مہنگائی: آخر قصور وار کون؟

پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اوگر اکی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں اگر 6، 7روپے اضافہ کرنے کی تجویز آتی تو حکومت بمشکل ڈرتے ڈرتے 2یا 3روپے کا اضافہ کرتی۔ لیکن پھر ایسا موڑ آیا کہ موجودہ حکومت کے پاس اوگرا کی طرف سے اگرپیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ تجویز کیا جاتا ہے تو حکومت اس میں دس روپے کا اضافہ کردیتی ہے، حکومت کا اتنا بڑا ”جگرا“ دیکھ کر تو مجھے جگر مراد آبادی کا شعر یاد آگیا کہ چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا تماشا تو واقعی لگ چکا ہے، کیوں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ایسا ایک ماہ میں دوسری مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اور پھر حیرت اُس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب حکومتی وزراءعوام کا مورال بلند کرنے، یا اُنہیں اعتماد میں لینے کے بجائے اُنہیں نت نئے طریقے سمجھاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے آپ کے حالات درست ہو سکتے ہیں، ویسا کرنے سے آپ سکھی رہ سکتے ہیں وغیرہ ۔ مثلاََوفاقی وزیر علی امین گنڈا پور فرماتے ہیں کہ یار2 کی بجائے ایک روٹی کھالو، کھانا کھاتے 9نوالے کم کھامرلو،چائے کے کپ میں 9دانے چینی کم ڈال لو، حالانکہ علی امین گنڈاپور کی ایک تصویر دیکھی، موصوف چندمصاحبین کے ساتھ کھانا کھا رہے، تصویر میں ڈشیں گنیں تو12نکلیں، قوم چائے میں چینی کے 9دانے کم ڈالے،9نوالے کم کھائے،پیٹ پر پتھر باندھے جبکہ اپنا کھانا درجن بھر ڈشز پر مشتمل! مطلب بندہ بات وہ کرے جس پر خود بھی قائم رہے! پھر حکومت سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ پوچھیں تو آگے سے وزیر اطلاعات کا یہ جواب سننے کو ملتا ہے: ہم دنیا سے ہٹ کر کسی الگ سیارے پر نہیں رہتے، اگر دنیا میں گیس اور تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی تو پاکستان میں بھی اضافہ ہوگا۔ سارا ملک سبسڈی پر نہیں چل سکتا۔ جی ہاں! حکومت درست فرما رہی ہے۔ اس کا یہ عذر منطق سے خالی نہیں ہے مگر کاش! حکومت کو یہ سب الیکشن سے پہلے معلوم ہوتا اور وہ عوام کو ناممکن وعدوں کی چکی میں نہ پیستی۔ اس وقت تو اسے مہنگائی کے پیچھے صرف کرپشن نظر آتی تھی مگر اب...؟ مرزا غالب کی سنیں، کیا کہتے ہیں بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی یعنی آپ کیسے ”ڈنڈا سوٹا“ پکڑ کر حکومت چلا سکتے ہیں؟ اور پھر اس بات سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات سمیت گھی، چینی، آٹا، چاول اور روز مرہ کی اشیاءمیں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا! آپ خود عالمی رینکنگ دیکھ لیں جو اسی ہفتے شائع ہوئی ہے یعنی بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ نے مہنگائی کے اعتبار سے دنیا 43 ممالک کی فہرست جاری کی ہے۔جس کے مطابق پاکستان10فیصد مہنگائی کی شرح کے بعد دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے، رپورٹ کے مطابق دنیا میں مہنگائی کے اعتبارسے پاکستان سے صرف 3 ممالک ارجنٹائن، ترکی اور برازیل آگے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن میں ہے جہاں اس کی شرح 51 اعشاریہ 4 فیصد ہے۔دوسرے نمبر پر ترکی ہے جہاں پر مہنگائی کی شرح 19 اعشاریہ 6 فیصد اور برازیل میں یہ شرح 10 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔اور اگر ہم اپنا موازنہ بھارت سے کریں تو دی اکانومسٹ کی فہرست کے مطابق پاکستان اپنے پڑوسی ملک بھارت سے مہنگائی میں 12درجے آگے ہے۔یعنی بھارت اس فہرست میں 4 اعشاریہ 3 کی شرح کے ساتھ 16ویں نمبر پر ہے۔جبکہ اس فہرست میں ”خوش قسمت ترین ممالک میں جاپان سب سے آگے ہیں جہاں مہنگائی کی شرح منفی صفراعشاریہ 4فیصد رہی ہے۔ خیر یہ بات بھی حکومت کی کسی حوالے سے درست ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے، مثلاََ جن ملکوں میں مہنگائی کی شرح بمشکل ایک یا دو فیصد سالانہ رہتی تھی وہ 6،7فیصد پر کھڑے ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں عوام کی قوت خرید بھی زیادہ ہے جس سے وہاں زیادہ شور شرابہ نہیں ہو رہا۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں روپیہ ڈی ویلیو ہونے کی وجہ سے سارے مسائل کھڑے ہورہے ہیں، حالانکہ حکومت نے روپے کو ڈی ویلیو کرنے اور اُسے زبردستی نہ روکنے کا منصوبہ بھی خود ہی بنایا تھا، حکومت نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو سکے مگر برآمدات میں زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔ اکتوبر 2018ءمیں برآمدات 23 ارب ڈالر تک تھی جو آج لگ بھگ 25 ارب ڈالر تک ہیں۔ برآمدات کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر روپے کی بے قدری مہنگائی کا سونامی لے آئی اور ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت عوام کو مہنگائی کی اصل وجہ ہی نہیں بتا رہی۔اکتوبر 2018ءمیں عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 85 ڈالر فی بیرل تھی اور آج بھی لگ بھگ یہی قیمت ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت پٹرول عوام کو 92 روپے 83 پیسے فی لیٹر میں فراہم کر رہی تھی مگر آج یہ 137 روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت ڈالر 133 روپے کا تھا اور آج 171 کا ہے۔ ڈالر کی اڑان کا ذمہ دار کون کوئی بھی ہو، یا اس کے پیچھے محرکات کچھ بھی ہوں مگر ایک بات تو طے ہے کہ حکومت کو عوام کے سامنے ان مسائل کو صحیح طرح رکھنا نہیں آرہا۔ حالانکہ یہ کام وزیروں کا ہے کہ وہ اس حوالے سے بیان کریں کہ اگر ہم آج اپنے روپے کو حقیقی جگہ پر لے آئیں گے تو مستقبل میں ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اور ہمیں روپے کو مصنوعی انداز میں مستحکم نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے برعکس حکومت یہ واویلا کرتی ہے کہ خطے میں آج بھی پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہم سے مہنگا تیل بیچ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ حکومت یہ نہیں بتاتی کہ ان کی کرنسی کی قدر ہم سے کتنی بہتر ہے۔ بھارت میں ڈالر 75 روپے، بنگلہ دیش میں 85 ٹکا اور پاکستان میں 173 روپے کا ہے۔ کیا معاشی طور پر مضبوط اور کمزور ملکوں کو ایک ہی ترازو میں تولا جا سکتا ہے؟مہنگائی کے مسئلے پر حکومت اتنی ناقابل فہم دلیل دیتی ہے کہ اس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔چلیں ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ حکومت ٹھیک کہہ رہی ہے اور خطے میں پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے، تو براہِ مہربانی حکومت یہ بھی بتا دے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے شہریوں کی قوتِ خرید ہم سے کتنی زیادہ ہے۔ یہاں آکر حکومت غلط دلائل دے بیٹھتی ہے، جس سے عوام زیادہ پریشان اور ”لاوارث“ ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت بنگلہ دیش میں اوسطاً فی کس آمدنی 3 لاکھ 44 ہزار روپے (2227 ڈالر) ہے۔ بھار ت میں اوسط فی کس آمدنی تین لاکھ روپے (1947 ڈالر) ہے اور پاکستان میں اوسط فی کس آمدنی 2 لاکھ 38 ہزار روپے (1543 ڈالر) ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں جب پاکستانیوں کی قوتِ خرید خطے کے باقی ممالک سے کم ہو گی تو وہ اتنا مہنگا پٹرول کیسے خرید سکیں گے۔اور اگر آپ نے پھر بھی مشکل حالات میں اُنہیں مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور کرنا ہے تو کم از کم دلائل تو درست دیں! یعنی میں پھر یہی بات کہوں گا کہ اگر آپ عوام کا مورال ہی درست کر لیں توہم بہت سی قباحتوں سے نکل سکتے ہیں۔ پھر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی وزراءاس مہنگائی کو بھی بغیر کسی دلائل کے پچھلی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں، کہ جناب پچھلی حکومتوں کا قصور ہے! حالانکہ یہ باتیں سُن سُن کر عوام کے کان پک چکے ہیں۔ اس لیے یہ بات سادگی کے ساتھ بتانے کی ضرورت ہے، یا اس پر مضامین لکھنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز پر اتنا زیادہ قرض کیسے چڑھ گیا۔ اور پھر اتنا بھاری قرض اور امداد پچھلی حکومتوں نے کیسے ڈکار لیا؟یعنی سوال یہ ہے کہ عوام سے پوچھا جائے کہ قرضہ لینے کے بعد ملک میں کتنی انڈسٹری لگی اور کتنے معاشی امکانات پیدا ہوئے؟ پھر یہ پیسہ آخر جاتا کہاں رہا؟اگر صرف یہی وجوہات تلاش کر لی جائیں اور ٹائم لائن کے ساتھ عوام کے سامنے فیکٹ اینڈ فگرز رکھے جائیں تو کم از کم عوام میں نفرت کا عنصر ضرور کم ہو جائے گا۔ یقین مانیں حقائق سب کے سامنے ہیں کہ آج ہمارے اوپر اتنا قرض ہے کہ دفاع سے ز یادہ رقم ہمیں ہر سال قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھنا پڑتی ہے تو یہ سوال پیدا ہونا تو فطری بات ہے کہ اتنا بھاری قرض کہاں خرچ کیا گیا؟ نہ ملک میں ڈھنگ کا انفرا سٹرکچر کھڑا ہوسکا نہ انڈسٹری لگ سکی، پیسہ کہاں گیا؟ آج حزب اختلاف مہنگائی کے لیے نکل رہی ہے تو اچھی بات ہے لیکن سوال وہی ہے کہ اس کے پاس متبادل کیا ہے؟ یہ احتجاجی تحریک محض ایک سیاسی ہتھکنڈا نہیں تو چند سوالات کے جوابات حزب اختلاف کو ساتھ لے کر نکلنا چاہیے۔ غیر ملکی قرض کیسے واپس ہو گا؟ سود ہر سال بڑھے گا، آج قرض پر سود اور قسطوں کی ادائیگی میں دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم جا رہی ہے۔ چند سال بعد یہ نوبت آئے گی کہ آدھے سے زیادہ بجٹ اس مد میں جائے گا پھر کیا ہو گا؟ کیا سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام آ سکتا ہے؟ کیا سب مل کر بیس پچیس سال کا معاشی ایجنڈا دے سکتے ہیں تا کہ سرمایہ دار کو معلوم ہو کہ حکومت بدلنے سے پالیسی نہیں بدلے گی اور وہ اعتماد سے سرمایہ کاری کر سکے؟کیا وسائل کا رخ اشرافیہ کی بجائے عوام کی طرف موڑا جا سکتا ہے؟قربانی کیا صرف عوام نے ہی دینی ہے یا ان طبقات نے بھی دینی ہے جو مغل شہزادوں جیسی زندگی گزارتے آئے ہیں۔اگر انہی آخری دو تجاویز یعنی لانگ ٹرم پالیسی اور اشرافیہ کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو یہ ملک بھی جاپان بن سکتا ہے، جس کا دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور وہاں مہنگائی ہر سال بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہے! #Inflation in Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan