عوام ان ”لوٹوں“ کو عبرت بنادیں !

چلیں یہ مان لیا کہ ریاست سے کوئی لڑ سکتا ہے نہ ہی کوئی اس میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو گمراہ اور شرپسند عناصر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اُکساتے ہیں وہ بھی برابر کے مجرم ہیں اور انہیں بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو ملتی ہے۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی املاک کی حفاظت کرے اور ذمہ داران کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کاغذی شیر جو اس وقت پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیںانہیں معلوم نہیں تھا ، کہ انقلاب لانے کے لیے جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے ماﺅزے تنگ کا انقلاب نہیں پڑا تھا؟ انہوں نے نیلسن منڈیلا پر ہونے والے تشدد اور کئی دہائیوں کی جیل تاریخ میں نہیں پڑھی تھی، انہوں نے چی گوئیرا کی جدوجہد کو نہیں پڑھا تھا؟ انہوں نے گاندھی جی کا نمک مارچ بھی نہیں پڑھاتھا؟ چلیں دور نہ جائیں کیا انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو یا نصرت بھٹو کے بارے میں بھی نہیں پڑھا تھا کہ جنہیں بھٹو کی پھانسی کے بعد کن اذیت ناک سزاﺅں اور قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ زیادہ لمبی بات نہیں بس اتنا کہوں گا کہ یہ جو لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں، میری سمجھ سے باہر کہ انقلاب میں ”مجبوری“ کیا ہوتی ہے؟ کیا ان لوگوں کو پہلے علم نہیں تھا کہ انقلاب بغیر قربانیوں کے نہیں آسکتے!کیا یہ رہنما چھوٹے سے بچے ہیں؟ یہ تو تھوڑی سی صعوبتیں اور مصیبتیں بھی برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے تو واقعی ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں ”ممی ڈیڈی“ ہیں۔ آپ فواد چوہدری کو دیکھ لیں، وہ ہمارا دوست ہے، مگر مجھے اُس سے اختلاف ہے کہ اُس نے اپنی سیاست کو ہمیشہ داغدار کیا ہے۔وہ پہلے پرویز مشرف کی پارٹی کے ساتھ منسلک رہے، پھرمارچ 2012ءمیں پیپلزپارٹی میں آئے اوروزیر اعظم گیلانی و پرویز اشرف کے مشیر خاص رہے۔ پھر 2013ءمیں ق لیگ کی سیٹ پر الیکشن لڑا اور سیٹ ہارے،،، پھر 2016ءمیں تحریک انصاف میں آئے اور یہاں ہر طرح سے اُنہیں عزت دی گئی، وہ 2016ءمیں تحریک انصاف کی سیٹ پر ضمنی الیکشن ہارنے کے باوجود اُنہیں پارٹی نے عزت دی اور تحریک انصاف کا ترجمان بنا دیا۔ پھر 2018ءمیں اُنہیں اضافی چارج سیکرٹری انفارمیشن کا دے دیا گیا۔ پھر فواد صاحب تحریک انصاف ہی کی سیٹ پر 2018ءکا الیکشن جیتے اور ایم این اے بنے اور ساتھ ہی اُنہیں وفاقی کابینہ کا وزیر بناتے ہوئے وزرات اطلاعات سونپی، پھر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنے، لیکن دوبارہ وزرات اطلاعات کے مستحق قرار پائے۔ اور جماعت پر برا وقت آنے سے پہلے تک وہ سیٹیں انجوائے کرتے رہے ، مگر جیسے ہی جماعت پر برا وقت آیا تو تحریک انصاف ہی کو خیر آباد کہہ دیا ۔ پھر فیاض الحسن چوہان کو دیکھ لیں۔ تحریک انصاف سے پہلے کیا کوئی اُنہیں جانتا تھا؟ ماسوائے اس کے کہ موصوف 2002ءمیں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے ۔ اس کے بعد چوہان صاحب 2018تک نا تو کوئی الیکشن جیت سکے اور نہ ہی کوئی خاص عہدہ حاصل کر سکے۔ بلکہ اُن کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ تو کونسلر کا الیکشن بھی نہ جیت سکتا اگر تحریک انصاف کی ٹکٹ کا ساتھ نہ ہوتا ۔ بلکہ یہ تو بھلا ہو تحریک انصاف کا کہ یہاں موصوف صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے تو ساتھ ہی وزیرا علیٰ کے مشیر خاص بھی بنادیے گئے اور انفارمیشن منسٹر برائے پنجاب بھی بناد یے گئے، پھر موصوف وزیر جیل خانہ جات بھی رہے۔ لیکن بجائے احسان مند ہونے کے اُلٹا گزشتہ روز تحریک انصاف ہی کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی اور اپنے قائدین کے خلاف ایسے ایسے الفاظ بولے کہ بس رہے رب کا نام ! ان کی اس حرکت پر مجھے شیر اور آدمی کے قصہ یاد آگیا، قصہ طویل ہے اس لیے مختصرا بیان کرتا ہوں کہ ایک شیر جال میں پھنس گیا، ایک غریب آدمی کا اُدھر سے گزر ہوا تو شیر نے اُسے آزاد کرنے کو کہا، غریب شخص نے ڈرتے ہوئے شیر کو آزاد کر دیا، بدلے میں شیر نے اُس غریب شخص کو شہزادے کا وہ ہار دیا جو اُسے جنگل سے ملا تھا، اس طرح وہ غریب شخص بھی امیر ہوگیا۔ لیکن اس کے برعکس بچھو پر ایک شخص نے احسان کیا تو بدلے میں اُس نے اُسے ڈنگ مار کر ہلاک کردیا۔ لہٰذاکہا جاتا ہے کہ جب آپ احسان کرو تو اُس کی نسل، قوم اور ذات کا ضرور پتہ کر لیا کرو ورنہ نقصان ہوتا ہے۔ الغرض یہ دونوں مذکورہ بالا صاحبان تو جیسے ہی موسم خراب ہوتا ہے، پارٹی چھوڑ کر دوڑ لگا دیتے ہیں۔ خیر پھر جمشید اقبال چیمہ اور اُن کی بیگم کو دیکھ لیں، ان صاحب کو تو عمران خان نے سیاست میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ یہ موصوف تو ممبر قومی اسمبلی بھی نہیں تھے مگر پھر بھی انہیں پارٹی میں اہم عہدے دیے گئے اور حکومت میں بھی یعنی 2021ءمیں سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر برائے فوڈ تعینات رہے۔ مگربرا وقت آیا تو خان کے خلاف پریس کانفرنس کھڑکا دی۔ پھر آپ میاں جلیل احمد شرقپوری کی بات کر لیں، آج یہ جو شور مچا ہوا ہے اور ہر دوسرے دن وہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں وہ تو آج تک کسی ایک جماعت کے رہے ہی نہیں۔ نہیں یقین تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیںکہ وہ 2002ءمیں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ایم این اے کی سیٹ جیتتے ہیں، پھر 2011ءمیں مشرف کی اے پی ایم ایل پارٹی میں چلے جاتے ہیں، وہاں کچھ نصیب نہیں ہوتا تو 2012ءمیں تحریک انصاف کو جوائن کر لیتے ہیں، اور 2013ءمیں خود ساختہ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور پھر 2015ءمیں تحریک انصاف کو دوبارہ جوائن کرتے ہیں۔ لیکن 2018ءکے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتتے ہیں مگر ساتھ ہی ن لیگ کے منحرف اراکین میں شامل ہو جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے لیے دوبارہ وفاداریاں پیش کر دیتے ہیں۔ تو ایسے بندے کا تحریک انصاف کے چھوڑ جانے پر میڈیا پر اتنا واویلا ہونے سے یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ حقیقت میں تحریک انصاف کو بدنام کیا جا رہا ہے؟ پھر آپ اسد عمر کو دیکھ لیں ، 2012ءمیں وہ تحریک انصاف جوائن کرتے ہیں، 2013ءمیں الیکشن جیت جاتے ہیں، پارٹی اُنہیں پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں میں نمائندگی کے لیے منتخب کرتی ہے، پھر 2018ءمیں دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو فیڈرل منسٹر برائے خزانہ بنا دیے جاتے ہیں، مگر وہاں وہ متاثر کن کارکردگی نہیں دکھاتے ، پارٹی اُنہیں پھر بھی سٹیپ ڈاﺅن نہیں کرتی اور دوسری وزارت سے نوازتی ہے۔ مگر جب پارٹی پر مشکل وقت آتا ہے تو جناب تتر بتر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک فوجی کی اولاد ہیں، کیا انہیں علم نہیں کہ ریاست کیا کر سکتی ہے؟ یہ دودھ پیتے بچے ہیں جو انقلاب کو راستے میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ پھر آپ چوہدری وجاہت حسین کو دیکھ لیں، چوہدری شجاعت حسین کے بھائی ہیں، وہ تو پہلے ہی ق لیگ کے ہیں تو اُن کے جانے پر اتنا شور کیوں؟ حالانکہ وجاہت حسین کی ”بہادری “ کا بڑا چرچا سنا تھا مگر لگتا تو یہ ہے کہ کہ یہ بس چھوٹی موٹی بدمعاشیاں کرتے رہے ہیں، بلکہ یہ تو سب سے ہلکے بہادر نکلے ہیں۔ یقین مانیں ان سب سے تو بہتر مجھے رانا ثناءاللہ لگنا شروع ہوگئے ہیں، حالانکہ میرے خیالات اُن کی سیاست کے حوالے سے کبھی اچھے نہیں رہے، مگر آج ان جعلی انقلابیوں کو دیکھتے ہوئے اُنہیں سلام ٹھوکنے کو دل کر رہا ہے کہ اُنہیں کس طرح مبینہ طور پر ایک جھوٹے منشیات کے کیس میں اندر کیا گیا اور ایک سال سے زائد عرصہ اُسے جیل میں رکھا۔ اس دوران اُس کی بیوی پریس کانفرنسوں میں ہاتھ جوڑتی نظر آئی، رانا صاحب کی دوران جیل مونچھیں کاٹ دی گئیں، تشدد تو بہت پیچھے رہ جاتا ہے، اُن کی فیملی کی تضحیک کی گئی مگر مجال ہے اُس نے پارٹی بدلی ہو۔ آپ سعد رفیق کو دیکھ لیں، کونسی صعوبتیں برداشت نہیں کیں، تحریک انصاف کے دور میں بھی اور پرویز مشرف کے دور میں بھی۔ کیا وہ یا اُس کے بھائی سلمان رفیق نے پارٹی چھوڑی؟ آپ ان رہنماﺅں کو چھوڑیں کیا کسی نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ کہ کس طرح جنرل ضیاءالحق یا جنرل پرویز مشرف نے سیاستدانوں پر چن چن کر ظلم کیے تھے۔ لیکن ان سب کو ایک دم حب الوطنی یاد آگئی ہے، کیا یہ سب لوگ پہلے سوئے ہوئے تھے؟ حالانکہ ان سب میں سے بہتر تو شیری مزاری ہیں جنہوں نے باعزت طریقے سے پارٹی چھوڑی ہے۔ کیا انہیں نہیں علم کہ پارٹی کے ساتھ وفاداری کیا ہوتی ہے؟ وفاداری دیکھنی ہے تو ہٹلر کے ساتھیوں کی دیکھ لیں۔ جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر فاشسٹ حکمران تھے ، پنے دورِ اقتدار میں انہوں نے مخالفین کی سرکوبی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہٹلر نے اپنی زندگی کے آخری دن اپنی محبوبہ ایوا براﺅن سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30اپریل کو رات 12بج کر 30منٹ پر روسی فوجیوں کی شدید گولہ باری کے دوران شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ہٹلر کے ساتھی گوئبلز نے بطور گواہ دستخط کئے۔اگلی صبح ہٹلر نے اپنے جرنیلوں سے ملاقات کی اور کہا کہ انجام قریب ہے۔اس نے سائنائیڈ کے کیپسول منگوائے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ قابل بھروسہ ہیں یا نہیں ،اپنے پیارے کتے کو ایک کیپسول کھلادیا۔تجربہ کامیاب رہا۔لیکن ہٹلر نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرنا مناسب سمجھا۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کڑے وقت میں بھی اس کے ساتھیوں نے وفاداری کی سنہری مثال قائم کی۔گوئبلز نے اپنے قائد کی تقلید کرتے ہوئے بیوی میگڈا کو ہدایت کی کہ اپنے 6بچوں کو مارفین دے دو تاکہ وہ سوتے ہوئے زندگی کی قید سے آزاد ہوجائیں۔بچے قربان ہوچکے تو گوئبلز اور اس کی بیوی میگڈا دونوں نے زہریلا کیپسول کھا کر خودکشی کرلی تو ہٹلر کی طرح انہیں بھی نذر آتش کردیا گیا۔بلکہ اُن کے ساتھ کئی ایک لوگوں خودکشیاں کیں۔ پھر دنیا میں بہت سے ایسے رہنما ہیں جن کے ساتھ اُن کے ساتھیوں نے اپنی زندگیوں کے فیصلے کیے۔ لیکن میں نے دنیا میں یہ واحد پارٹی دیکھی ہے جس کے بڑے بڑے عہدیداران ایسے پارٹی چھوڑ رہے ہیں جیسے وہ اس ٹیم کا کبھی حصہ ہی نہیں تھے، لہٰذاعوام سے گزارش ہے کہ ان ”لوٹوں“ کی اپنے اپنے حلقوں میں خبر لیں اور اُنہیں کبھی دوبارہ ایوان میں آنے کا موقع نہ دیں ورنہ ہمارے ایوان میں موقع پرستوں کی تعداد مزید بڑھتی جائے گا اورحقیقی سیاست ختم ہوتی جائے گی! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!