فارن فنڈنگ کیسز :کمزور الیکشن کمیشن ؟

فارن فنڈنگ کیس کی کہانی چند دوستوں کی ہے، جنہوں نے1996ءمیں ایک سیاسی پارٹی بنائی جس کا نام تحریک انصاف رکھا۔ ایک دوست (عمران خان) چونکہ زیادہ شہرت رکھتا تھا، اس لیے اُسے پارٹی کا چیف جبکہ باقی دوستوں کو دیگر صوبائی و مرکزی عہدے دے دیے گئے۔ پارٹی کئی سال تک اپنی مدد آپ کے تحت چلتی رہی مگر ”دوست“ خاطر خواہ نتیجے نہ لاسکے۔ اور ماسوائے ”چیف“ کے کئی سال تک مذکورہ پارٹی میں کوئی دوست قومی اسمبلی تک نہ پہنچ سکا۔ پھر چیف نے مبینہ طور پر ”غیبی“ مدد لینا شروع کی۔غیبی مدد دینے والوں نے چیف کو سمجھایا کہ آپ کے دوست اس قابل نہیں کہ وہ پورے ملک سے سیٹیں حاصل کر سکیں اس لیے براہ کرم Electablesکو بھی ساتھ ملائیں، تبھی کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بات چیف کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 2011ءمیں ”سونامی“ آیا۔ لیکن سونامی کے بعد چیف کے پرانے دوست پیچھے یعنی بیک سٹیج چلے گئے۔اور اُن کی جگہ نئے لوگوں نے لینا شروع کردی۔ چیف کو اس بات کا احساس بھی تھا مگر وہ دوستوں کے شکوے سن کراپنے شکوے بھی سناتے رہے کہ دیکھو! اگر اقتدار لینا ہے تو ہمیں سرخم سب کچھ تسلیم کرنا ہوگا۔ اس پر دوست چپ رہے کہ شاید پارٹی اوپر جائے گی تو اُنہیں اُن کی قربانیوں کے بدلے اہم عہدے مل سکتے ہیں۔ پھر 2013ءکے الیکشن میں تحریک انصاف نے اپنی 95فیصد ٹکٹیں نئے لوگوں کو تقسیم کیں اور بانی اراکین یعنی ”دوستوں“ کو پھر سے لارا لگا دیا گیا۔ جس کے بعد ”دوستوں“ کے درمیان پھوٹ پڑنا شروع ہوگئی اور یہ ایک دوسرے سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے۔ چیف پریشان تھا، لہٰذااُس نے ان دوستوں کو نوازنے کے لیے بیک سٹیج اہم ذمہ داریاں دینا شروع کردیں۔ کسی کو چیف اکاﺅنٹنٹ بنا دیا تو کسی کو اپنے آفسز کا انچارج یا منیجر ٹائپ بنا دیا۔ اب دوست چونکہ ایسی سیٹیں نہیں چاہتے تھے لیکن وہ صاف انکار بھی نہیں کرنا چاہ رہے تھے اس لیے انہوں نے عہدے قبول کیے۔ اور کام کرنا شروع کردیا۔ جب دوستوں کے سامنے اندرونی معاملات آئے تو وہ پریشان ہوگئے اور بدظن ہونا شروع ہوگئے کہ یہ وہ پارٹی نہیں جس کی انہوںنے بنیاد رکھی تھی لہٰذاوہ دوستی اور پارٹی سے الگ ہوگئے۔ انہی دوستوں میں سے ایک دوست اکبر ایس بابر بھی تھے جنہیں جنہیں پاکستان تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔بابر نے پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں 2014 میں درخواست دائر کی تھی جس پر ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی نے عدالت میں 96 سماعتیں کیں۔ بابر نے الزام لگایا تھا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاو¿نٹس میں منتقل کیے گئے اور پی ٹی آئی نے ان بینک اکاو¿نٹس کو الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔ اُن کا ذاتی موقف ہے کہ وہ پارٹی کو بچانا چاہتے ہیں تاکہ چیف رہے نہ رہے مگر پارٹی قائم رہے اور بہترین ہاتھوں میں رہے۔ جبکہ اُن کے مخالفین اور تحریک انصاف کے بقول اکبر ایس بابر ن لیگ کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ خیر یہ تو الگ باتیں ہیں مگر یہ پوری کہانی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب دو دوست لڑ پڑیں تو وہ کس طرح ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں اس کے لیے اس سے بہترین مثال کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ بہرحال میرے خیال میں اس کیس میں ساراکا سارا قصور میرے خیال میں الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والے بے شمار الیکشن بے ضابطگیوں کو پہلے دیکھتی رہتی ہے پھر ہلکی پھلکی سرزنش کرتی ہے اور پھر اللہ اللہ خیر صلہ! حالانکہ الیکشن کمیشن کا دنیا بھر میں کام جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاںاُلٹا کمزور جمہوریت کی داغ بیل ہی الیکشن کمیشن نے ڈالی ہے۔ کیسے! اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ مجھے حال ہی میں کے پی کے جانا ہوا جہاں بلدیاتی الیکشن ہو رہے تھے، پشاور کی ایک یونین کونسل پہنچا تو میں نے دیکھا جگہ جگہ چپلی کباب، بار بی کیو اور دیگر کھانے وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا، اس طرح کے کئی مقامات کے قریب سے گزرنے کے بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ تکے کباب کا یہ انتظام عام دکانوں والا نہیں بلکہ کچھ خاص ہے۔ ذرا غور کیا تو پتا چلا کہ جہاں جہاں کبابوں کی انگیٹھیاں لگی ہیں وہاں مسلم لیگ (ن) یا تحریک انصاف یا اے این پی وغیرہ کے جھنڈے بھی لگائے گئے ہیں جو بلندی پر ہونے کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں نظر سے اوجھل ہوگئے تھے۔ یہ بات لوگوں کو پوچھ کر پتا چلی کہ جھنڈے کباب والوں کے سیاسی رجحانات کی عکاسی نہیں کررہے تھے بلکہ لوگوں کو مفت میں کباب کھانے کی دعوت دے رہے تھے۔ میرے لیے الیکشن مہم کا یہ انداز بالکل نیا اور حیران کن تھا۔ میں نے اپنی حیرانی سوال کی صورت میں ایک امیدوار برائے چیئرمین یونین کونسل کے سامنے رکھی تو انہوں نے کبابوں کی بھری پلیٹ میری طرف سرکاتے ہوئے کہا، ’لیجیے سرکار!۔ میں نے اصرار کرکے پوچھا کہ آخر مخلوق کے کھانے پر کتنے پیسے لگ چکے ہیں۔ انہوں نے بے پروائی سے کہا، ”دو ڈھائی کروڑ لگ چکے ہیں، پولنگ والے دن تک پچاس ساٹھ لاکھ مزید لگ جائیں گے زیادہ سے زیادہ“۔ یونین کونسل کے الیکشن پر تین کروڑ روپے کے اخراجات سن کر مجھے تو چکر اگیا۔ ذہن میں پہلا سوال اٹھا کہ یہ الیکشن ہے یا پیسے خرچ کرنے کا مقابلہ؟ اس کے بعد میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں جو کچھ سمجھا یہ تھاکہ پاکستانی الیکشن بالعموم اوربالخصوص اب دویا تین دولت مندوں کے درمیان اپنی ذات کی نمودونمائش کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ جب یونین کونسل کے الیکشن کا یہ حال ہے تو ایم پی اے اور ایم این اے لیول کے الیکشن کا کیا حال ہوگا۔ پھر یاد آیا کہ لاہور ہی میں 2015ءمیں ایک بڑا ضمنی الیکشن علیم خان اور ایاز صادق کے درمیان بھی ہوا تھا جس میں الیکشن کمیشن سویا رہا اور کم و بیش 2ارب روپے اس الیکشن میں خرچ ہوئے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کے مطابق ایم پی اے کے الیکشن میں 20لاکھ اور ایم این اے کے الیکشن میں40لاکھ کے اخراجات کی حد مقرر ہے۔ مگر پورے ملک میں کوئی ایسا الیکشن بتا دیں جو اتنے پیسوں میں ہوتا ہو۔ لہٰذاکمزور الیکشن کمیشن کی بدولت ہمارے الیکشنز عام آدمی کی دسترس سے نکل چکے ہیں یہاں روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا اور اقتدار میں آنے کے بعد اسی طرح اکٹھا بھی کیا جاتا ہے۔ اور رہی بات فارن فنڈنگ کیس کی تو یقین مانیں اس حوالے سے ہمارے الیکشن کمیشن نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے اگر تاریخ دیکھیں تو 1989ءمیں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو پہلی بار باقاعدہ فارن فنڈنگ بھی سامنے آئی اور یہ فارن فنڈنگ اسامہ بن لادن مبینہ طور پر ایک بڑے سیاسی خاندان کے ذریعے کررہا تھا۔ یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک برادر ملک کے حکمران کو سخت پیغام بھیجنا پڑا۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سرمائے کا عمل دخل اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی ترجیح سیاسی اور انتخابی نظام میں کوئی جوہری اصلاح نہیں رہی۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں میں انہی لوگوں کا اثرورسوخ ہے جو سرمائے کے زور پر پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر جماعت نے سینیٹ کی کچھ نشستیں صرف ان لوگوں کیلئے مخصوص کررکھی ہوتی ہیں جو دراصل براہ راست جماعت کے رہبروقائد کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام ایسے ہوتا ہے کہ لینے اور دینے والے ہاتھ کے سوا کسی کو خبر نہیں ہوتی اس لیے عام طور پرایسی کسی رقم کا ذکربھی سیاسی جماعتوں کے کھاتوں میں نہیں کیا جاتا۔ یہی حالت باہر سے آنے والے پیسے کی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے شوق، نظریے یا کاروبارکی خاطر مخصوص سیاسی رہنماو¿ں کی بیرون ملک میزبانی سے لے کر ان کی سیاست کیلئے سرمائے کی فراہمی تک سبھی کچھ کرتے ہیں۔ یہ جو پاکستان میں بار بار بات ہوتی ہے کہ دہری شہریت رکھنے والوں کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے تو دراصل یہ اسی قسم کے اصحاب کی خوشنودی کیلئے کی جاتی ہے۔ باہر سے آنے والا پیسہ بھی عام طور پر رہبروقائد کے ہاتھ میں بغیر کسی حساب کتاب کے نقد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے پیسے ایک آدھ کو چھوڑ کر پاکستان کے قائدین میں سے ہر ایک کی جیب میں موجود ہیں۔ اگر یہ پیسہ جیبوں میں پڑا بول سکتا تو یقین مانیے ہر جبہ ودستار، ہر اچکن، ہر واسکٹ اور ہر ٹائی کوٹ میں سے جو آوازیں آتیں انہیں سن کر ہم جیسے عوام کے تو دل ہی پھٹ جاتے۔ بہرکیف پاکستان میں فارن فنڈنگ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کے جائزوناجائز کا مسئلہ صحیح معنوں میں تحریک انصاف کے بانیوں میں شامل اکبر ایس بابرکا اٹھایا ہوا ہے۔ ان کی کل معلومات وہ ہیں جو دراصل انہیں عمران خان کی دوستی کی وجہ سے حاصل ہوئیں اور ان کی کل جدوجہد کی بنیاد عمران خان سے مخاصمت ہے۔ اس لیے فارن فنڈنگ کیس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے سامنے ہوتا رہا ، لیکن سبھی نے مجرمانہ خاموشی قائم کیے رکھی ۔ فرض کیا کہ تحریک انصاف اس ضمن میں قصور وار ہے۔ تو کیا اب جب سیاسی پارہ عروج پر ہے، تو اس کا فیصلہ اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اسے چند ہفتوں میں نمٹایا جانا ضروری ہے۔ حالانکہ یہ کیس 2014سے زیر التواءہے۔ اور اب اگر اس کا فیصلہ فوری ہوتا ہے تو یقینا اس سے یہ تاثر جائے گا کہ یہ ایک خالصتاََ سیاسی کیس ہے۔ لہٰذافیصلہ کرنے والی قوتوں کے لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اگر کوئی اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تووہ سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو آزاد، مضبوط اور غیر جانبدار کرے۔ اسی میں ملک کی بقاءہے۔ کیوں کہ جب تک بہترین اور سلجھی ہوئی قیادت پاکستان کو میسر نہیں آتی تب تک خواہ عمران آئے، شہباز آئے یا نواز آئے اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا!کیوں کہ یہاں معذرت کے ساتھ الیکشن کمیشن ”الیکشن“ نہیں بلکہ جوا کرواتی ہے!