ججز کی تعیناتی کا مسئلہ اور عدلیہ کی آزادی !

”عدلیہ کی آزادی“ کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتا ہے، یہ آزادی اُسی صورت ممکن ہوتی ہے جب اس میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ عہدیداران اپنے عہدے کا پاس رکھتے ہوئے میرٹ پر فیصلے کریں، غریب امیر میں تفریق کیے بغیر فیصلے کریں، کمزور طاقتور کو جانچے بغیر فیصلے کریں، ججز کی تعیناتیاں خالصتاََ میرٹ پر ہوں، سیاسی مداخلت کسی صورت نہ ہو، نہ ہی ججز کے ساتھ سیاسی لوگوں کی وابستگیاں قائم ہوں اور نہ ہی سیاستدان یا دیگر ادارے اپنی اپنی فہرستیں تیار کریں کہ کس جج کو کس کورٹ کا حصہ بنایا جائے وغیرہ۔ ایسا اس لیے بھی ”جرم“ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ جس سیاستدان کی وساطت سے کوئی بھی جج تعینات کیا جائے گا تو وہ ساری زندگی اُس شخصیت، اُس سیاسی جماعت یا اُس ادارے کی مرہون منت کام کرے گا، کبھی اپنے ”احسان مندوں“ کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گا، وہ کبھی عدلیہ کی بہتری کے لیے کام نہیں کرے گا، وہ کبھی عدلیہ کی آزادی کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ جبکہ اس کے برعکس میرٹ پر تعینات ہونے والا جج یا مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے جج کے پاس ایک وژن ہوگا، ایک عزم ہوگا، جوش ہوگااور ولولہ ہوگا۔ ورنہ تو ماضی میں ایسے سفارشی ججز بھی تعینات رہے جنہیں فیصلے لکھنے بھی نہیں آتے تھے۔ اسی وجہ سے ہم 139ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر موجود ہیں۔ اور پھر ہمارے مسائل ایسے ہیں کہ جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہے، ہر ادارے میں اس وقت آگے بڑھنا مشکل ہو چکا ہے، عدلیہ کو ہی لے لیں، اسی حوالے سے یعنی ججز کی تعیناتی کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تعیناتی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ جس میں ججز کی تعیناتی تو نہ ہو سکی مگر اس بڑے ادارے میں ہونے والی تعیناتیوں پر سوال ضرور کھڑے ہوگئے۔ آگے چلنے سے پہلے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اعلی عدلیہ میں عملی طور پر اکیلے چیف جسٹس کی طرف سے کی جانے والی ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر زیادہ لوگوں کو مشاورتی عمل میں شامل کر کے ایکCollegial پراسس کو متعارف کروایا گیا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ کوئی بھی ایک شخص یا ادارہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ وہ اکیلا اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کر سکے یا ایسی تعیناتیوں کے عمل میں اثر انداز ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد قابل ترین شخص کو جج کے منصب پر اس طرح سے فائز کرنا تھا کہ وہ بغیر کسی بیرونی یا اندرونی دباﺅ کے اپنے جوڈیشل مائنڈ کے مطابق غیر جانبداری سے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔اگر اس حوالے سے بات کی جائے کہ ”جوڈیشل کمیشن“ کن افراد پر مشتمل ہوگا تو یہ کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے دو سینئیر ترین جج، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نامزد کردہ ایک سینئر وکیل پر مشتمل تھا۔ پھر ہائیکورٹ میں بھی ججوں کی تعیناتی کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، متعلقہ ہائیکورٹ کے دو سینئر ترین جج، متعلقہ صوبائی وزیر قانون اور متعلقہ صوبائی بار کونسل کے نامزد کردہ ایک وکیل بھی مذکورہ کمیشن میں شامل کیے گئے۔ کمیشن کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ کثرت رائے سے خالی آسامیوں پر تعیناتی کے لیے ججوں کے نام منظور کرکے ”پارلیمانی کمیٹی“ کو بھجوائے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہونا تھی، اس آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں چار ارکان سینٹ اور چار قومی اسمبلی سے شامل کیے گئے اور اس میں بھی حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کا جائزہ لے کر انھیں منظور کرکے صدر مملکت کو بھجوانا یا مسترد کرنا پارلیمانی کمیٹی کے فرائض میں شامل کیا گیا۔ لیکن اس اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی مسئلہ جوں کا توں رہا اور پھر 19ویں ترمیم کے ذریعے اس میں مزید بہتری لائی گئی۔ مگر اب ایک بار پھر اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور یہ اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کمیشن کے ممبران قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہیں گے۔ لہٰذابہتر یہی ہے کہ بیوروکریسی کی طرز پر عدلیہ میں بھی تعیناتیاں کی جائیں،یعنی ججز کی کوالیفیکیشن اور میرٹ بالکل سی ایس پی افسران کی طرز پر ہونا چاہیے، جیسے ہی کوئی وکیل سول جج بھرتی ہو، اُس کے بعد اُس کی 2سال کی ٹریننگ ہو، جس کے بعد وہ مقدمات سنے اور سینیارٹی کی بنیاد پر اُس کی ترقی ہوتی رہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ٹاپ رینکنگ عدالتی نظام جن میں سویڈن، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا اور دیگر ممالک میں ججز کی تعیناتی اسی طرز پر کی جاتی ہے، وہاں عدلیہ میں سیاسی عمل دخل تو بہت دور کی بات اس حوالے سے سوچنا بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہاں امریکا میں بھی شروع شروع میں عدالتی فیصلوں کا بہت بڑا عمل دخل سیاست کی صورت میں نکلتا تھا اور اس حوالے سے عدلیہ پر ہمیشہ دباﺅ رہتا تھا۔ اسی دباﺅ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت برا ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباو¿ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ ”بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں“، اس کتاب میں انہوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ پھر اس کتاب میں ماضی میں امریکا کی عدالتوں میں ”سیاسی ججز“ کی بھرتیوں اور اس میں ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی عدالت میں ایک جج کی بغیر میرٹ کے بھرتی پورے سسٹم پر بھاری پڑتی ہے، کیوں کہ عدلیہ میں ایک غلط فیصلہ پورے سسٹم میں ایک ”حوالے“ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ خیر انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔پھر ہمارے ہاںلوئیر ججز کو تحفظ نہیں ملتا اس لیے وہ قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں، پھر انگریز کے دور میں اور پوری دنیا میں ججز کو عوام سے ملنے ، گھلنے ملنے وغیرہ سے منع کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ججز ٹی وی کے پروگرام بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی اخبار دیکھتے ہیں کہ اُن کی رائے نہ بدل جائے، جبکہ یہاں پر ججز ہر شادی بیاہ، تقریب بلکہ ہر جگہ پر نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ کسی ریسٹورینٹ کے افتتاح بھی اکا دکا ججز کو دیکھا گیا ہے۔ یہ اسی لیے ہوتا ہے کہ یہاں ججز کی تعیناتیاں سیاسی، اور طاقتور افراد کرتے ہیں۔ لہٰذافوری طور پر جوڈیشل کمیشن کی کاروائی کے طریقہ کار اور اس ضمن میں مرتب کیے جانے والے رولز کا ازسر نو جائزہ لے کر اسے قانون سازوں کی منشا سے ہم آہنگ بنایا جائے۔ ہر ہائیکورٹ کی سطح پر معزز ججوں کی ایک کمیٹی جج کے طور پر تعیناتی کے لیے ہر قانونی شعبے سے موزوں ناموں کی فہرست ایک مسلسل اور شفاف عمل کے ذریعے مرتب کرے۔ اس فہرست کو مرتب کرنے میں وکلا کی تعلیمی کارکردگی اور پیشہ وارانہ صلاحیت دونوں کو مد نظر رکھا جائے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عدالتوں میں پیش ہونے والے پرائیویٹ پریکٹشنرز، قانون کی تدریس سے منسلک، قانون کے محقق، ماتحت علیہ کے ججز، انسانی حقوق کے لیے خدمات فراہم کرنے والے، حکومتی اداروں اور دیگر کارپوریشنز کے قانونی شعبوں سے وابستہ، پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ، اٹارنی جنرل آفس اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے لا آفیسرز، نیز کہ قانون کے ہر شعبہ میں غیر معمولی کارکردگی کے حامل اہل قانون دانوں کو اس فہرست میں شامل کیا جائے اور جوڈیشل کمیشن میں کسی بھی نام کو تجویز کرنے کی بجائے کمیشن مذکورہ فہرست میں شامل قانون دانوں پر غور و خوض اور حقیقی مشاورت کے بعد کثرت رائے سے ان میں سے قابل ترین ناموں کا انتخاب کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ججز کی تعیناتی کے لیے ایسا معیاری نظام متعارف کروایا جائے جس پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے، اس کے لیے آپ سی ایس ایس کے امتحانات یا پی سی ایس کے امتحانی نظام سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ بہرکیف اگر ایسا نہیں ہوتا تو اعلیٰ عدلیہ پر کوئی تنقید تو نہیں کر سکتا مگر اس کی کارکردگی کے حوالے سے ”خطوط“ ضرور لکھے جائیں گے جیسے حالیہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک خط بھی سامنے آیا ہے جو کہ انھوں نے پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ اس کمیشن کے دیگر ارکان کو تحریر کیا۔ اس خط کی تفصیل میں تو نہیں جاﺅں گا مگر وہ عدلیہ کے موجودہ نظام کو پوری طرح آئینہ دکھاتے نظر آرہے ہیں، پھر سپریم جوڈیشل کمیشن کے ایک اور رکن جسٹس سردار طارق مسعود کا خط بھی سامنے آیا ، جو اسی سے ملتا جلتا تھا۔ لہٰذااگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواءمقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کوئی نہیں کم و بیش 50لاکھ خاندان جڑے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں ججز سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا طبقہ ہے، جیسے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہ لیفٹیننٹ جنرل اور گریڈ 22کے بیوروکریٹ سے زیادہ ہے،اس لیے ہمیں قوم کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ اُنہیں کیسے بہترین انصاف فراہم کرنا چاہیے ، یہ تبھی ممکن ہوگا جب میرٹ پر قابل ججز کی بھرتیاں ہوں گی ورنہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا!