اثاثہ جات کی دو نمبریاں !

میری دیہات کی پیدائش ہے ، بچپن بھی دیہات کی گلیوں میں گزرا، اس لیے کبھی کبھی آوارہ گردی کرنے کے لیے اپنے گاﺅں یا کسی بھی گاﺅں میں چلا جاتا ہوں، کئی علاقے تو عجیب و غریب بستیاں ہیں۔ ان بستیوں کو دیکھ کر حیرتوں کے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک ایسی ہی بستی دیکھی ، پوری بستی میں ایک بھی باتھ روم نہ تھا۔ یہ تو وہ زمانہ ہے کہ باتھ روم پر بے تحاشا دولت لٹائی جاتی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم کے بارے میں یہ خبر تواتر سے چھپتی رہی ہے کہ سرکاری گھر میں باتھ روم پر کروڑوں روپے صرف کر دیے۔ وہ تو خیر سرکاری معاملہ تھا۔ مال مفت دل بے رحم۔ اپنی جیب سے بھی جو لوگ مکان بنواتے ہیں، باتھ روم پر اس قدر توجہ دیتے ہیں جیسے حجلہ خاص یہی ہو! مہنگی ٹائلوں کا فرش! دیواریں دیدہ زیب ! ٹب، کموڈ، بیسن اعلیٰ سے اعلیٰ۔ مہنگے سے مہنگے۔ اپنے عرب بھائی تو باتھ روموں میں ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ خیر بستی کی طرف واپس چلتے ہیں عجیب و غریب بستی تھی! پوری بستی میں ایک باتھ روم بھی نہیں! سوچنے لگا لوگ آخر کیسے رہ رہے ہیں! کس طرح گزارا کر رہے ہیں! گھروں کے درمیان کچی پگڈنڈیاں تھیں۔ اس قدر تنگ کہ کار یا موٹر یا لاری گزر ہی نہ سکتی تھی! سنگ مر مر کی دیواریں تھیں نہ خالص دیار کی لکڑی کے دروازے کھڑکیاں، نہ روشندان ! شہ نشینیں نہ محراب! ملبوسات لٹکانے کی الماریاں بھی نہ تھیں! کسی ایک گھر میں بھی ایئر کنڈیشنر لگا ہوا نہ نظر آیا اور تو اور چھت والے عام برقی پنکھے بھی نہیں تھے۔ اس عجیب و غریب بستی کی تنگ کچی پگڈنڈی نما گلیوں میں پھرتے ہوئے مجھے اپنے شاہ خرچ حکمرانوں کے اثاثوں کا خیال آیا۔جو ابھی گزشتہ روز ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہوئے تھے۔ جس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان میں 10 غیر منقولہ جائیدادیں ہیں۔وزیر اعظم کے پاس زمان پارک لاہور میں 7 کنال کا وراثت میں ملا گھر ہے جس کی تعمیر پر 4 کروڑ 53لاکھ روپے اخراجات آئے۔عمران خان کو بنی گالہ میں 300 کنال کا گھر بطور تحفہ ملا ، عمران خان کے پاس 1 کروڑ 99 لاکھ روپے کیش ہے اور 2 لاکھ روپے مالیت کی چار بکریاں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اثاثوں کی مالیت 24 کروڑ 74 لاکھ روپے ہے۔ شہباز شریف کے پاس پاکستان میں جائیداد کی مالیت 1 کروڑ 47 لاکھ روپے ہے، ان کی لندن میں دو جائیدادوں کی مالیت 13 کروڑ 78 لاکھ روپے ہے۔(حالانکہ ان کے ڈرائیور، باورچی، خانسامے اور دیگر ملازمین کے اکاﺅنٹس میں اس سے زیادہ رقوم ملتی ہیں) ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے اثاثوں کی مالیت 1 ارب 58 کروڑ روپے ہے۔بلاول بھٹو کی پاکستان میں 19 غیر منقولہ پراپرٹیز ہیں۔ بلاول بھٹو کے پاس دبئی میں تحفہ اور وراثت میں ملی دو پر پراپرٹی ہیں۔(ان حکمرانوں کے تحفے بھی اربوں روپے سے کم کے نہیں ہوتے۔) جبکہ بلاول کے والد اور سابق صدرآصف علی زرداری کے اثاثوں کی مالیت 67 کروڑ ، 68 لاکھ روپے ہے۔ آصف زرداری کے پاس پاکستان میں 21 غیر منقولہ جائیدادیں ہیں۔(بندہ پوچھے کہ کیسے ممکن ہے کہ 32سالہ بیٹے کے اثاثے زیادہ اور باپ کے کم ہیں) ، خیر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی بیرون ملک 51 کروڑ روپے مالیت کی 5، پاکستان میں کروڑوں روپے مالیت کی 3 جائیدادیں ہیں۔فاقی وزیر شیخ رشید احمد کی پاکستان میں 4 کروڑ ، 18 لاکھ روپے مالیت کی 7 جائیدادیں ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کی پاکستان میں 5 جائیدادیں ہیں۔ اعجاز شاہ کی اہلیہ کے پاس 76 تولہ سونا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے اثاثوں کی مالیت 11 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ اسد عمر 66 کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ مراد سعید کے پاس 31 لاکھ روپے اور 15 تولہ سونا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 24 کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ وفاقی وزیر حماد اظہر 36 کروڑ اور ان کی اہلیہ 28 کروڑ سے زائد مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔نور عالم خان کے اثاثوں کی مالیت 3 ارب 20 کروڑ روپے ہے، وفاقی وزیر پرویز خٹک نے ساس کو ڈھائی کروڑ روپے قرض واپس لرنا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے الیکشن کمیشن میں چھ کروڑ روپے مالیت کے اثاثے ظاہر کیے ہیں(حالانکہ موصوف ایک ائیر لائن کے مالک ہیں، اور ایک جہاز کی قیمت 50کروڑ روپے سے زائد ہے) ۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی 10 جائیدادوں کی مالیت ساڑھے 3 کروڑ روپے ہے۔ ان اراکین کے علاوہ بھی تمام اراکین اسمبلی کے اثاثے الیکشن کمیشن نے ظاہر کیے ہیں، حیرت تو اس بات پر ہے کہ ظاہر کیے گئے اثاثوں اور ”حقیقی اثاثوں“ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور تمام اراکین کی جائیدادوں کا بیشتر حصہ یا تو اپنی بیویوں کے نام کر رکھا ہے یا بیٹوں، بہوﺅں کے نام۔ اور 90فیصد اراکین تو اثاثوں میں اس قدر غریب دکھائی دے رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر فخر ہو رہا ہے، کیوں کہ شاید میرے اثاثے ان سے زائد ہوں، لیکن مجھے علم ہے کہ یہ سب اثاثے جھوٹ کا پلندہ ہیں اور وہ حقیقت میں عام پاکستانی سے کئی درجے امیر اور شاہی زندگی گزارنے والے ہیں۔ کیوں کہ بادی النظر میں قیمتوں میں اس فرق کے اسباب نہایت واضح ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں جب کبھی اس طرح کی خرید و فروخت کی جاتی ہے تو اس خرید و فروخت میں اگرچہ فریقین پوری قیمت ادا کرتے ہیں اور پوری قیمت وصول کرتے ہیں مگر جب خرید و فروخت کا اندراج کرایا جاتا ہے تو کاغذات میں حقیقی قیمت کے بجائے اندازاً اور انتہائی کم قیمت کا اندراج کیا جاتا ہے اور یہ کاغذاتی قیمت ہی اس کی مالیت تسلیم کی جاتی ہے۔مثلاً ایک شخص اگر بیس لاکھ کی اراضی خریدتا ہے تو وہ اس کی قیمت کو کاغذات میں (یا رجسٹری کے دوران) چار یا پانچ لاکھ درج کرے گا۔ یہی اس کی مالیت تسلیم کی جائے گی اور اگر کل وہ اس اثاثہ کو ظاہر کرے گا تو یہی اس اثاثہ کی سرکاری مالیت ہوگی۔ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اول اثاثہ جات کی مجموعی مالیت کم ہو اور کسی تنقید و تعریض سے بچا سکے اور دوم اس لیے کہ ٹیکس بھی اسی کاغذاتی مالیت پر عائد ہوگا، جو ظاہر ہے حقیقی مالیت کے ٹیکس سے کئی گنا کم ہوگا۔جائیداد کی خرید و فروخت کا یہ طریقہ اگرچہ قانوناً جرم ہے لیکن بدقسمتی یہ طریقہ پاکستان میں رواج عام کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہرکیف ان اثاثوں کا خیال دماغ سے جھٹک کر نکالا اور تنگ گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے مکانوں کے درمیان چلتا رہا ،کہیں کہیں درخت لگے تھے۔ پوری بستی میں پانی کی بہم رسانی کا انتظام نہیں نظر آ رہا تھا،کوئی واٹر ٹینک کہیں نہ تھا۔ بجلی کا ایک کھمبا، ایک بلب نہ دکھائی دیا۔ مکانوں کے درمیان خالی جگہ اول تو تھی ہی کم، جو تھی وہ جھاڑیوں، جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھی۔ میں حیران پریشان! آخر یہ لوگ کس طرح رہ رہے ہیں یا خدا ! مکانوں کی چھتیں اس قدر نیچی کہ چھتوں کو ہاتھ لگانے کے لیے جھکنا پڑتا تھا۔ ایسی بستیاں پورے ملک میں ”آباد“ ہیں! ان آبادیوں میں رات دن اضافہ ہو رہا ہے ، سوچ میں پڑگیا کہ ایک طرف ہمارے ملک کی اشرافیہ ہے اور دوسری طرف رہنے والے یہ پرسان حال پاکستانی جن کی ایک بڑی تعداد یعنی 62فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ حکمرانوں کے اثاثے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے دو بڑے سیاسی خاندان امیر ترین خاندان بن گئے، 1998 میں شہباز شریف، سلمان شہباز، حمزہ شہباز اور نصرت شہباز کے اثاثوں کی مالیت 1 کروڑ 48 لاکھ تھی اور 2018 میں شہباز شریف اور ان کے بے نامی داروں کے اثاثوں کی مالیت 7 ارب 32 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔کیسے پہنچی کسی کو نہیں علم ! اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اراکین اسمبلی اور پاکستان کی صف اول کی بیوروکریسی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کے اثاثے اُن کی آمدن سے کئی گنا زیادہ ہیں، تبھی تو ان کے خاندانوں نے یورپی ممالک کی شہریت بھی لے رکھی ہے، قارئین کو یاد ہو گا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی فرح ناز اصفہانی کی رکنیت معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔۔امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی پاکستان کے علاوہ امریکہ کی شہریت بھی رکھتی تھیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہی اراکین اسمبلی بعد میں وزیر یا وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں لہٰذا وہ اس مقدمے میں سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔لیکن اس کیس کے بعد بھی ابھی 3ماہ قبل کئی مشیران اور وزیر دوہری شہریت کے حامل پائے گئے، سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کب اس پراسرایت سے نکلیں گے، کب تک یہ دونمبری کے اثاثے ہم عوام پرظاہر ہوتے رہیں گے اور کب تک پاکستان کی 62فیصد عوام غریب سسکتی رہے گی، کب تک پاکستان کی 88فیصد عوام انصاف کے ہاتھوں قتل ہوتی رہے گی، کب تک ہمارا نظام عام عوام کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہے گا۔ آج ہی کی خبر ہے کہ تھرپارکر میں ایک سال میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 106ہو چکی ہے، کیا کسی حکمران نے وہاں جا کر دیکھا کہ وہاں لوگ کس لیے اپنا گلا گھونٹ رہے ہیں؟ کیا ہم ان حکمرانوں سے اُمید رکھیں، جن کے ادوار میں کسی ایک ادارے کا سسٹم ٹھیک نہ ہوسکالیکن دو نمبریاں چلتی رہیں ، اور اب بھی چل رہی ہیں!!! بقول خواجہ میر درد وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا