حکومت کو اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں ہے!

آج کی سیاست کا لب لباب اگر کوئی پوچھے تو بس اتنا بتا دیں! کہ پی ڈی ایم نے جو بم حکومت پہ گرانا تھا وہ پی ڈی ایم کے اپنے ہی ہاتھوں میں پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی لانگ مارچ کی تحریک بھی کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا۔اپوزیشن اناڑی اس لیے کہ بھلا اُسے اتنا زور لگانے کی اور اتنی جلدی Exposeہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تھوڑی دیر انتظار کر لیتے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے تو حکومت نے جلد ہی اپنی کارکردگی کی وجہ سے گھر چلے جانا تھا۔ لیکن اپوزیشن کے اناڑی پن کی وجہ سے اب حکومتی ایوانوں کو خوب بغلیں بجانے کا موقع مل گیااور” اندھوں میں کانا راجہ“ (جہاں سب اندھے ہوں انکے درمیان اگر کوئی ”یک چشم“ یعنی کانا ہو جس کی ایک آنکھ اندھی اور صرف ایک آنکھ دیکھ سکتی ہو تو وہ ان کا راجہ اور بادشاہ ہی ہوگا۔)کے مترادف عوام کو بھی اسی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۔ لیکن حکومت ہے کہ عوام کو”اُلو“ بنانے میں اُس کا بھی کوئی ثانی نہیں ہے، بھلا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہو یا پیپلزپارٹی کا، عوام کو اس سے کیا غرض، لیکن اس بات کومیڈیا اور حکومت نے اس قدر بڑھا رکھا ہے کہ ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے۔حالانکہ عوام کے غرض والی جو چیزیں ہیں اُن میں سے سب سے ضروری یہ ہے کہ ”غیر یقینی “کی صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ کیسے عام آدمی کے روزگار کا پہیہ چل سکے؟ کیسے ملک سے کرپشن ختم ہو سکے، کیسے تعلیم اور صحت کی سہولیات کو عوام تک پہنچایا جاسکے؟ یا کیسے مافیاز کو کنٹرول کیا جاسکے؟ اس کے ساتھ عوام کو اس چیز سے غرض ہے کہ حکومت 10فیصد بھی ڈلیور نہیں کر پارہی، عوام کو اس چیز سے بھی غرض ہے کہ اس حکومت کے 90فیصد لوگ مختلف ” مافیاز“ کا حصہ ہیں اورجو 10فیصد کام کرنے والے لوگ ہیں انہیں بھی علم نہیں ہے کہ آخر انہوں نے کرنا کیا ہے؟ اس میں قصور کسی کا بھی ہو لیکن بظاہر توحقیقت اسی میں ہے کہ اس وقت کپتان سمیت پوری ٹیم نالائقوں کا ٹولہ ہے،جو میدان میں تو آچکے ہیں مگر، نہ تو انہیں باﺅلنگ کا تجربہ ہے، نہ بیٹنگ کا اور نہ ہی فیلڈنگ کا۔ لہٰذاجو ٹیم انہوں نے میدان میں کھڑی کر رکھی ہے اُسے فیلڈنگ کرنا تو دور کی بات انہیں بھاگنا بھی صحیح انداز میں نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے سکول کے دن تھے، جب خان صاحب نے 1971ءمیں کرکٹ کی عالمی دنیا میں قدم رکھا وہ پہلا ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف کھیلے جس میں وہ بطور کھلاڑی بری طرح ناکام رہے جس کی بدولت انہیں اگلے تین سال تک کرکٹ میں جگہ نہ مل سکی۔ پھرانہوں نے دوبارہ 1974ءمیں ٹیم میں جگہ بنائی، پھر وہ 1982ءمیں ٹیم کے کپتان بنے، پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی ماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی ڈھاک تو بٹھادی تھی۔لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ وہ بحیثیت کھلاڑی اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ بھی ہار گئے تھے،پھر بطور کپتان پہلا ٹیسٹ بھی ہارے اور پہلی سیریز بھی ہار گئے تھے اورپھر پہلا ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ بھی بری طرح ہار گئے تھے، اپنی کپتانی کا دوسرا ورلڈ کپ بھی ہار گئے تھے، جبکہ انہیں تیسرے ورلڈ کپ میں رمضان کے مہینے میں قوم کی دعاﺅں سے فتح ملی تھی، جو خان صاحب کی زندگی کا آخری میچ تھا۔ اب کی بار سیاست کے میدان میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ اسی چکر میں ہار رہے ہیں کہ آگے چل کر انہیں”سیاست کا ورلڈ کپ“ مل جائے گا لیکن یہ اُن کی محض خام خیال لگتی ہے۔ کیوں کہ سیاست ایک الگ طرح کا کھیل ہے جس میں خراب فیلڈنگ، خراب باﺅلنگ، زیادہ نوبال یا غلط شاٹس کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس لیے جتنی شاٹس سیاست میں انہوں نے ڈھائی سال میں لگا لی ہیں، وہ اُن کی کارکردگی جانچنے کے لیے کافی ہیں، سیاست کے میدان میں لوگوں نے 21سال اُن کا انتظار نہیں کرنا۔ اب T20کا دور ہے، سنبھل کر تیز کھیلنا ہوگا، جدید تقاضوں کے عین مطابق کھیلنا ہوگا، کیوں کہ یہاں پورا ملک داﺅ پر لگا ہے، وہاں تو شاید کوئی فون کرکے آپ کی کپتانی بچا لیتا تھا، لیکن یہاں کوئی بچانے والانہیں ہے، یہاں آپ نے خود Surviveکرنا ہے، آپ کو تو ہار کر پھر جیتنے کی عادت ہے لیکن یقین مانیں یہاں چانسز کم ہیں اور مقابلہ زیادہ ہے۔ یہاں ابھی تک کی کارکردگی بھی کوئی نمایاں کارکردگی نہیں ہے، یہاں ڈھائی ، پونے تین سالوں کی کارکردگی یہ ہے کہ شوگر سکینڈل کی رپورٹ سب کے سامنے آچکی ہے جس میں ” شوگر ملز کارٹل“ کو ایف بی آر کی جانب سے 469 ارب روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کیے جارہے ہیں اور 110ارب روپے کی مالیت کی سٹہ بازی کا بھید پانے کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کردیا گیا ہے۔ یہاں کارکردگی یہ ہے کہ پٹرولیم سکینڈل سب کے سامنے ہے، جس میں وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سیکرٹری پٹرولیم کو برطرف کرتے ہوئے پٹرولیم کے کاروبار میں سینکڑوں ارب کے گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ کارکردگی یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے شرائط کے تحت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) کو بجلی کے نرخ طے کرنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ اگلے چھ ماہ میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں تقریباً 9 روپے کے اضافے سے صارفین پہ ایک ہزار ارب روپے کا بوجھ لادا جارہا ہے، 10فیصد سرچارج اس کے علاوہ ہوگایعنی جس کابجلی کابل دس ہزار روپے آتا تھا، مستقبل قریب میں 20ہزار روپے آیا کرے گا، اس طرح سوئی ناردرن گیس کمپنی نے گیس کے نرخوں میں 220 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور سوئی ساﺅدرن گیس کمپنی نے بھی گیس کی قیمت بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ پھر موٹی موٹی کارکردگی میں اسٹیٹ بنک کو بھی لے آئیں، جسے پاکستانی ریاست کی حاکمیت سے آزاد کرتے ہوئے اس کی نکیل آئی ایم ایف کے حوالے کردی گئی ہے، جیسے مغلوں نے مالیاتی نظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کیا تھا۔ پھر ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ چار جائزوں میں وہ تمام شرائط مان لی ہیں جو پہلے کبھی کسی نے نہیں مانی تھیں۔ ملنے تو تھے دو ارب ڈالر لیکن ملے صرف 50 کروڑ ڈالر۔پھر اگلے بجٹ میں 700ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں اور نہلے پہ دہلا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں مزید کٹوتیوں کی نئی بحث چھڑنے والی ہے۔ پھر کارکردگی یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ہی تعینات کردہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تحریک چلانے لگے ہیںحالانکہ راجہ سکندر کا نام عمران خان نے اپنے ایک غیر سیاسی مشیر کی سفارش پر پیش کیاتھا، آئینی تقاضوں کے مطابق قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کے مشورے پرانہیں حکومت نے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا مگر اب پورا الیکشن کمیشن ہی حکمرانوں کو متنازعہ اور جانبدار نظر آ رہا ہے۔ چراکارے کند عاقل کہ بازآید پشیمانی (عقلمند وہ کام ہی کیوں کرے جس کے نتیجے میں اسے پشیمان ہونا پڑے) پھر وہی پرانا مسئلہ یہاں بھی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی یہ عجیب سی عادت ہے کہ کسی اہم منصب پر تقرر کرتے وقت بامقصد مشاورت کی ضرورت محسوس کرتے ‘ نہ مطلوبہ شخص کی اہلیت و صلاحیت‘ کردار کا جائزہ لیتے اور نہ موزونیت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کسی قریبی دوست‘ رشتے دار یا کاروباری حصے دار نے سفارش کردی‘ وفاداری اور ہر جائز و ناجائز معاملے میں تابعداری کا یقین دلا دیا تو اعلیٰ سرکاری منصب پر تقرر منظور‘ ماضی سے واقفیت نہ تجربہ و قابلیت کی اہمیت اور نہ وسیع تر مشاورت کا تکلف۔پھر نتیجہ ڈسکہ الیکشن جیسا نکلتا ہے،جہاں دنگا فساد ہوا‘ دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں وہ الیکشن کمیشن کے ماتھے پر بدنما داغ بن گئیں لیکن پنجاب حکومت کی نااہلی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جا سکتا ہے نہ بیس پریذائیڈنگ افسروں کی کئی گھنٹے تک گمشدگی کا ذمہ دار اکیلا راجہ سلطان ہے۔ بہرکیف مطلب سادہ ساہے کہ پورے سسٹم کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ خان صاحب کے پاس بالنگ اور بیٹنگ بہتر کرنے کے لیے ابھی ان کے پاس دوسال ہیں، اس کے ساتھ ہی اب تک ہونے والی سیاسی غلطیوں کو ماننا بھی ہوگا، میں عمران خان کو کرکٹ کے زمانے سے جانتا ہوں اور پتہ ہے کہ وہ زبردست فائٹر ہے۔اُن میں اپنے تاثر کو ٹھیک رکھنے اور اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔اس لیے لگتا یوں ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے آپ کی مہربانی ہے ، کہ فیلڈنگ ٹھیک کھڑی کریں، آپ خود آل راﺅنڈر کی کارکردگی دکھائیں اور ایک ایک کرکے اپنے وسیم اکرم اور وقار یونس کو ٹھیک کریں۔ اپوزیشن کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں ، کیوں کہ جب آپ کارکردگی دکھا رہے ہوں گے تو یہ لوگ اپنی موت خود ہی مر جائیں گے!!!