سب کچھ مرضی کے مطابق ہوگیا، پھر بھی سوشل میڈیا بندکیوں؟

پاکستان میں تمام حکومتیں مرضی کی بن گئیں یا بنادی گئیں، جیسے چاہا کسی نے ویسے ہی من پسند افراد بھی حکومت میں آگئے.... مرضی کے کیس بھی بن گئے، اور اُن کیسز کی سزائیں بھی سامنے آنا شروع ہوگئیں.... مرضی کی سیاسی پارٹی کو بھی منظر عام سے آﺅٹ کر دیا، اور مرضی کی قیادت کو بھی الیکشن میں ”ان“ کروا دیا۔ اب صدر بھی مرضی کا لایا جا رہا ہے، اور یقینا سینیٹرز کے الیکشن میں بھی مرضی کے سینیٹرز آئیں گے اور پھر چیئرمین سینیٹ بھی مرضی کا لایا جائے گا۔ تو پھر جب یہ سارے حالات اس قدر ”سازگار“ اور نارمل ہیں تو پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیاں کیوں؟ خیر اس حوالے سے سب سے پہلے بتاتا چلوں کہ سوشل میڈیا، آزادی اظہار رائے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے، اور یہ وہ ہتھیار ہے جس کے اظہار کے لیے ماضی میں بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کیے جاتے تھے، مگر اب یہ سب کچھ آپ کے موبائل میں آچکا ہے، آپ کسی بھی چیز کے حوالے سے تنقید، تعریف یا کچھ بھی اظہار کرنا چاہتے ہیں توآپ فوراََ اپنے فیس بک، ٹوئیٹر(ایکس)، یوٹیوب، انسٹاگرام ، وٹس ایپ ودیگر پلیٹ فارم کے”پیج“ پر جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں۔ پہلے یہ اظہار آپ اخبارات یا جریدوں کے ذریعے کرتے تھے، لیکن اُس میںبھی بہت سے مسائل تھے، کہ جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے، یا تو اُسے ایڈٹ کر دیا جاتا تھا، یا سینسر کرکے آپ کا پیغام عوام تک پہنچایا جاتا تھا، لیکن سوشل میڈیا کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ”بیرئیر“ نہیں ہے۔ آپ براہ راست عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اب پاکستان میں یہ سوشل میڈیا منفی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور مثبت انداز میں بھی۔ لیکن یہ حکومتوں کے لیے ہمیشہ سردرد بنا رہا ہے، سردردہے اور آنے والے دور میں بھی یہ مزید سر درد بنے گا۔ لیکن اب سنا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی سوشل سائیٹس پر پابندی لگانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے، جس کے مطابق من چاہی ”پوسٹ“ کو صارفین تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔ اور اس کا ”ٹیسٹ“ سب سے پہلے ٹوئیٹریعنی ایکس پر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ”ایکس“ پلیٹ فارم سب سے زیادہ پابندی کا شکار ہے اور گزشتہ کم و بیش ایک ماہ سے یہ بند ہے، حالانکہ اس کے صارفین کی تعداد فیس بک اور دیگر پلیٹ فارم کے مقابلے میں بہت کم یعنی صرف 50لاکھ ہے۔ لیکن یہ پھر بھی پابندی کا شکا ر ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ 8فروری کے الیکشن کے بعد پاکستان کے ”پاور پلیئرز“ جن میں صحافیوں سے لے کر سیاستدان تک شامل ہیں اور یہ بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی کمیونٹی سے جڑنے کا ذریعہ ہیں۔اور پھر ایکس پر ہیش ٹیگ کی سہولت بھی موجود ہے جو ایک طرح سے بیانیہ بنانے میں مدد دیتی ہے، تو پیغام روزمرہ کی بنیاد پر پانچ ملین صارفین سے بڑھ کر کہیں زیادہ افراد تک پہنچتا ہے۔اس لیے ان دنوں جب الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور ثبوت سامنے آ رہے ہیں، تو بظاہر یہی تاثر ملتا ہے کہ اسے اسی باعث بلاک کیا گیا۔یعنی سادہ سی زبان میں اگر سمجھاﺅں تو ٹوئیٹر پر پیغام بھیجنا دنیا بھر کے بڑے بڑے ناموں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، جس سے آپ کے ملک کے اندر ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی سے آپ کے ملک کانا صرف امیج خراب ہوتا ہے بلکہ آپ کے ملک کی ریٹنگ پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ تبھی گزشتہ روز امریکی وزارت خارجہ نے یہ تنبیہ کی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہیں، پہلے بھی کہہ چکے ”ایکس“ سمیت انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر جزوی یا مکمل حکومتی بندش کی مذمت کرتے ہیں۔میتھیو ملر نے کہا کہ انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر کسی طرح کی پابندی ناقابل قبول ہے، پاکستان کے حکام پر ان بنیادی آزادیوں کے احترام کی اہمیت پر زور دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔پاکستان میں مسابقتی الیکشن ہوا، کروڑوں لوگوں نے اپنی آواز سنائی، نئی حکومت بن گئی،اس حکومت کےساتھ مل کرکام کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں بے ضابطگیوں کی رپورٹس اور نتائج پر سیاسی جماعتوں کے چیلنج سامنے آئے، ان چیلنجز اور ان بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات ہونی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آپ حالات دیکھیں کہ گزشتہ ہفتے پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد سینیٹ میں جمع کر وائی.... فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، یوٹیوب اور ایکس پر پابندی کی اس قرارداد میں موقف اپنایا گیاہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سرگرمیوں کے ملک کی نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔یہ ہمارے مذہب و ثقافت کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ مذہب اور زبان کی بنیاد پر نفرت پیدا کرنے اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کے ذریعے ملکی مفادات اور پاک فوج کے خلاف ان کا استعمال ہونا باعث تشویش ہے۔یہ پلیٹ فارم جعلی قیادت کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔لہٰذا سینیٹ حکومت پاکستان کو تجویز کرتا ہے کہ فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، ایکس اور یوٹیوب پر پابندی لگاکر نوجوان نسل کو ان کے منفی اور تباہ کن اثرات سے بچایا جائے۔ حالانکہ تنگی صاحب سے بندہ پوچھے کہ اس وقت ایران جیسا ملک یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اُن کا ملک سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے دنیا میں پیچھے رہ گیا۔ اور یہ بات کسی اور نے نہیں کی بلکہ ایرانی صدر حسن روحانی نے کی ہے، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بعض سوشل میڈیا سائٹس کو بند کرنے سے ملک کافی پیچھے رہ گیا ہے۔آج کی دنیا تبدیلی اور ترقی کے دور سے گزر رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے ہم دور حاضر سے پیچھے جا رہے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس ہم سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا نے کو ترجیح دے رہے ہیں، حالانکہ انہیں یا بات سمجھنی چاہیے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جبکہ پوری دنیا نہ صرف ان سے وابستہ ہے بلکہ اس کے ذریعے کاروباری سرگرمیاں بھی جاری ہیں،ان کی مکمل بندش کی قرارداد بعید از فہم ہے۔بلاشبہ ہمارے ہاں اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال زیادہ ہے لیکن کیا اس وجہ سے اسکے مثبت پہلوﺅں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟جو شکایات ہمارے ہاں ہیں دنیا کے دیگر ممالک کو بھی پیش آئیں تو انہوں نے اس کا حل نکالا،نہ صرف عرب ریاستوں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کے غلط استعمال کی نگرانی کے ایسے طریقے اختیار کیے گئے ہیں کہ جوں ہی کوئی فرد کوئی ایسی پوسٹ کرتا ہے جو ملک و قوم کے مفادات کے منافی ہو،گرفت میں آجاتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایف آئی اے میں سائیبر کرائم ونگ موجود ہے اس لیے ان ایپس کو بند کرنے کے بجائے وہی طریقہ اپنایا جانا چاہیے جو دیگر ممالک استعمال کر رہے ہیں تاکہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال جاری رہے اور منفی سرگرمیاں بھی ممکن نہ ہوں۔ بہرکیف نگرانوں کو جو ٹاسک ملا تھا، انہوں نے اسے بخوبی پورا کیا۔ تو اب ان پابندیوں کا جواز نہیں ہے۔ اور پھر اگر آپ عوام کی آواز کو بند کریں گے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ عرب سپرنگ کے نام سے مشہور مشرقِ وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے لے کر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی تک، شام کی خانہ جنگی سے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عروج و زوال تک، اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات سے لے کر کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل تک سوشل میڈیا کے ذریعے تخت و تاراج کو بدلتے ہوئے دیر نہیں لگی۔ چلیں یہ بات مان بھی لی جائے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اس وقت پاکستان پر سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے، ایک ایک ٹویٹ یا پوسٹ آپ کی نیوزکا اینگل بدل دیتی ہے، حالات بدل دیتی ہے، اور یہ زور آج کا نہیں ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان نے 2010 میں ہی فیس بک اور ٹوئٹر آفیشل اکا¶نٹس کا آغاز کردیا تھا،حالانکہ اُس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر توجہ دے رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر مقبولیت کی بے تاج بادشاہ بھی رہی تاہم سنہ 2013 کے عام انتخابات کے نتائج تحریک انصاف کے حمایتوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئے جب سوشل میڈیا پر پارٹی کی مقبولیت کی جھلک انتخابات کے نتائج میں نظر نہیں آئی۔لیکن اس کے بعد ہی سے ہر سیاسی پارٹی کا اپنی سوشل میڈیا ٹیم بنانے اور اپنی حمایت میں ٹوئٹر ٹرینڈ چلانے کا رواج پڑا جو آج تک بہت سوں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ جب لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے بھی پاکستانی فوج اور اس کی پالیسوں کا عوام میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے جس کا ثبوت ہیش ٹیگ شکریہ راحیل شریف اکثر سوشل میڈیا کی زینت بنا رہنا تھا۔ خیر کسی لگی لپٹی کے بغیر اس وقت یہ ماننا پڑے گا کہ بانی تحریک انصاف کو اس بات کا ادراک تھا کہ آنے والا دور سوشل میڈیا کا ہے، تبھی انہوں نے اپنے فالوورز کو اس چیز کے لیے ناصرف تیار کیا بلکہ نئے نئے ٹرینڈز بھی متعارف کروائے۔ لہٰذامیرے خیال میں حکومت چاہ کر بھی اس جماعت کا زور ختم نہیں کر سکتی۔۔ اس لیے میرے خیال میںا گر حکومت اپنی بھاﺅ بھی سوشل میڈیا پر بڑھانا چاہتی ہے تو اس کے لیے پابندی حل نہیں بلکہ انصاف پر مبنی حکومت قائم ہو، حکومت کارکردگی دکھائے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ ورنہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے!