ٹریفک حادثات یا قتل عام !

دوہفتے کے دوران ملک میں 3بم دھماکے ہوئے ہیں، اور تینوں کراچی میں ہوئے ہیں، جن میں مرنے والوں کی تعداد 4 اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 2درجن کے قریب ہے۔ لیکن ان دھماکوں کی گونج عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ اسی عرصے کے دوران ملک بھر میں300افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوگئے ہیں جن کے بارے میں ناتو کوئی تحقیق ہوئی، نہ میڈیا پر بھونچال آیا اور نہ ہی اسے عالمی میڈیا نے اتنی اہمیت دی ہے۔ ان حادثات میں خاندان کے خاندان ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔رہی بات ریاست کی تو اُسے اپنی جھنجٹوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس ان سب چیزوں سے لاتعلق ہے، کوئی اس جانب توجہ نہیں دے رہا، قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ روک ٹوک کوئی نہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ لوگ مارے جارہے ہیں۔ لوگ ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ لوگ ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یتیموں اور بیواﺅں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید آہیں آسمان تک جا نہیں پا رہیں۔ صرف ایک دن کا سکور ملاحظہ کیجیے۔ ضلع جامشورو کے علاقے خانوٹ میں واقع کوئلے کی کانوں سے کوئلہ بھر کر 10 وہیل ٹرک پنجاب کی طرف جا رہا تھا۔ مسافروں سے بھری ہوئی گاڑی ضلع نوشہرو فیروز کے علاقے کنڈیارو سے کراچی جانے کے لیے نکلی تھی۔ گاڑی میں سوار تمام افراد محنت کش تھے جو کراچی میں کورنگی کے علاقے میں بلال کالونی میں نمک کی پیکنگ کرنے والے کارخانوں میں مزدوری کرتے تھے۔یہ تمام لوگ عید الفطر کی تعطیلات پر اپنے اپنے گاﺅں عید منانے آئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔اور سب کے سب یعنی 17افراد جاں بحق ہوگئے۔ پھر فیصل آباد سمندری روڈ پر آئل ٹینکر نے رکشے کو ٹکر ماری اور اس میں سوار ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے بیان کی رو سے ٹینکر کا ڈرائیور تیز رفتاری کا مرتکب ہو رہا تھا۔ پانچ بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے بعد، ٹینکر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ ایک اور خبر کے مطابق حافظ آباد گوجرانوالہ روڈ پر ڈمپر نے دو مسافر ویگنوں کو ٹکر ماری۔ 13 انسان مر گئے۔ آٹھ زخمی ہیں۔ یہ حادثہ بھی ڈمپر ڈرائیور کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔پھرپاکستان میں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات کی شرح کراچی میں ہے جہاں ہر آدھے گھنٹے میں ایک حادثہ ہوتا ہے۔ سال ِرواں کے پہلے چار ماہ کے دوران ٹریفک کے جتنے حادثات ہوئے ان میں سے نصف سے زیادہ کے ذمہ دار ڈمپر،ٹرالر اور ٹینکر تھے۔ 22 مارچ کو شاہراہ فیصل پر ایک شخص اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک سیمنٹ مکسر نے تینوں کو کچل دیا۔ داﺅد چورنگی کے پاس ایک واٹر باﺅزر، یعنی پانی والے ٹینکر کی بریکیں فیل ہو گئیں اور وہ دو موٹر سائیکل سواروں کے اوپر سے گزر گیا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس کچھ نہیں کرتی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کچھ کر نہیں سکتی۔ سزائیں نرم ہیں۔ قوانین میں کمزوریاں ہیں۔ایک ڈرائیور اگر ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو موت کے گھاٹ اتار تا ہے تو اسے قتلِ عمد سمجھنا چاہیے نہ کہ قتلِ خطا! جو خاندان خون کے آنسو رو رہے ہیں ان کی حالتِ زار سے سب بے نیاز ہیں! افسوس تو اس امرکا ہے کہ ان حادثات کے بعد نہ تو کوئی ادارہ متحرک ہوتا ہے، نہ کہیں کوئی ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں بہتری لائی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ نظر سے کے مطابق 82 فیصد ٹریفک حادثات موٹر سائیکل سے ہوتے ہیں، یعنی موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکراتی ہے یا کسی اور موٹر سائیکل سے یا پھر سوار خود ہی بے قابو ہو کر کسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت نئی وپرانی موٹرسائیکلوں کی تعداد 7کروڑ ہوچکی ہے۔جس میں 5کروڑ چائنہ کی موٹر سائیکل ہے جس میں نہ تو سیفٹی کا چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے اور نہ کسی قسم کا ایمرجنسی سسٹم رکھا جاتا ہے۔ پھر آپ گاڑیوں کے حادثات کو دیکھ لیں۔ ان حادثات کی وجوہات پر غور کیا جانا از حد ضروری ہے۔ گاڑیوں میں حفاظتی سہولیات میں سے ایک سیٹ بیلٹ ہے۔ کئی عشروں تک امریکہ جیسے ملکوں میں بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ سیٹ بیلٹ حادثے سے بچاﺅ کیلئے کافی ہے کیونکہ گاڑی الٹنے یا ٹکرانے کے بعد جھٹکے کی صورت میں مسافر اچھل کر گاڑی کے مختلف حصوں سے ٹکراتے ہیں جس سے چوٹ بڑھ جاتی ہے؛ تاہم سیٹ بیلٹ کے باوجود حادثات میں مسافر زخمی ہوتے رہے تو اس کا حل ایئر بیگز کی صورت میں دریافت کیا گیا۔ یہ ایئر بیگ ابتدا میں ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھے مسافر کے سامنے ڈیش بورڈ میں نصب تھے اور جیسے ہی گاڑی سامنے سے ٹکراتی، بمپر میں لگے سنسرز خودکار انداز میں ایئربیگز کو کھلنے کا پیغام دیتے اور یوں گاڑی کے سامنے سر لگنے یا سٹیئرنگ اور گاڑی کا ڈھانچہ انسانی جسم میں پیوست ہونے کا خدشہ کم ہو گیا۔ امریکہ میں 1999ء میں بغیر ایئربیگز والی گاڑیوں اور ٹرکوں کے سڑکوں پر آنے اور بنانے پر پابندی لگ گئی جس کے بعد جاپان، جو دنیا میں گاڑیوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر تھا، نے بیرون ممالک ایئربیگز والی گاڑیاں بھیجنا شروع کر دیں۔ ان سے حادثات میں ہونے والے انسانی نقصانات میں خاطر خواہ کمی آ گئی۔ جبکہ اس کے برعکس آج بھی پاکستان میں اس حوالے سے کوئی چیک اینڈبیلنس نہیں ہے بلکہ 80فیصد امپورٹڈ گاڑیوں میں تو سیفٹی ائیر بیگز کا تصور بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تو بغیر شاکس والے چنگ چی رکشے تک چلنے کی اجازت ہے جن میں کوئی حادثہ نہ بھی ہو تو اچھے بھلے بندے کا دس منٹ میں انجر پنجر ہل جاتا ہے۔ اسی طرح شہروں سے ذرا باہر نکلیں تو موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننا تو کیا کوئی نمبر پلیٹ لگانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پر ایسی ایسی ڈڈو بسیں اور دھواں دینے والی گلی سڑی کوچیں اور ”طیارے“ چل رہے ہیں جنہیں ہزار مرتبہ ویلڈ کیا جا چکا ہے لیکن انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ سکول وینوں میں غیر معیاری سلنڈر بھی سال میں ایک دو مرتبہ پھٹتے ہیں لیکن نہ تو عوام کو کوئی عقل آتی ہے نہ ادارے کچھ کرتے ہیں۔ پھرایک اور المیہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے، تو آپ کی گاڑی کو بند بھی نہیں کیا جائے گا۔ محض 500 سو روپے جرمانہ کر دیا جائے گا۔یعنی آپ نے محض 500روپے میں اسے گھر جانے دیا تاکہ وہ راستے میں درجنوں معصوم جانوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکے۔ آپ دور نہیں جائیں محض دبئی کی مثال لے لیں وہاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے پر باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ شخص شہر میں ”بم“ لیے پھر رہا تھا۔آپ موٹروے کی مثال لے لیں، وہاں پر دیکھا یہ گیا ہے کہ صاحب حیثیت لوگ قوانین کی زیادہ دھجیاں اُڑاتے نظر آتے ہیں۔کیوں کہ انہیں علم ہے کہ جرمانے بہت کم ہیں اس لیے اوور سپیڈنگ بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کی گاڑیاں 16سو سی سی سے اوپر ہوتی ہیں۔اُن کے لیے 700روپے جرمانہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔جبکہ اس کے برعکس آپ کو امریکا کی مثال دیتا ہوں کہ میں آج کل امریکا ہوں تو وہاں ایک دوست مجھے کسی پارٹی میں لے گیا، گاڑی ڈرائیو وہ خود کر رہا تھا، ہم رات کو جب واپس آئے تو میں نے اُس سے پوچھا کہ واہ اچھی بات ہے تم نے شراب چھوڑ دی، اُس نے مزاحاََ کہا کہ ڈھلوں صاحب چھوڑی کہاں ہے، یہاں کے سخت ٹریفک قوانین کی وجہ سے ہمت نہیں ہوتی ، پھر میں نے مزید دریافت کیا تو علم ہوا کہ آپ کو شراب پی کر گاڑی چلانے کی سزا اقدام قتل کی سزا کے برابر ہے۔ اُس نے کہا کہ امریکا میں ہر قسم کی آپ کو چھوٹ مل سکتی ہے مگر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کو عمر قید کے لیے بھیج دیا جائے ۔ اس کے علاوہ وہاں معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سینکڑوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور بغیر لائسنس کے تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ گاڑی چلا سکیں گے! بعض اوقات غلطی پر غلطی کرنیوالے کا لا ئسنس بھی کینسل ہو جاتا ہے تین سال پرانی گاڑیوں کو ہر سال فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو وہ روڈ پر نہیں آسکتی ۔ ملائشیا کی مثال لے لیں وہاں صرف وہی شخص ڈرائیونگ کر سکتا ہے جس کے نام پر گاڑی ہو، مگر ہمارے ہاں چار دن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والا پانچویں دن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ٹریفک قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے ، گورنمنٹ کی رٹ کو مضبوط کیا جانا چاہیے ۔ جرمانے کی سزاﺅں کو Reviseکیا جانا چاہیے، اب ایک شخص کے پاس 2کروڑ کی گاڑی ہے اُس کا پانچ ، سات سو روپے کا چالان کردیں گے تو اُسے کیا فرق پڑے گا یا جو شخص موٹروے سے سفر کرتا ہے وہ یقینا صاحب حیثیت ہوگا، اُس کا موٹروے پر اووسپیڈ پر700روپے جرمانہ ہوگا تو اُسے کیا فرق پڑے گایہی جرمانہ اگر پہلی مرتبہ 7000، دوسری مرتبہ 21000تیسری مرتبہ 60000اور گاڑی بند۔ ہوگا تو یقینا وہ نسبتاََ احتیاط سے کام لے گا۔ روڈ ایکسیڈنٹ کے حوالے سے ایک الگ ایسا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو ہمہ وقت اسی پر کام کرے، اس ادارے میں کسی کا عمل دخل نہ ہو تاکہ اس اہم ترین مسئلے کو سیاست سے ہٹ کر حل کیا جائے۔ ورنہ جیسے چل رہا ہے ویسے ہی سسٹم چلنے دیں کیوں کہ یہ ہماری ”روایات“ ہیں کہ عام لوگوں کو ہلاک کرنے سے کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ کوئی قیامت نہیں آتی۔کسی قانون کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ کوئی طاقت، از خود نوٹس نہیں لیتی ۔ بقول شاعر نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا