سیاست اور کھیل کو الگ رکھیں!

لیں جی! کرکٹ ٹیم ایک بار پھر ناکام ہو کر گھر کوآگئی ہے، بقول فیض احمد فیض دل نااُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ہم نااُمید تو نہیں ہیں مگر حالات کو دیکھتے ہوئے اگلے چند سالوں تک اس میں بہتری کی گنجائش بھی نظر نہیں آرہی۔ اور پھر اس ورلڈ کپ نے ون ڈے کرکٹ کی 48سالہ تاریخ کے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں۔ یعنی بین الاقوامی کرکٹ میں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ سب سے بڑا ایونٹ ہے ،جو چار سال بعد منعقد ہوتا ہے۔اب تک اس کے 12ٹورنامنٹ کھیلے جاچکے ہیں اور ان دنوں میں 13واں ورلڈ کپ بھارت میں کھیلا جارہا ہے۔آسٹریلیا سب سے کامیاب ٹیم ہے جو اب تک پانچ مرتبہ فاتح رہی، ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو مرتبہ جبکہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار عالمی چمپئن رہے۔ اس کی 48 سالہ تاریخ اٹھاکر دیکھی جائے تو ہر ٹیم نشیب و فراز سے گزرتی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال حالیہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے حوالے سے سامنے آئی ہے جہاں یہ سیمی فائنل کھیلے بغیر ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔یعنی پاکستان کرکٹ ٹیم ایک مرتبہ پھر کرکٹ ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے سے محروم ہوگئی، مجھے ٹیم کے سیمی فائنل پر نہ پہنچنے پر حیرانی نہیں ہوئی،کیوں کہ ہمیں یاد ہے کہ پچھلے 23 سالوں میں 6 ورلڈ کپ کرکٹ میں سے ہم نے صرف ایک سیمی فائنل کھیلا تھا ( 2011) ، پھر حیرانی اور مایوسی کیوں۔ٹیم کا معیار تو اب افغانستان سے ہارنے تک ہوگیا ہے، تو حیرانی کیوں؟ انڈیا کوہم نے آج تک ورلڈ کپ کرکٹ میں نہیں ہرایا ، تو اس بار امید اور حیرانی کیوں؟ گو کہ جیسا میں نے پہلے بھی کہا یہ اس نوعیت کا پہلا موقع نہیں لیکن ایسی مایوس کن کارکردگی اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی۔گذشتہ میچ میں نیوزی لینڈ سے جیتنے کے بعد پاکستانی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں ایک نئی زندگی ملی تھی جس میں اسے سیمی فائنل تک پہنچنے کیلئے انگلینڈ سمیت تین میچ اعلیٰ رن ریٹ کی بدولت جیتنے تھے لیکن 9ویں میچ میں انگلینڈ کے ہاتھوں 93رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سارے ٹورنامنٹ میں یہ بابر الیون کی پانچویں شکست تھی جس کے فاتحین میں افغانستان بھی شامل ہے۔ قومی ٹیم نے 9 میں سے صرف 4میچ جیتے اور اس کا رن ریٹ 0.19 فیصد رہا۔کروڑوں پاکستانی شائقین اورمایہ ناز سابق کھلاڑیوں نے اس کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ پاکستان کی گراس روٹس میں شامل ہے، جہاں گلی محلوں سے کھیل کے میدانوں تک بہترین کرکٹ کھیلی جاتی ہے تاہم صرف عمدہ مینجمنٹ ہی اسے عالمی افق پر روشن و درخشاں رکھ سکتی ہے۔لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، کہ جس ڈیپارٹمنٹ میں آپ دیکھ لیں، سیاسی بھرتیوں نے بیڑہ غرق کر دیا ہے، یہاں سیاست اور کھیل ایک دوسرے سے لازم و ملزوم قرار دے دیے گئے ہیں۔ سیاستدانوں کو جہاں روپے پیسے کی ریل پیل نظر آتی ہے، وہیں وہ اپنا بندہ بٹھا دیتے ہیں۔ جیسے حال ہی میں ہوا۔ ایک سابق کرکٹر رمیض راجہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر براجمان تھے۔ لیکن جیسے ہی شہباز شریف (پی ڈی ایم )کی 16سالہ حکومت آئی تو اُنہوں نے اپنا بندہ نجم سیٹھی کی صورت میں لا کر بٹھا دیا۔ اب چونکہ یہ عہدہ پیپلزپارٹی کو بھی کھٹک رہا تھا، اس لیے انہوں نے بڑے میاں صاحب سے ڈیمانڈ کی کہ یہ عہدہ اُن کی من پسند شخصیت کو دیا جائے۔ تو ایسے میں اُن کے منظور نظر ذکا اشرف کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا ۔ اب یہ سوال الگ ہے کہ نجم سیٹھی اس عہدے کے لیے قابل تھے، ذکا اشرف قابل ہیں یا رمیض راجہ زیادہ بہتر تھے۔ مگر اس وقت سوال یہ ہے کہ جب آپ ایسے عہدوں پر سیاسی لوگوں کو لے آتے ہیں، تو پھر ٹاپ ٹو باٹم پورا سسٹم ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ پھر آپ کو پوری دنیا میں رسوائی کا سامنا کرپڑتا ہے۔ یہی حال سری لنکن کرکٹ بورڈ کا بھی ہوا ہے ، جہاں کرپشن نے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہاں پرکرکٹ بورڈ کو برطرف کیا گیا مگر وہ عدالتوں اور آئی سی سی کی دھمکیوں کے بعد دوبارہ بحال ہوا ہے۔ اور وہاں بھی کرکٹ کا مزید بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ یعنی دونوں بورڈز ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ دونوں میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ اور دونوں ممالک ہی کرپشن کے باعث اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں۔ لہٰذااس صورتحال کے بعد ایک بات تو طے ہو گئی کہ قومیں بادشاہوں اور حکم ناموں سے نہی عوام سے بنتی ہیں، کرکٹ ٹیم عوام اور پاکستانی سوسائٹی کا عکس ہے ، مجھے ملک کا کوئی شعبہ بتا دیں جو ترقی کررہا ہو ، ہماری کرکٹ ٹیم قوم کی عکاسی ہے، ملک میں کرکٹ ٹیم کا انفرا اسٹرکچر کا نام و نشان نہیں۔شہروں سے کرکٹ ایک زمانے سے ختم ( شہروں کے گراو¿نڈ شاپنگ پلازہ اور بلڈنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں) ، اب صرف گاو¿ں دیہات سے لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں، جن میں تعلیم برائے نام ہے، کرکٹ اب کھیل نہیں ایک سائنس ہے، جس کو سمجھنے کے لیے انسان کو پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، یہ گاو¿ں دیہات کے لڑکے ہمیں اسی طرح کے ہٹ اور مس رزلٹ دیں گے، ان کھلاڑیوں کی اردو میں بھی باتیں سنوں تو کوئی سائنٹفک بات نہیں، ان کا کوئی قصور نہی، قصور اس ناکارہ بدبو دار اور بوسیدہ سسٹم کا ہے، جس کا شکار پورا ملک ہے ، صرف کرکٹ ٹیم ہی نہیں۔۔۔۔جب تک ملک کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا، کرکٹ ٹیم ٹھیک نہیں ہوگی۔ اور پھر یہی نہیں ہم نے اپنے سابقہ کرکٹرز اور ہیروز کے ساتھ بھی سلوک ناروا رکھا ہوا ہے۔جو قوم کا ہیرو ہوتا ہے، چند ناپسندیدہ عناصر اُسے سیاسی بناکر اُس کی درگت بناتے ہیں اور پوری قوم اُس کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ حالانکہ ہمیں اُسی طرح ان کی قدر کرنی چاہیے جس طرح باقی دنیا میں اپنے ہیروز کی کی جاتی ہے۔ اس وقت بھی آئی سی سی نے اُن تمام کپتانوں کوجنہوں نے ورلڈ کپ جیتا ہے، کو بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کا فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کیا ہوا ۔ ظاہر ہے پاکستان سے سابق وزیر اعظم کو مدعو کیا ہوا ہے، لیکن آئی سی سی یہ بھی جانتی ہے کہ وہ جیل میں ہیں، اُسے علم نہیں کہ وہ کس جرم میں قید ہیں، اور چونکہ ویسے بھی یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس کے برعکس اگر پاکستانی حکومت اُنہیں پیرول پر رہائی دے دے ۔ تو وہ یقینا پاکستان کا نام سربلند کر سکتے ہیں۔ اس سے پاکستانی حکومت اور اداروں کا نام روشن ہوگا۔ آپ اس معاملے کو سیاست سے ہٹ کر دیکھیں اور سوچیں کہ سیاست میں آنے سے قبل وہ ایک کرکٹ کھلاڑی تھے۔ وہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے جنہوں نے کرکٹ عالمی کپ 1992ءجیتا۔ سبکدوشی کے بعد انہوں نے خدمت خلق کے کام کا آغاز کیا۔ کرکٹ میں متعدد موقعوں پر عمران خان کو سر گیری سوبرز کے بعد سب سے بہترین آل راو¿نڈر تسلیم کیا گیا۔ انہیں 1989ءمیں سال کے بہترین وزڈن کرکٹ کھلاڑیوں میں اور سنہ 2010ءمیں آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل کر لیا گیا۔ اپنی کرکٹ زندگی کے دوران انہوں نے متعدد پلیئر آف دی میچ کے اعزازات حاصل کیے۔ انہیں گیارہ موقعوں پر اعزاز ملے جن میں سے پانچ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے خلاف تھے۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ وہ اپنی ضد اور انا کی وجہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، مگر آپ اُس کی قابلیت دیکھیں کہ اُس نے 1985 میں آئی سی سی کو نیوٹرل امپائرنگ کا مشورہ دیا جسے رکن ممالک کی اکثریت نے مسترد کردیا۔ دس سال بعد آئی سی سی کو نیوٹرل امپائرنگ کا سسٹم رائج کرنا پڑگیا۔پھر اُس نے 1987 میں دنیا کا سب سے بڑا فری کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا۔ سب نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ چند سال بعد یہ ہسپتال حقیقت بن گیا۔پھر اُس نے 1983 کا ورلڈ کپ ہارنے کے بعد کہا تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن ورلڈکپ جتوا کر دکھائے گا۔ نو سال بعد یہ دعوی بھی اللہ کی مہربانی سے درست ثابت ہوگیا۔اُس نے 1997 میں دعویٰ کیا کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر دونوں بڑی جماعتوں کو آو¿ٹ کردے گا۔ 21 سال بعد یہ دعویٰ بھی درست ہوگیا۔پھر اُس نے 2000 میں ایک میچ میں کمنٹری کے دوران کہا کہ یونس خان پاکستان کا مستقبل کا سب سے بہترین بیٹسمین اور ورلڈ کپ جتوانے والا کپتان بنے گا۔ 8 سال بعد یہ دعوی بھی درست ہوگیا۔2002 میں سابق وزیر اعظم نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکے گا، اسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ 18 سال بعد یہ دعوی بھی درست ثابت ہوگیا۔آپ یہ بھی چھوڑ دیں۔ گزشتہ سال ہونے والے ایک سروے میں دنیا کے بہترین کپتان کا اعزاز بھی اُسے ہی حاصل ہے۔۔۔ جس میں اُنہیں سب سے زیادہ سینتالیس فیصد ووٹس ملے۔جبکہ بھارت کے ویرات کوہلی نے 46 فیصد ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہے۔اس کے علاوہ جنوبی افریقہ کے سابق کپتان اے بی ڈی ویلئیرز اور آسٹریلیا کی ویمنز ٹیم کی کپتان میگ لیننگ کو بھی رائے شماری میں شامل کیا گیا۔پھر عمران خان کو بی بی سی نے ”دنیا کے سب سے عمدہ فاسٹ بالروں میں سے ایک“ کہا۔ای ایس پی این کرک انفو نے انہیں ”پاکستان سے ظاہر ہونے والا عظیم ترین کرکٹ کھلاڑی اور گیری سوبرز کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین آل راو¿نڈر“ کہا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بڑے پن کا مظاہر کرے اور کھیلوں میں فروغ کی خاطر اور ”سپورٹس مین سپرٹ “ کی خاطر سابق وزیر اعظم اور فاتح ورلڈ کپ کو تھوڑا ریلیف فراہم کرے، اس کے لیے آئی سی سی کو گارنٹی کے طور پر شامل کرے کہ وہ بیرون ملک کوئی سیاسی بیان نہیں دیں گے۔ اور فرار تو وہ ویسے بھی نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اگر فرار ہونا ہوتا تو یہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاستدان بہت جلد جیل کی سلاخوں سے نکل کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ اس کے لیے خواہ اُنہیں اپنے آپ کو مردہ ہی کیوں نہ ثابت کرنا پڑے وہ کر دیتے ہیں۔ لہٰذاخان صاحب کو فوری طور پر بھارت بھیجنا چاہیے تاکہ قوم کی نظروں میں ہم کرکٹ میں تو زندہ رہیں! باقی کھیلوں کا اللہ وارث!