ملکی مسائل کا حل؟ وزیر اعظم کو عارف حبیب کی صائب تجاویز!

ملک کے حالات اس وقت ساز گار اس لیے بھی نہیں ہیں، کہ ایک طرف آئی ایم ایف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوں گے، دوسری جانب کمیشن وصول کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں ، بلکہ اس بار نگرانوں نے لاکھوں ٹن گندم درآمد کر کے نہ صرف مقامی کسانوں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ 500ارب روپے کا قومی خزانے کو بھی چونا لگایا ہے۔ جس کی بنا پر آنے والے دنوں میں دیکھیے گا کہ کس طرح کسان سڑکوں پر آتا اور ملک کا نظام دھرم بھرم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنے والے نئے بجٹ میں بھی سنا ہے، عوام پر درجن سے زائد نئے ٹیکس لگ رہے ہیں،،، جن میں سے کچھ ”سرپرائز“ ٹیکس بھی ہو سکتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے بعد ملک میں کیا بچتا ہے کیا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حد تو یہ ہے کہ حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کو اس نازک صورتحال ادراک ہونے کے باوجود ،،، عملی اقدامات کرنے سے عاری نظر آرہے ہیں،،، عاری اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے، کہ ابھی تک عہدوں کی کھینچا تانی لگی ہوئی ہے،،، حکمران جماعت گروپنگ کا شکار ہے،،، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے،،، جب کہ اُس کے قائدین اور کارکنان کی بڑی تعداد کو پابند سلاسل کیا جاچکا ہے۔ خیر ایسے میں سب سے زیادہ فکر مند ملک کی وہ شخصیات ہیں جو وطن عزیز کے لیے درد دل رکھتی ہیں،،، گزشتہ ہفتے انہی شخصیات میں سے چند ایک سے وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی میں ملاقات کی۔سب سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے خطاب کرنے کے بعد جب انہیں سوالات اور تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی تو عارف حبیب نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کے بزنس مینوں کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔پہلے تو انہوں نے جناب وزیراعظم کی دلوں کو جوڑنے اور سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی حکمت عملی کو بہت سراہا‘ پھر انہوں نے وزیراعظم کے ا±ن اقدامات کی بھی بہت تعریف و توصیف کی جن کی بنا پر پاکستان کی سٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ان تعریفی کلمات کے بعد شہباز شریف سے مخاطب ہوتے ہوئے وہ دل کی بات زباں پر لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے ہاتھ ملایا، میں چاہتا ہوں کہ آپ دو ہاتھ اور ملائیں۔ ایک ہاتھ بھارت سمیت دیگر پڑوسیوں سے اور دوسرا ہاتھ اڈیالا جیل کے باسیوں سے ملائیں۔ اس کے علاوہ صنعت کار عارف حبیب نے کہا کہ آرمی چیف سے پہلی ملاقات میں بھی عمران خان پر بات کی تھی اوراُن سے کہا تھا کہ شدید نوعیت کی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔جناب آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے سامنے پیش کردہ ان تجاویز میں ممتاز صنعت کار نے دو اہم نکات کی طرف پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام بھی بہت ضروری ہے۔ اگر ملک میں سیاسی افراتفری اور ہر وقت کے احتجاجی جلسے جلوس ہوں گے تو معیشت کے پھیلنے پھولنے کے لیے سازگار فضا میسر نہیں ہوگی‘ اس صورت میں مطلوبہ اقتصادی اہداف اور کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔دوسرا نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ ہمیں پڑوسی ملک بالخصوص بھارت کے ساتھ تجارت سے بے پناہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، ہم اس دوطرفہ تجارت کے دروازے کیوں نہیں کھولتے؟ خیر شاید وزیر اعظم اس قسم کے سوالات کی توقع نہیں کر رہے تھے ، لیکن ان کاروباری شخصیات نے ملک کے لیے جو بہتر ہوسکا وہ کیا۔ انہوں نے تجارتی سرگرمیوں کے ماند پڑنے اور اس شعبے میں پیش آنے والی مشکلات کا دو ٹوک انداز میں ذکر کیا۔ایک اور کاروباری شخصیت زبیر موتی والا جو کراچی کے بزنس مینوں کی ایک نمائندہ باڈی ”بزنس مین گروپ“ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کو اپنے گروپ اور کراچی چیمبر آف کامرس کی طرف سے مشترکہ پریزنٹیشن دی۔ بزنس باڈی کے سربراہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران گیس کی بے پناہ قیمتیں بڑھی ہیں، اس اضافے نے تجارتی و صنعتی کمپنیوں کی کمر توڑ دی۔اسی طرح بجلی کے نرخوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ان نرخوں کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنا پاکستان کی صنعت و تجارت کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔موتی والا نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بجلی کی بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جو وہ پیدا نہیں کرتے‘ پاکستان پر پڑنے والے اس وزنی بوجھ نے ملکی معیشت کو ادھ مواکردیا ہے۔ جب تک ہم گردشی قرضوں کے جنجال سے جان نہیں چھڑالیتے اس وقت تک ہم شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ان سے پہلے بھی تمام سرمایہ دار یہی کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں سرمایہ اُسی وقت آتا ہے، جب ملک میں سیاسی استحکام ہو،،، بات تو ان احباب کی درست ہے کہ جس ملک میں اس قدر بد امنی ہو ،،، وہ ترقی کیسے کر سکتا ہے؟ آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس وقت پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، یعنی جلد یا بدیر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ یہ تمام مشکل حالات ویسے تو قوموں پر آتے رہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی تو نہیں کر رہے، اب آپ اڈیالہ جیل والے سے ملاقات کے حوالے سے ہی بات کر لیں تو سیدھی سے بات ہے کہ حکمران جماعت یا حکمران اتحاد نے اس وقت حکمرانی ”فتح “ کر لی ہے،،، یا دوسرے لفظوں میں وہ جیت چکے ہیں۔۔۔ تو کیا پہل اُس کو کرنی چاہیے، جو جیتا ہوا ہو؟ لیکن اس وقت حکمرانوں کا تو چال چلن ہی وہی پرانا اور روایتی ہے،، کہ کمیشن کس طرح وصول کرنی ہیں،،، کون سا ٹھیکہ کس کے پاس جانا ہے اور سب سے بڑھ کر کس کام کی اپروول کے بدلے اُنہوں نے کتنا پیسہ وصول کرنا ہے۔۔۔ یا پھر آج کل انہوں نے ایک اور کام پکڑا ہوا ہے کہ اور کچھ نہیں تو آپس میں عہدے بانٹنا شروع کر دو۔ ابھی بھی وہی گھسی پٹی شخصیات کو عہدے دیے جارہے ہیں،، یعنی سابق وزیراعظم نواز شریف کے سمدھی جی جو پہلے ہی وزیر خارجہ کے عہدے پر براجمان ہیں، اُنہیں اس وقت نائب وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے،،، حالانکہ اس عہدے کی اہمیت کسی نمائشی عہدے سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی،، بس اندر کھاتے کوئی نہ کوئی گیم چل رہی ہوگی۔ لیکن زمینی حقائق اس وقت یہ ہیں کہ اس وقت طاقت ور ملکوں میں ہم کسی نمبر پر نہیں آتے،،، تمام ممالک حتیٰ کہ عراق بھی ہم سے آگے ہے،،، حالانکہ یہ ملک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک، جبکہ فوج کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے۔ اوراسلامی دنیا کی اکلوتی سپر پاور بھی ہے، لیکن دنیا اُسے کسی کھاتے میں نہیں لکھ رہی۔ یعنی آپ خود دیکھ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کس چیز پر غرور کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ بنگلہ دیش ہم سے آزاد ہوا، لیکن اُس کی معیشت ہم سے آگے ہے، عراق کو امریکا نے مار مار کر ہلکان کر دیا، لیکن وہ بھی ہم سے آگے ہے۔ اور ہم آہستہ آہستہ افغانستان سے بھی پیچھے جا رہے ہیں۔ لہٰذااگر کاروباری شخصیات کو اپنے ملک کے مسائل کا ادراک ہے تو ان حکمرانوں کو کیوں نہیں ہے،،، حالانکہ ان کے اپنے کاروبار نے40سالوں میں سینکڑوں گنا زیادہ زیادہ ترقی کر لی ہے،،، لیکن حالات ہیں کہ ان کے لیے حصہ ناسور بن چکے ہیں۔ اور بدلے میں ایکسپورٹ بڑھانے کے بجائے ہم تو سولر پینل پر بھی ٹیکس لگا رہے ہیں،،، مطلب اس ملک میں اپنی سہولت کے لیے انسان کوئی کام بھی نہیں کر سکتا۔ ان کا بس چلے تو سورج کو پکڑ کر نیچے لے آئیں اور ہر شہری کو اُتنی ہی روشنی دیں، جتنا وہ ٹیکس دیتا ہے۔ لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے انرجی ڈویژن کو مجبور کیا کہ وہ اس کی تردید کرے یا فیصلہ واپس لے۔ ورنہ تو یہ بارش پر بھی ٹیکس لگا دیتے اور اس بات پر بھی ٹیکس لگا دیتے کہ کس کے گھر کتنا پانی گیا ہے،،، اُس پر بھی ٹیکس دیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ یہ ہوا پر بھی ٹیکس لگا دیں۔ یہ تو واش روم پر بھی ٹیکس لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ بہرحال وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرتی، جو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کرتی۔ لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے سیاستدان کبھی یہ بات نہیں مانتے کہ اُن سے غلط فیصلے بھی سر زد ہوئے ہیں،،، دوسری جنگ عظیم کے بعد جس جس ملک نے اپنی غلطیاں تسلیم کیں،،، وہ طاقت میں ہے۔ آپ جرمنی کو دیکھ لیں، جاپان کو دیکھ لیں،، برطانیہ اور یورپ کو دیکھ لیں۔وجہ صرف یہ ہے کہ ان سب ممالک نے اپنی غلطیاں تسلیم کی ہیں۔چین ہمارے بعد آزاد ہوا لیکن وہ آج ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ بلکہ ان کے برعکس ،،، ہم تو اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر ضائع کرتے ہیں کہ ہماری غلطیوں پر پردہ کیسے پڑ سکتا ہے۔ بہرکیف ان تاجر برادریوں کی باتوں پر ہمیں کان دھرنے چاہیے،،، اگر وہ بھارت کے ساتھ صلح کی بات کر رہے ہیں تو ہمیں چیزیں دوسرے ممالک کے بجائے بھارت سے امپورٹ کرنی چاہیے،،، اُس کے ساتھ روپے میں کاروبار کرنا چاہیے،،، وہ ہمیں چیزیں بھی سستی دے گا اور ڈالر بھی ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ یعنی اس وقت پاکستان بہت سی چیزیں یورپی ممالک اور امریکہ سے درآمد کر رہا ہیں اور انہیں اپنی کچھ برآمدات بھیج رہا ہیں۔ پاکستان اور ان ممالک کے درمیان زیادہ فاصلہ ہونے کی بنا پر وہاں سے اشیا منگوانے اور انہیں بھجوانے پر ٹرانسپورٹیشن کے بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر بھارت سے درآمد و برآمد کی جائے تو مال بھجوانے اور منگوانے پر خرچہ بہت کم ہوتا ہے۔ نیز ہم کئی شعبوں بالخصوص زراعت اور آئی ٹی میں بھارت کے تجربات سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت کے وسیع تر مواقع ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان 2022ءمیں صرف 2.3 بلین ڈالر کی تجارت ہو رہی تھی جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان 37 ارب ڈالر کی سالانہ تجارت بآسانی ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق سارک ممالک میں اس وقت تجارت کا حجم 23 بلین ڈالر ہے یہ تجارت 67 بلین ڈالر تک جا سکتی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کے اندر کوئی تھنک ٹینک ہو تو ایسی باتیں سوچے اور اُس پر عمل بھی کرے،،، ہمارے آپس میں بات کرنے اور جھگڑنے سے صرف خون ہی جلایا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں!