2024ء: ہم غلطیوں سے کب سبق سیکھنا شروع کریں گے؟

نیا سال 2024ءشروع ہو چکا ہے، 2023ءتاریخ کی بڑی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ آنکھیں بند کر چکا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ کبھی اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ اور نہ ہی کبھی پچھتاوا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بلکہ کامیاب کمپنیوں میں ہر سال ان چیزوں کا احاطہ کیا جاتا ہے جن سے اُن کی ساکھ خراب ہوئی ہو اور نئے سال کے لیے ٹارگٹ سیٹ کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں قومی سطح پر ہی ایسا رواج نہیں ہے تو عوامی سطح پر کیسے ہوگا ؟ ہم تو جمہوریت کے فروغ کے لیے کام تو دور کی بات ہم جمہوریت کے آس پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ میرے خیال میں اگر ہم 2018ءمیں کسی جماعت کے ساتھ غلط ہورہا تھا تو آج بھی جو ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ ہم نے ایک جماعت کو دبایا مگر آج بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ اُس کا ووٹ بنک تمام جماعتوں سے بہتر ہے۔ پھر ماضی میں ہم نے عوامی لیگ کو دبایا، وہ نہیں دبی، ہم نے پیپلزپارٹی کو دبایا، وہ بھی نہیں کسی دباﺅ میں آئی،اور یہی کام اگر اب تحریک انصاف کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو وہ کیسے دب سکتی ہے؟ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں،،، کہ تحریک انصاف کے 25سو سے زائد رہنماﺅں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ،مگر 90فیصد کا الزام ہے کہ اُن کے کاغذات ریجیکٹ کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ بہت سوں کا خیال تھا کہ اُنہیں رہنما ہی نہیں ملیں گے، مگر سب نے دیکھ لیا کہ رہنما تو ہیں مگر لیول پلئنگ فیلڈ سب کے لیے برابر نہیں ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں سال 2024ءمیں انہیں درمیانی راستہ دینا پڑے گا۔ ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سال ہمارا دھکم پیل میں نہیں گزرے گا؟یہاں بھی اگر کسی کو نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ کیا کوئی اس حوالے سے یقین دہانی کروانے کی پوزیشن میں ہے کہ اگر شفاف الیکشن کروائے گئے تو کون سے پارٹی اقتدار میں آئے گی۔ اور اگر دھاندلی زدہ الیکشن کروائے گئے تو کیا تاریخ میں یہ نہیں لکھا جائے گا کہ الیکشن2024تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ الیکشن تھے۔ جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا گیا۔ میرے خیال میں اس کا آسان حل میں دیے دیتا ہوں کہ اگر ہم یہ سال بہتر انداز میں گزارنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں 9مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے ، معافی تلافی کے رستے نکالنے چاہیے ۔اور جو لوگ جلاﺅ گھیراﺅ میں واقعی ملوث تھے، اُنہیں قرار واقعی سزا دینی چاہیے اور جو رہنما ملوث نہیں تھے اُنہیں آزاد کر دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے کم از کم یہ تاثر زائل ہو جائے گا کہ سب جماعتوں کو الیکشن کے لیے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جارہے۔ خیر رہی بات ملکی معیشت کی تو جناب! ایک تازہ جائزے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ایک نیا مختصر مدتی اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا لیکن یہ بندوبست مہنگائی کا طوفان لے آیا، اس کے اثرات 2024ءمیں بھی دیکھے جائیں گے۔ ماضی میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی اختیار کی گئی اورملک کو ایک ایسے شیطانی چکرمیں ڈال گیا گیا ہے جس میں مالیاتی توسیع مسائل کا ایک بڑا سبب بن گئی ہے۔ مالیاتی وسائل میں اضافے کی ضرورتیں مہنگائی کو بڑھا رہی ہیں جس سے مالیاتی موقف مزید سخت ہورہا ہے جبکہ قرض کی ادائیگی اخراجات کی سب سے بڑی مد بن گئی ہے اور اس شیطانی چکر سے نکلنے کا کوئی آسان حل نہیں۔ اس کے لیے ہمیں آسان حل تلاش کرنا ہوں گے۔ ورنہ ہم کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ سال 2024ءمیں ہمیں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بھی اچھے روابط رکھنا ہوں گے،،، میں یہاں پھر یہی کہوں گا کہ کوئی ملک مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نہیں جڑا ہوا۔ بلکہ ان کے آپسی مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر مذہب کی بنیاد پر ملک ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے تو نئے سال کی خوشیاں غزہ کے لیے ترک کی جاتیں مگر سب نے دیکھا کہ اسلامی ممالک میں بڑھ چڑھ کر نئے سال کی خوشیاں منائی گئیں۔ کیوں کہ وہاں پر موجود سیاح اسی چیز کو دیکھنے کے لیے دبئی یا دیگر ریاستوں میں موجود تھے۔ لہٰذااُنہیں ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ پھر آپ بھارت ہی کو دیکھ لیں وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ترقی کر رہا ہے۔ وہاں اشیا و خدمات کی قیمتیں دیکھ لیجیے! زر مبادلہ کے ریزرو دیکھ لیجیے! ڈالر کی قیمت دیکھ لیجیے۔ بنگلہ دیش کے لیے ہر نیا سال مژدہ جانفزا لے کر آتا ہے! کوریا‘ ویتنام‘ سنگا پور‘ تائیوان‘ ملا ئیشیا‘ یو اے ای‘ یہ سب ملک ہمارے زیر دست تھے۔ ہم ان سے آگے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہر نیا سال ہمیں پیچھے دھکیلتا رہا! آج ہم نشانِ عبرت ہیں! قوموں کی برادری میں ہماری عزت ہے نہ وقعت!ہمارے گاﺅں ازمنہ وسطیٰ سے بھی قدیم تر دکھا ئی دیتے ہیں! ہمارے شہر گندگی اور کثافت کے گڑھ بن چکے ہیں۔پانی کی قلت ہے! بجلی کا کال ہے! چوریاں ڈاکے اغوا عام ہے۔ روزانہ درجنوں گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ سٹریٹ کرائم زوروں پر ہیں۔جانیں محفوظ ہیں نہ عزتیں نہ مال! بیورو کریسی عوام سے مکمل بے نیاز ہے اور احساسِ کمتری کے خول میں بند! سیاستدان پارٹیاں بدلنے میں مصروف ہیں! جرنیل اپنی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں گاف ہے اور مَیس! اور عام پاکستانی سے کوسوں دور! طلبہ اور طالبات کو اندازہ ہی نہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی رومانٹک دلکش زندگی کے بعد انہیں کس ہولناک بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا! خواتینِ خانہ مہنگائی کی وجہ سے شدید ذہنی دباﺅ میں ہیں! تاجر قوم کے درد سے بالکل لا تعلق! دن کے بارہ بجے بازار کھولتے ہیں اور رات کے بارہ بجے بند کرتے ہیں! کسان بیج اور کھاد کی قیمتوں تلے کراہ رہا ہے۔ آپ باقی ساری باتیں چھوڑ دیجیے۔ صرف ٹریفک کا مسئلہ لے لیجیے۔ کیا کسی نئے سال نے ہماری ٹریفک کو مہذب دیکھا ہے؟ اس میں کسی غیر ملکی مدد کی‘ کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف ٹریفک پولیس کی دیانت داری اور فرض شناسی درکار ہے۔ مگر ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں شمار ہوتی ہے۔ وحشت اور ہلاکت کا بے رحم کھیل! سڑکوں پر گویا خانہ جنگی ہو رہی ہے! سول وار کی صورت حال ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں! ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں قتلِ عام کر رہی ہیں۔غیر ملکی دیکھتے ہیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ کروڑوں موٹر سائیکل وبا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ موٹر وے کی ٹریفک مثالی سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ بھی تنزل پذیر ہو چکی ہے۔ لین کی پابندی ختم ہو رہی ہے! کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک نیا سال اس کام کے لیے ہی وقف کر دے! کہیں سے تو اصلاح کا کام شروع ہو جائے! مگر ہر سال ٹریفک کی ہلاکتوں کی تعداد گزرے ہوئے سال سے زیادہ ہو رہی ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں زیر زمین ریلوے کے سوا چارہ نہیں۔ ایران کو بھی دیکھ لیجیے۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود تہران میں زیر زمین ریلوے کا منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے اور مزید وسیع ہو رہا ہے۔ تیس لاکھ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا میٹرو سسٹم ہے۔اس کے مقابلے میں کراچی کی حالت کا اندازہ لگائیے! کراچی کی رگوں سے پیسہ خوب نچوڑا گیا ہے۔ دبئی سے لے کر ہیوسٹن اور لاس اینجلز تک کراچی کی دولت نے خوب خوب کرشمے دکھائے ہیں اور دکھائے جا رہی ہے۔ مگر خود کراچی ایک ایسی بیوہ ہے جس پر بُری نظریں تو سب کی ہیں لیکن بیچاری کا شوہر کوئی نہیں! ایک مفلوک الحال‘ روتی پیٹتی بیوہ! کیا کوئی پلان آپ کی نظروں سے گزرا ہے جس کے مطابق نیا سال کراچی کے لیے بہتر طرزِ زندگی کا نقیب ہو گا؟؟ بہرکیف میرے خیال اس سال ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہمیں اس سال کسی ایک چیز کے لیے اپنے آپ کو مختص کرنا ہوگا۔ مثلاََ اس سال کو اگر ہم جمہوریت کے نام کر دیں تو ایسا کرنے سے یقینا ملک میں جمہوریت بہتر ہوگی۔ دوسرا اس سال ہمیں ہمیں اس ملک کو کرپٹ لوگوں سے بچانا ہے، مقتدر حلقوں سے بھی گزارش ہے کہ اُنہیں ہر گز سپورٹ نہ کریں، اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے اُنہیں ہر گز سپورٹ نہ کریں۔ آپ یقین مانیں سال 2023ءمیں ہم کرپشن، لوٹ مار اور بدانتظامی جیسی رینکنگ میں آگے نکل گئے، جبکہ ایماندار ملکوں کی فہرست سے ہی باہر نکل گئے۔ ہماری ڈگریوں کو بیرون ملک قبول نہیں کیا جا رہا، ہمارا پاسپورٹ دنیا کا چوتھا، بدترین پاسپورٹ شمار ہونے لگا ہے۔ ہم تو پچاس سالوں میں ملک کے اندر ہی بلوچستان جیسے پرامن صوبے میں امن قائم نہیں کر سکے۔ ہمیں نا تو اپنی پالیسیوں کے بدلنے کا خیال ہے اور نہ ہی اس جانب کوئی توجہ کرتا ہے۔ اب کوئی یہ کہے کہ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے،،، یہ چاروں طرف سے مسائل میں گھر ا ہوا ہے،،، اس کے ایک طرف افغانستان ہے،،، جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی ختم نہیں ہورہی۔ اب بندہ پوچھے کہ افغانستان کے ارد گرد اور بھی ملک ہیں، وہاں دہشت گردی کیوں نہیں ہے۔ صرف پاکستان میں ہی کیوں ہے؟ اسی طرح انڈیا کے ہمسایہ ممالک بھی بہت سے ہیں، مگر ہمارا حال ہی خستہ کیوں ہے؟ الغرض ہماری پالیسیاں کہیں نہ کہیں تو غلط ہیں ناں! اب آپ خود دیکھ لیں کہ الیکشن سر پر ہے،،، کھربوں روپے الیکشن پر لگنے والے ہیں،،، لیکن اُس کے بعد کیا ہوگا؟ یہی حالات رہے تو دمادم مست قلندر ہی ہوگا۔ لہٰذاہر نیا سال ماتم کا سال ہے‘ کفِ افسوس ملنے کا سال! ہر سال کے اختتام پر ہم وہیں کھڑے پائے جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ایک شیطانی دائرہ(vicious circle) ہے جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں! نہ جانے کب تک پھنسے رہیں گے! سال آتے اور جاتے رہیں گے! نیا سال مبارک کی آوازیں بھی آتی رہیں گی!