، ضروریات سے مراد کہ امریکا کو افغانستان میں 20سال بعد ”فیس سیونگ“ چاہیے تھی، اور بادی النظر میں پاکستان نے اس حوالے سے امریکا کی مدد کی تو ایسے میں پاکستان اپنی بہت سی شرائط منوا سکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں میں اتنی جرا¿ت کہاں کہ وہ امریکا کو اپنے نرغے میں لا سکیں! آپ یقین مانیں یہ افغان معاملہ تو تازہ ہی ہے آپ 60کی دہائی میں چلے جائیں جب پاکستان کی دنیا بھر میں خاصی اہمیت تھی، اُس وقت پاکستان نے امریکا اور چین کے تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا مگر بدلے میں پاکستانی حکمران ذاتی مفادات کے بجائے امریکا سے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ اُس وقت پاکستان کے صدر یحییٰ خان تھے اور امریکی صدرنکسن تھے۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھے۔ ہنری کسنجر خود کہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے گھبرا رہے تھے کہ اب پاکستان نہ جانے اس کے بدلے اُن سے کیا ڈیمانڈ کرے گا، مگر پاکستانی سیاستدانوں نے ماسوائے ذاتی تعلقات کے اس قوم کے لیے کچھ حاصل نہ کیا! بقول شاعر رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے بہرکیف امریکا پاکستان سے اگر چہ کئی ہزار میل دور واقع ہے لیکن 2001سے یہ ہمارا ”پڑوسی “بنا ہوا ہے۔اور عام طور پر کہا جاتاہے کہ ہمسائے نہیں بدلے جاسکتے، اسی لیے فی الوقت آپ یہی سوچیں کہ امریکا ہی ہماری حکومت بناتا ہے، وہی بندے امپورٹ کرکے ہمارے اداروں میں لگاتا ہے اور یہ تب تک ہوگا جب تک ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہوںگے!