عید الاضحیٰ پر عام آدمی کی قربانی ؟

”اتنی مہنگائی ہے کہ ہم عیدپر قربانی تو دور کی بات گھر کا راشن بھی نہیں لے پا رہے “یہ الفاظ ہمارے ملک کے ایک عام آدمی کے تھے، جو ٹی وی پر ایک پروگرام میں نم آنکھیں لیے کہہ رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی چینل بدلا تو وہاں پر ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کے گھر میں قربانی کے جانوروں کی تعداد کو گنوایا جا رہا تھا۔ یہ جانور کم و بیش ایک کروڑ روپے کے بنتے تھے۔ خیر وہ صاحب استطاعت ہیں، اللہ تعالیٰ نے اگر اُنہیں قربانی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے تو اُنہیں ضرور کرنی چاہیے مگر اس ملک میں ہماری اشرافیہ ہر وہ کام ضرور کرتی ہے، جس سے عام آدمی اپنے آپ میں ہی مارا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ خود دیکھ لیں اس وقت ہماری 90فیصد سے زائد قیادت بیرون ملک اپنے خاندانوں کے ساتھ عید کر رہی ہے، جبکہ انہوں نے پاکستان کو محض ایک کاروباری ہب بنایا ہوا ہے، کہ یہاں آئے، لوٹ کھسوٹ کی اور پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا اور پھر چلتے بنے۔ رہی عوام کی بات تو وہ پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہیں اور رہی سہی کسر کسی تہوار پر نکل جاتی ہے۔ اور پچھلی عید سے اس عید تک قوم کا جو حال ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہر چیز کے دام دوگنا ہو چکے ہیں، ہر ضرورت اشیاءاگر پچھلے سال 200روپے کی تھی تو اس بار 400روپے کی ہو چکی ہے۔ اسی لیے گزشتہ سال پاکستان میں 60فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جبکہ آج یہ تعداد 10فیصد اضافے کے ساتھ 70فیصد ہو چکی ہے۔ نہیں یقین تو عالمی بینک کی سالانہ رپورٹ پڑھ لیں، جس کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کے لیے عالمی پیمانہ دو امریکی ڈالر روزانہ آمدنی ہے، یعنی تقریباً 6سو پاکستانی روپے۔اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی 21 فیصد آبادی میں لوگوں کی روزانہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔ 30فیصد جو خط غربت سے اوپر زندگی گزار رہے ہیں ان کا معیار زندگی بھی دیکھ لیں.... ان میں سے ایک فیصد شاہانہ زندگی گزار رہا ہے 20فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے اور 9فیصد چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اب ایسے حالات میں آپ مجھے بتائیں کہ ان میں سے کتنے فیصد لوگ اپنی ”ناک“ رکھنے کی خاطر قربانی دے رہے ہیں اور کتنے فیصد خالص اللہ کی رضا کے لیے؟ حالیہ عیدِ بقر کی بات کریں تو اس وقت 80ہزار سے تین لاکھ روپے تک کا بکرا،سوا لاکھ روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ ہیں اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ اپنے گلی محلے سے آپ کا گزر ہوا ہو گا تو یقیناََ آپ کو ہر دوسرے گھر میں ”قربانی“ بندھی ہوئی نظر آئی ہوگی۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دوکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ”استطاعت“ رکھتے ہیں۔ میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ لیکن میں ورط حیرت میں ضرور اس لیے بھی ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ماہانہ ہے، اس نے انہی پیسوں میں سے گھر کا کچن چلانا ہے، بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنی ہے، دودھ والے کو پیسے دینے ہیں، اپنا روز مرہ کی سواری کا خرچ چلانا ہے وغیرہ اور جب کوئی تہوار آتا ہے جیسے عیدین وغیرہ تو پورے خاندان کے لیے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں یعنی 50ہزار روپے کا اضافی خرچہ اسے برداشت کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے زیادہ تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی 17ویں، 18ویں یا 20گریڈ کا آفیسر بھی اپنی حلال کمائی میں سے کیسے قربانی دے سکتا ہے؟ مثلاََ اگر آپ کی تنخواہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے بھی ہے تو ذرا بتائیں کہ اس تنخواہ میں گھر کا کچن چلے گا، بچوں کی فیسیں دیں گے، روز مرہ کے اخراجات و یوٹیلٹی بلز دیں گے یا قربانی کریں گے؟ اور پھر اگر آپ کی قربانی میں ایک پائی بھی حرام پیسوں کی شامل ہوگئی تو کس بات کی قربانی؟ ہمارے حالات تو بقول شاعر یہ ہیں کہ وہ جن کا شجرِ انا آندھیوں میں بھی نہ گرا بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ پل پڑے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں جہاں ہزاروں بچیاں غربت کی بنا پر اپنے ہاتھوں کے پیلے ہونے کی منتظر رہتی ہیں وہاں کئی کئی لاکھ کے پلے پلائے اور سجے سجائے جانور قربانی کے لئے خرید کر ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں بھی فربہ پلے پلائے اور بھاری بھرکم سینگوں والا بکرا خریدنے کیلئے بندے کا اپنا بھی بھاری بھرکم اور جیب کا بھاری ہونا ضروری ہے۔ خیر اللہ تعالیٰ سب کی قربانی قبول کرے، اور قربانی کے بعد سب پاکستانیوں کو صفائی پسند بھی بنائے ، کیوں کہ یہاں نہ تو کہیں عید قربان کے بعد صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ریاستی سطح پر کوئی مناسب اہتمام کیا جاتا ہے۔گھر گھر قربانی کے جانورقربان ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔تین دن قربانی کے بعد گلی گلی کا منظر ”قابل دید“ ہوتا ہے۔ہر جگہ جانوروں کی آلائشوں کا ڈھیر آپ کا منتظر ہوتا ہے جن سے بدبو بھی پھیلتی اور ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ جانور سعودی عرب میں حج کے بعد قربان کیے جاتے ہیں مگر جانوروں کو مذبح کرنے کا ایسا شاندار انتظام موجود ہوتا ہے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے، نہ کہیں تعفن، نہ کہیں الائشیں اور نہ ہی کہیں گلی گلی قربان گاہیں آپ کو نظر آئیں گی۔ اگر بات ترکی کی کی جائے تو وہاں قربانی کرنے کے منظم طریقہ اور جدید سہولیات سے استفادہ کیا جاتا ہے.... آپ کہیں گلی محلے میں جانور کو ذبح وغیرہ نہیں کرسکتے....برطانیہ میں ان دنوں زیادہ مقبول طریقہ یہ ہے کہ اکثر حلال میٹ کی دوکانیں آپ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی سہولت فراہم کر دیتی ہیں۔پورے یورپ میں عید کے موقع پر عارضی ذبح خانے قائم کر دئیے جاتے ہیں جہاں لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، بلکہ اس مرتبہ تو یورپ کے بعض ملکوں میں عارضی موبائل ذبح خانوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں قربانی دے رہے ہیں.... آپ بھارت کی مثال لے لیں وہاں گائے کی قربانی کی تو ممانعت ہے مگر ہر ریاست کی جانب سے سرعام جانور کو ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، آپ ریاست کی جانب سے مختص کیے گئے مذبح خانوں کے علاوہ کہیں جانور کو ذبح نہیں کر سکتے.... آپ اپنے ملک کے پرانے مشرقی پاکستان( بنگلہ دیش) کی مثال لے لیں وہاں ہر شہر کی انتظامیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنے کے لیے باقاعدہ کچھ جگہوں کا انتظام کرتی ہے ۔ تاکہ لوگ مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں قربانی نہ کریں ۔ وہاں بھی حکومت کی طرف سے رائج کردہ قربانی کا آن لائن نظام عوام میں مقبولیت اختیار کر رہا ہے ، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام کو سسٹم پر اعتبار آنا شروع ہوگیا ہے۔ بہرکیف ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے ، یہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری ہے ، کہ ہم اپنی قربانی میں تقویٰ پرہیز گاری کو شامل کرکے جھوٹ اور کرپشن کو اس ملک سے نکال باہر پھینکیں، صفائی ستھرائی کا خود سے اہتمام کریں، ہماری حکومتوں کو اپنے عوام کے حالات بہتر کرنے کیلئے ایسے اقدامات بھی کرنا چاہئیں کہ وہ بے روزگاری اور غربت کے مسائل سے نکل کر عید کے تہواروں کی اصل خوشیوں کا بھی حصہ بن سکیں، قربانی میں بھی حکومتی سطح پر انتظامات ہونے چاہیئں ، حکومت کے پاس غریب عوام کا ڈیٹا موجود ہو۔ پھر حکومت کو تھر کے عوام تک گوشت پہنچانا چاہیے، اس کے علاوہ اُن جگہوں پر پہنچانا چاہیے جہاں ڈھیروں غربہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ الغرض خدا کرے کہ ارض پاک پر خوشیوں کی جھومر اسی طرح ڈھلتی رہی اور امن وامان کے گہواروں میں عید کے تہوار کی طرح ہر آنے والا دن عید کی خوشیوں والا سورج طلوع کرتا رہے۔ اور حقیقی قربانی اس دن ہوگی جب لوگوں میں احساس پیدا ہوگا ورنہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ مار کرقربانی دی بھی تو کیا دی!!!